تاریخ شائع کریں2013 17 September گھنٹہ 14:03
خبر کا کوڈ : 140924
غزہ :

"معاہدہِ اوسلو" فلسطینیوں کے حق واپسی پر کاری ضرب ثابت ہوا: ماہرین

تنا (TNA) برصغیر بیورو
فلسطینی ماہرین قانون اور سیاست دانوں نے سنہ 1994ء میں فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پائے"اوسلو معاہدے" کے خطرناک نتائج کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتفاق کیاہے کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے"حق واپسی" پر ایک کاری ضرب ثابت ہوا ہے۔
"معاہدہِ اوسلو" فلسطینیوں کے حق واپسی پر کاری ضرب ثابت ہوا: ماہرین
تقریب نیوز (تنا): فلسطینی ماہرین قانون اور سیاست دانوں نے سنہ 1994ء میں فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پائے"اوسلو معاہدے" کے خطرناک نتائج کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتفاق کیاہے کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں کے"حق واپسی" پر ایک کاری ضرب ثابت ہوا ہے۔

ذرائع  کے مطابق پیر کے روز غزہ کی پٹی میں "انجینیئر یونین" کے زیراہتمام"اوسلو معاہدہ اور فلسطینیوں کے حق واپسی کا تصفیہ" کےعنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔ مقررین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والا یہ معاہدہ فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ثابت ہوا ہے خاص طور پر اس کے منفی اثرات سے سنہ 1948ء اور اس کے بعد وطن سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کے حق واپسی پر ایک کاری ضرب ثابت ہوا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ اوسلو معاہدے کی آڑ میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو حاصل ان کے بعض حقوق بھی ان سے سلب کر لیے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی دشمن سے مذاکرات میں الجھ کر بہت سے اہم اور ضروری امور کی طرف توجہ دینے میں لاپرواہی کی مرتکب رہی ہے۔ اسرائیل اس معاہدے کے ذریعے چاہتا ہی یہ تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کو ایسے بے مقصد کاموں میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق اور مطالبات کے بجائے بے مقصد کاموں میں لگی رہی اور اسرائیل اپنے مقاصد کے لیے کوششیں جاری رکھے۔

فلسطینی سیاسی دانشور محمود لعجرمنی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "سنہ 1994ء میں اوسلو میں جس معاہدے پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں نے دستخط کیے تھے وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ایک تباہ کن دستاویز ثابت ہوا ہے۔ بالخصوص اس کے تباہ کن اثرات فلسطینیوں کے حق واپسی پر پڑے ہیں اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے نکالے گئے لاکھوں فلسطینی باشندوں کی اپنے وطن واپسی زیادہ مشکل بنا دی گئی ہے"۔

دیرینہ اور اصولی مطالبات

فلسطینی دانشور العجرمی کا کہنا تھا کہ اوسلومعاہدے میں فلسطینیوں کے بنیادی مطالبات اور ان کے دیرینہ اصولوں اور حقوق کے بارے میں کوئی ذکر ہی نہیں۔ خاص طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا صرف مبم اشارہ موجود ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کو فلسطینیوں کے اس بنیادی اوردیرینہ قومی مطالبے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوسلو معاہدے کی دستاویز میں لکھا ہے کہ پناہ گزینوں کے مسئلے کا"منصفانہ حل" تلاش کیا جائے گا۔ اس کے لیے اسرائیل اور فلسطینیوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں گی جو اس مقصد کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کریں گی تاہم مقبوضہ علاقوں میں آباد کیے گئے یہودی آباد کاروں کے وجود اور ان کی شہریت کو بھی تسلیم کیا جائے گا۔

فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں جنگی بنیادوں پر یہودی کالونیاں تعمیر کرنا شروع کر دی تھیں اور یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اوسلو معاہدے کے انتظار میں تھا جس کے بعد اس نے ایک دھماکے کے ساتھ یہودی کالونیوں کا جال بننا شروع کر دیا۔ زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کر کے فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور بھی مشکل بنادی گئی ہے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیاسی امور کے ماہر محمود صبرہ نے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کی سازش سب سے پہلے انیسویں صدی میں برطانوی استبداد کے دور میں ہوئی تھی، تاہم فلسطینیوں نے اپنا وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسرائیلی ناسور کے قیام کے بعد فلسطینیوں کو طاقت کے ذریعے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ صہیونی فوج نے سنہ 1967ء اور 1973ء کی جنگیں بھی اس لیے لڑیں تاکہ وہ مقبوضہ عرب علاقوں پراپنا قبضہ مضبوط بناتے ہوئے وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہرکرے۔
https://taghribnews.com/vdcj8yevxuqexhz.3lfu.html
منبع : مرکز اطلاعات فلسطین
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ