تاریخ شائع کریں2019 20 March گھنٹہ 17:48
خبر کا کوڈ : 409942

مغرب میں ایک منظم سازش کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے

علمائے کرام نے منگل کے روز اپنے ایک خط میں جسے اخبار گارڈین نے شائع کیا ہے
مختلف اسلامی تنظیموں اور انجمنوں نیز سرگرم عمل اہم شخصیات نے یورپ و امریکہ میں منظم سازش کے تحت اسلامو فوبیا کی ترویج پر سخت خبردار کیا ہے
مغرب میں ایک منظم سازش کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے
مختلف اسلامی تنظیموں اور انجمنوں نیز سرگرم عمل اہم شخصیات نے یورپ و امریکہ میں منظم سازش کے تحت اسلامو فوبیا کی ترویج پر سخت خبردار کیا ہے۔
دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں کے لکچروں اور پروفیسروں، اہم ثقافتی شخصیات خاص طور سے علمائے کرام نے منگل کے روز اپنے ایک خط میں جسے اخبار گارڈین نے شائع کیا ہے، سخت خبردار کیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے، مغرب میں ایک منظم سازش کے تحت انتہا پسندی اور اسلامو فوبیا کا ماحول بنائے جانے کا نتیجہ ہے۔
اس خط میں مغربی حکام اور ذرائع ابلاغ کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور اشتعال انگیزی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ رویہ اختیار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو انھیں مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو ہمیشہ بیگانہ اور پسماندہ نیز سماج و معاشرے کے خلاف ایک خطرے کے طورپر پیش کر دیا جاتا۔
برطانوی مسلمانوں کی کونسل کے چیرمین ہارون خان نے بھی برطانوی وزیراعظم تھریسا میے کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ نیوزی لینڈ کے دہشتگردانہ حملے کے بعد برطانیہ کے مسلمان تشویش مییں مبتلا ہو گئے ہیں۔
برطانیہ کے اسلامی انسانی حقوق کمیشن نے بھی ایک خط میں اپنے ملک کے وزیر داخلہ ساجد جاوید سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برطانیہ کے دینی مراکز اور دینی شخصیات کی حفاظت میں ہر طرح کی تفریق اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کریں۔
اس خط میں آیا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران برطانیہ میں مسلمانوں اور اسلامی و دینی مراکز پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے حملے نہ صرف جاری رہے ہیں بلکہ ان میں شدّت بھی پیدا ہوئی ہے اور اس وقت برطانوی مسلمانوں میں اپنی جان اور دینی و اسلامی مراکز کے تحفظ کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
لندن کے میئر صادق خان نے بھی نیوزی لینڈ کے دہشت گردانہ حملے کی وجہ، مغربی سیاستدانوں کے اسلام مخالف مواقف اور دین اسلام کے خلاف اختیار کیا جانے وال اسخت لب و لہجہ قرار دیا ہے۔
مینڈ یعنی مسلم انگیجمنٹ اینڈ ڈیوپلمینٹ سے موسوم مفاہمت و ترقی کی عوامی تنظیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے سروے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ کے بیشتر عوام یہ خیال رکھتے ہیں کہ اسلامو فوبیا میں شدت اور اسلامی و دینی مراکز پر ہونے والے حملے، ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں اور ان کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔
امریکہ میں بھی بعض سیاستدانوں اور سرگرم عمل شخصیات کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے اسلام مخالف بیان و مواقف اور ان کی جانب سے انتہا پسند گروہوں کی جاری حمایت، مغرب میں اسلامو فوبیا بڑھنے کا باعث بنی ہے۔
ریاست میشیگن سے مسلمان امریکی رکن کانگریس رشیدہ طالب نے کہا ہے کہ سفید فام شہریوں کی برتری پسندی اور امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ان کی حمایت کے نتیجے میں بہت سے مسائل و مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور اگر یونہی سکوت و چپّی سادھے رکھی گئی تو مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
ان کا یہ بیان نیوزی لینڈ میں ہونے والے داہشت گردنہ حملے پر ٹرمپ کے قدامت پسندانہ ردعمل پر سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس حملے کی مذمت کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ بڑھتا ہوا وائٹ نیشنلزم کوئی خطرہ ہے۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ  میں دو مساجد میں، کی جانے والی فائرنگ میں باون افراد شہید اور پچاس سے زائد دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
اس حملے کے ساتھ ہی ایک انتہا پسند نے لندن میں میں بھی ایک مسجد کو حملے کا نشانہ بناتے ہوئے کئی افراد کو زخمی کر دیا
https://taghribnews.com/vdchkwnki23nvwd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ