تاریخ شائع کریں2019 24 April گھنٹہ 19:44
خبر کا کوڈ : 416715

سعودی عرب میں 37 بے گناہ شیعہ افراد کو سزاے موت دے دی گئی

یہ تمام افراد شیعہ تھے اور سعودی شہری تھے
سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ 37 افراد کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزائے موت دے کر تلوار سے گردنیں اڑانے کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے
سعودی عرب میں 37 بے گناہ شیعہ افراد کو سزاے موت دے دی گئی
حال ہی میں سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ 37 افراد کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے سزائے موت دے کر تلوار سے گردنیں اڑانے کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ یہ تمام افراد شیعہ تھے اور سعودی شہری تھے۔
ان کا شمار ان بے دفاع اور بے گناہ شیعہ شہریوں میں ہوتا تھا جو گذشتہ دسیوں برس سے آل سعود کی آمرانہ رژیم کے پنجوں میں گرفتار ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں جب سعودی حکومت اپنے ہاتھ بے گناہ شیعہ شہریوں کے خون سے رنگین کر رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آخری بار بھی ثابت نہیں ہو گی۔
سزائے موت پانے والے یہ تمام افراد اندیشہ جیل میں قید تھے جبکہ ان میں سے اکثریت کا تعلق سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی شہروں "القطیف" اور "الاحساء" سے تھا۔ مظلومانہ انداز میں شہید ہونے والے ان افراد میں شیعہ علماء بھی شامل تھے۔ شیخ محمد عبدالغنی محمد عطیہ ان میں سے ایک شیعہ عالم دین تھے جنہیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سعودی رژیم نے شہید کر دیا ہے۔
 
آل سعود رژیم کے اس وحشیانہ اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اعتراض کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت سزائے موت کو اپنے مخالف شیعہ رہنماوں کے خلاف ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی اس تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیانیہ میں آیا ہے: "سعودی حکومت کی جانب اجتماعی سزائے موت دیے جانے سے یہ خوفناک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کی نظر میں انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے 37 افراد کو ظالمانہ عدالتی کاروائی کے بعد سزائے موت دیے جانے اور 18 سال سے کم عمر جوان کو بھی سزائے موت دینے پر مبنی اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے جنوری 2016ء میں بھی سعودی حکومت نے سعودی عرب کے معروف حکومت مخالف شیعہ رہنما آیت اللہ باقر النمر کو سزائے موت دے دی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک آل سعود رژیم شیعہ شہریوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ سعودی حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے اکثر شیعہ شہریوں کا تعلق مشرقی علاقوں قطیف اور احساء سے ہے۔
 
آل سعود رژیم کی جانب سے ملک کے مشرق میں مقیم شیعہ شہریوں کے خلاف ان ظالمانہ اقدامات کا مقصد انہیں طاقت کے زور پر کچلنا ہے اور آمرانہ انداز میں عوام کے منہ بند کروانا ہے تاکہ کوئی عرب شہزادوں کو ان کی کرپشن اور غلط پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنانے کی جرات نہ کر سکے۔ اس بارے میں بین الاقوامی امور کے ماہر طلال عتریسی کا کہنا ہے: "اس میں کسی قسم کے شک و تردید کی گنجائش موجود نہیں کہ سعودی حکومت یمن، شام اور عراق جیسے ممالک سے متعلق اپنی خارجہ پالیسیوں میں مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ ٹھیک اسی وجہ سے آل سعود رژیم عالمی رائے عامہ کی توجہ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل سے ہٹا کر اپنے اندرونی مسائل کی جانب مبذول کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔" طلال عتریشی مزید کہتے ہیں: "سعودی حکام اپنی اس حکمت عملی کے ذریعے خطے میں اپنی جنگ طلب پالیسیوں کی ناکامی سے متعلق سوالات کا سامنا کرنے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ملک کے مشرقی علاقوں میں مقیم شیعہ شہریوں کو قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ اس طرح عالمی رائے عامہ کو اپنے اندرونی مسائل کی طرف متوجہ کر سکیں۔"
 
دوسری طرف انسانی حقوق کے اکثر عالمی مراکز کی جانب سے سعودی حکومت کے ان وحشیانہ اقدامات پر مجرمانہ خاموشی قابل غور ہے۔ شیعہ شہریوں کے خلاف آل سعود رژیم کے ظالمانہ اقدامات پر یہ عالمی ادارے اور تنظیمیں چپ سادھے بیٹھے ہیں اور کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔ انسانی حقوق کے یہ نام نہاد ادارے اور تنظیمیں نہ صرف سعودی عرب کے شیعہ شہریوں پر سعودی حکام کے ظلم و ستم پر چپ سادھے ہوئے ہیں بلکہ مظلوم یمنی عوام پر سعودی بربریت پر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں پر مبنی سعودی جارحیت میں یمن کے ہزاروں شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ بڑی تعداد میں زخمی بھی ہیں۔ دوسری طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے یمن کا محاصرہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں کروڑوں افراد کی جان خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ اس سب کے باوجود خود کو انسانی حقوق کی مدافع قرار دینے والی عالمی تنظیمیں اور ادارے گونگے ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی یہ مجرمانہ خاموشی امریکہ اور مغربی طاقتوں کے اشارے پر جاری ہے۔ طلال عتریسی اس بارے میں کہتے ہیں: "دنیا بھر میں انسانی حقوق سے متعلق مسائل کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا موقف انتہائی عجیب ہے۔ یہ ایک واضح امر ہے کہ امریکی اور مغربی حکام اپنے مفادات کی بنیاد پر انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہیں اور انہیں ظلم و ستم کا شکار ہونے والے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔"
 
https://taghribnews.com/vdcdf90okyt0f56.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ