تاریخ شائع کریں2017 20 August گھنٹہ 16:21
خبر کا کوڈ : 280315

حج کے سارے انتظامات سعودی عرب تنہا نہیں سنبھال سکتا

سعودی عرب اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے، جو دل چاہتا ہے کرتے ہیں
جنت البقیع کا قبرستان سب مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے، وہاں ہمارے پیارے آقا ص کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رض کی قبر ہے، اس کے علاوہ حضرت زین العابدین، حضرت محمد باقر اور امام جعفر صادق رض کی بھی قبریں ہیں، ان کی قبور کی زیارت سب کا حق ہے، سعودی عرب کو اسے بند نہین کرنا چاہیئے، یہ قبور جہاں قابل احترام ہیں وہیں اسلامی تاریخ کا بھی بیش بہا سرمایہ ہیں
حج کے سارے انتظامات سعودی عرب تنہا نہیں سنبھال سکتا
ریاض نے گذشتہ کئی واقعات سے سبق نہیں سیکھا،اس کے باوجود امید ہے کہ اس سال حج کے انتظامات بہتر ہوں گے،اماراتی شہری

 ناقص انتظامات کے خلاف گذشتہ سال ایرانیوں نے حج نہیں کیا، جس پر دنیا بھر میں سعودی حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا، مولانا مفتی محمد اشفاق مدنی

سعودی شہزادے نے خود کو سب سے ارفع و اعلیٰ سمجھ کر گاڑی میں بیٹھ کر کنکریاں کیوں ماریں، اس نے پیدل چلنے کی زحمت کیوں نہیں کی، اس کی غلطی نے ہزاروں حجاج کی جان لے لی، احسن اعوان

حج کے انتظامات ایران، کویت، قطر اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کر انجام دیئے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکیں گے،شہریوں کی آرا

 
موسم حج کی آمد کے ساتھ ہی دنیا بھر سے مسلمانوں کی بڑی تعداد مکہ مکرمہ کا رخ کر رہی ہے، جس میں اہل تشیع کی بھی خاصی تعداد ہے، جبکہ اس بار نوے ہزار سے زائد ایرانی بھی عازم حج ہوں گے۔

حج بلاشبہ اسلام کا اہم رکن اور فریضہ ہے، جس کی آمد کے ساتھ ہی ایک نئی بحث کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، اس سال بھی مختلف مکاتب فکر کے علما کے ساتھ عازمین حج کی اپنی اپنی آرا ہیں، جن میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ رواں سال کا حج گذشتہ دو سال پہلے کئ حج سے مختلف اور بہتر ہوگا، جبکہ بعض کا خیال ہے کہ سعودی حکومت ڈھٹائی پر قائم ہے، جس کی وجہ سے اس سال بھی حج کے انتظامات وہی ہوں گے، اور حجاج کو اہم ریضے کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔

کراچی میں کاروباری مقاصد کے دورے پر آئے متحدہ عرب امارات کے تجارتی گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر عبدالاحد نے تقریب نیوز ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ " امید ہے کہ اس سال حج کا اجتماع گذشتہ سالوں کی نسبت کچھ بہتر ہوگا، اگرچہ حکومت ریاض نے گذشتہ کئی واقعات سے سبق نہیں سیکھا، حج کے انتظامات میں بھی خاطرخواہ بہتری نہیں کی، اس کے باوجود امید پر دنیا قائم ہے کہ مصداق توقع ہے کہ حج کے مناسک بہتر انداز میں ادا کئے جاسکیں گے۔"

ایک سوال کے جواب میں عبدالاحد نے کہا کہ "دو سال قبل حج کے موقع پر کرین گرنے کا واقعہ یقینا ناقص انتظام کاری کا نتیجہ تھا، جبکہ جمرات کے موقع پر بھگڈر کا سانحہ اور اس کے نتیجے میں ہزاروں حجاج کی شہادت یقینا افسوس ناک تھا، جس پر جتنا بھی غم و غصہ کیا جائے کم ہے، لیکن وہ ایک سانحہ تھا، جو گزر گیا، اب اس سانحہ پر افسوس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے، البتہ سعودی عرب کو چاہیئے کہ انتظامات بہتر بنائے، لاکھوں افراد کے لئے گنجائش میں اضافہ کیا جائے، حجاج کی سہولت کے لئے جمرات کے اوقات کار مقرر کئے جائیں۔" انھوں نے کہا کہ"حج کا اجتماع بہت بڑا ہے، جس کے لئے انتظامات کافی عرصہ پہلے سے شروع کرنا چاہیئں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکومت صرف سیاسی مسائل میں الجھی ہوئی، ہے، شاہ سلمان کو صرف بادشاہت بچانے کی فکر ہے، اس لئے وہ اتنے بڑے اور عظیم اجتماع پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے، بہرحال تمام حجاج کا اللہ حامی و ناصر ہو۔"

مفتی مولانا محمد اشفاق مدنی نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں کئی سال سعودی عرب میں رہا ہوں، وہاں کے حالات بڑے قریب سے دیکھے ہیں میں نے، حج کے انتظامات بہتر تو ہیں، لیکن ان میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔"

انھوں نے کہا کہ "اس سال ایرانی بھی حج پر جارہے ہیں، جبکہ قطر کے شہریوں کے لئے بھی حج پر پابندی نہیں لگائی گئی، البتہ دو سال قبل جو سانحہ ہوا، اس میں شہدا  کی بڑی تعداد کا تعلق ایران سے تھا، ناقص انتظامات کے خلاف ایران نے حج کا بائیکاٹ کردیا تھا، اور ایران استقامت کے ساتھ اپنے مطالبات پر ڈٹا رہا، ایرانیوں کے حج نہ کرنے پر دنیا بھر میں سعودی حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے بعد امید ہے کہ انتظامات میں یقینا کچھ بہتری کی گئی ہوگی، جس کی وجہ سے ایران سے دوبارہ حجاج کرام کی بڑی تعداد حج کے لئے جارہی ہے۔"

مفتی مولانا محمد اشفاق مدنی نے مزید کہا کہ "جنت البقیع کا قبرستان سب مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے، وہاں ہمارے پیارے آقا ص کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رض کی قبر ہے، اس کے علاوہ حضرت زین العابدین، حضرت محمد باقر اور امام جعفر صادق رض کی بھی قبریں ہیں، ان کی قبور کی زیارت سب کا حق ہے، سعودی عرب کو اسے بند نہین کرنا چاہیئے، یہ قبور جہاں قابل احترام ہیں وہیں اسلامی تاریخ کا بھی بیش بہا سرمایہ ہیں، اس لئے ان کی زیارے کا حق سب کو ملنا چاہیئے، اگر سعودی حکومت کسی کو ایسا کرنے سے روکتی ہے، تو یہ غلط ہے۔"

اٹھائیس سالہ نجی ملازم احسن اعوان نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ" اس سال میرے کئی رشتے دار حج کے لئے مکے گئے ہیں، ان سے رابطے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ اس سال حج کے انتظامات بہتر ہیں، حجاج کرام کو ایئرپورٹ پر ہی سعودی حکومت کے اہلکار خوش آمدید کہہ رہے ہیں، جبکہ ہوٹلوں میں بھی انتظامات بہتر بنائے گئے ہیں۔"

انھوں نے مزید کہا کہ "دو سال پہلے پیش انے والا واقعہ بالکل سعودی غیرمناسب انتظامات کا منہ بولتا ثبوت تھا، پہلے کرین گری جس سے حاجی شہید ہوئے، اور پھر جمرات کے موقع پر بھگڈر مچ گئی، جس کے نتیجے میں ہزاروں حجاج کرام شہید ہوئے، اگرچہ لاکھوں افراد کی بھگڈر میں گرے ہوئے لوگوں کو بچانا مشکل تھا، لیکن ہمیں یہ بھی تو دیکھنا چاہیئے کہ وہ بھگڈر مچی کیوں تھی، شعودی شہزادہ گاڑی میں بیٹھ کر شیطان کو کنکریاں مارنے کیوں آیا، حج تو ایسا موقع ہے جہاں تمام بادشاہ و گدا ایک ہوتے ہیں، اللہ کی بارگاہ میں کوئی امیر کوئی غریب نہیں ہوتا، یہ تو ہمارے نبی کریم ص نے بھی کہا ہے کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عبی پر کوئی فضیلت نہیں، پھر یہ معیارات کس نے بنائے ہیں۔ سعودی شہزادے نے خود کو سب سے ارفع و اعلیٰ کیوں سمجھا، پیدل چلنے کی زحمت کیوں نہیں کی اس نے، اس کی اسی غلطی نے ہزاروں حجاج کی جان لے لی۔"

ایک سوال کے جواب میں احسن اعوان نے کہا کہ "حج عالم اسلام کا بہت بڑا اجتماع ہے، جس کا سارا انتظام سعودی عرب تنہا نہیں سنبھال سکتا، حج کے انتظامات ایران، کویت، قطر اور دیگر اسلامی ملکوں کے ساتھ مل کر انجام دیئے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکیں گے، لیکن سعودی عرب ایسا کرنے سے خوف زدہ ہے، اسے ڈر ہے کہ اگر حج کے انتظامات میں کسی بھی ملک سے معاونت حاصل کی گئی تو بیت اللہ سے اس کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، اور وہ جو خانہ کعبہ کے نام پر عالم اسلام کو ڈراتا دھمکاتا ہے، وہ سب بے اثر ہوجائے گا، بہر حال لاکھوں عازمین کی آمد اور ان کے طویل قیام کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ حج کے انتظامات مختلف اسلامی ملکوں کے درمیان تقسیم کئے جائیں تاکہ عازمین کو بہتر سہولتیں میسر آسکیں۔"

دو سال قبل حج کی سعادت حاصل کرنے والی کہکشاں عابدی نے تقریب نیوز ایجنسی کے نمائندے سے بات چیت میں کہا کہ "وہاں تو کوئی خاص اسلام نظر نہیں آیا، میرا خیال ہے کہ سعودی عرب سے زیادہ بہتر اسلام یہاں کراچی پاکستان میں ہے، ہم لوگ اسلام کے نام پر ایک دوسرے کا دکھ درد محوس تو کرتے ہیں اور جس قدر ممکن ہو مدد بھی کرتے ہیں، لیکن وہاں دو سال پہلے جو واقعہ پیش آیا، وہاں انسانی ہمدردی کہیں دکھائی نہیں دی۔"

انھوں نے مزید کہا کہ "بھگڈر مچنے کے بعد ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے، کچلے ہوئے، دبے ہوئے، ہر طرف چیخیں اور آوازیں تھیں، لوگ مدد کے لئے پکار رہے تھے، لیکن کوئی حکومتی اہلکار وہاں نظر نہیں آیا، کافی دیر کے بعد کچھ شرطے اور لوگ آئے، جنھوں نے لاشوں کو اٹھا اٹھا کر ایک طرف ڈال دیا، پھر کچرا اٹھانے والی گاڑی سے لاشوں کو اٹھاکر ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ کس کا نام کیا ہے، کون سے ملک سے تعلق ہے، بہت برا واقعہ تھا وہ، جب بھی اس سانحے کے بارے میں سوچتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔"

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ"سعودی عرب اپنے آگے کسی کی نہیں سنتے، جو دل چاہتا ہے کرتے ہیں، اس سال سنا ہے کہ انتظامات کچھ بہتر بنائے گئے ہیں، لیکن مجھے تو اب بہت ڈر لگتا ہے، موت تو برحق ہے، لیکن اس طرح کی موت کی ذمہ دار تو صرف سعودی حکومت ہے، اور وہ شہزادہ ہے، جس کی وجہ سے وہاں بھگدڑ مچی تھی، اللہ سعودیوں کو ہدایت دے۔" 
https://taghribnews.com/vdcizuarwt1avp2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ