تاریخ شائع کریں2011 30 August گھنٹہ 05:22
خبر کا کوڈ : 61311
مفتی کل سعید عبد الحفیظ حجاوی کافتوی تقریبی

تمام سنی، ظاھری، جعفری و زیدی مذاھب، اسلام کے پرچم کے نیچے اور اس کے احکام کے تابع ہیں

وہ مذاھب جو کہ سنی اسلام میں سے نہیں ہیں ،کیا حقیقی اسلام کا جزو شمار ہوتے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں ، کیا ھر وہ شخص جو اسلامی مذاھب یعنی اھل سنت کے چاروں مذاھب کے علاوہ مذھب ظاھری، مذھب جعفری، مذھب زیدی یا مذھب اباضی میں سے کسی ایک کی پیروی کرے اور اس کے احکام پر عمل کرے ، مسلمان ہے ؟
تمام سنی، ظاھری، جعفری و زیدی مذاھب، اسلام کے پرچم کے نیچے اور اس کے احکام کے تابع ہیں
 پہلا سوال : وہ مذاھب جو کہ سنی اسلام میں سے نہیں ہیں ،کیا حقیقی اسلام کا جزو شمار ہوتے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں ، کیا ھر وہ شخص جو اسلامی مذاھب یعنی اھل سنت کے چاروں مذاھب کے علاوہ مذھب ظاھری، مذھب جعفری، مذھب زیدی یا مذھب اباضی میں سے کسی ایک کی پیروی کرے اور اس کے احکام پر عمل کرے ، مسلمان ہے ؟

جواب : الحمد اللہ والصلوۃ و السلام علی رسولہ الامین محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بعد :

اسلام ایک ایسا دین ہے جسے خدا نے پسند کیا ہے خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) اسے دنیا والوں کے لئے لائے ہیں تا کہ اس کے پیروکار قیامت کے دن تک دنیا و آخرت کی سعادت اور خوش بختی حاصل کر سکیں اور جو بھی اس سے منہ موڑ لے گا اور اس کو چھوڑ دیےگا ، گمراہی میں گرفتار ھو جائے گا خدائے متعال کا ارشاد ھے :

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ اور جو بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین اپنائے ھرگز اس سے قبول نھیں کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خاسرین گھاٹے میں رہنے والوں) میں سے ہے ۔ (۱)

اور یہ بھی ارشاد فرمایا : إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ بیشک خدا کے نزدیک دین ، اسلام ہی ہے ۔ (۲)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پراستوار ہے ، عبداللہ بن عمر رض سے روایت ھے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : بني الاسلام علي خمس، شهادة ان لااله‌الاالله و ان محمداً رسول­الله و اقام الصلاة و ايتاء الزکاة و الحج و صوم رمضان: ۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ھے ۔ لا الہ الا اللہ اور محمداً رسول اللہ کی گواھی دینا ، نماز قائم کرنا ، زکات دینا ، حج اور رمضان کے روزوں پر ۔

لا الہ الا اللہ کی گوای، توحید کا اثبات اور محمد رسول اللہ کی گواھی ، رسالت اور نبوت اور پیغمبر (ص) سے سنی ہوئی تمام چیزوں کا اثبات ہے جیسے : ملائکہ الٰھی ، کتابیں ، انبیاء ، قیامت کا دن اور مقدرات الٰھی چاہے خیر ہو یا شر ۔ عمر بن خطاب سے نقل ہوا ہے : ایک دن ھم نبی اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک مرد ہمارے پاس آیا جس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے ۔ سفر کا کوئی اثر اس کے ظاھر میں نہیں تھا اور ہم میں سے کوئی اس کو نہیں پہنچانتا تھا ۔ پیغمبر (ص) کے پاس بیٹھ گیا ۔ اس کے زانو رسول (ص) کے زانو سے ملے ہوئے تھے اور اس نے اپنا ہاتھ آپ (ص) کی ران پر رکھا اور عرض کیا : اے محمد ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ، نبی اکرم (ص) نے فرمایا :

الاسلام ان تشهد ان لااله‌الاالله و ان محمداً رسول­الله و تقيم الصلاة و تؤتي الزکاة وتصوم رمضان و تحج البيت ان استطعت اليه سبيلاً، قال: صدقت. قال فعجبنا له يسأله و يصدقه. قال: فاخبرني عن الايمان. قال: ان تؤمن بالله و ملائکته و کتبه و رسله و اليوم الاخر وتؤمن بالقدر خيره و شره. قال: صدقت۔ ثم انطلق فلبثت مليا قال لي: يا عمراتدري من السائل؟ قلت: الله و رسوله اعلم. قال: فانه جبرئيل اتاکم يعلمکم دينکم.

اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی خدا نھیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کرو، زکات دو، رمضان میں روزہ رکھو اور اگر استطاعت ہو تو خانۂ کعبہ کا حج کرو ۔ اس مرد نے کہا: آپ نے سچ کہا ۔ ہم نے تعجب کیا کہ وہ کیسے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے ۔ اس مرد نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتاؤ؟ آپ(ص) نے فرمایا: یہ کہ خدا اور اس کے ملائکہ، کتابیں، رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان لے آؤ اور قدر پر ایمان رکھو چاہے خیر ہو چاہے شر۔ اس نے کہا: صحیح ہے، پھر چلا گیا ۔ میں سوچ میں پڑ گیا، آپ(ص) نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! کیا جانتے ہو کہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: وہ جبرئیل تھے جو آئے تھے تاکہ تمھارا دین تم کو سکھائیں ۔

نبی اکرم(ص) نے مسلمان ہونے کی حدود کو بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد کہ اسلام کی علامتوں کو واضح فرما دیا ہے۔ انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: من شهد ان لااله‌الاالله و استقبل قبلتنا و صلي صلاتنا و اکل ذبيحتنا فهو المسلم، له ما للمسلم و عليه ما علي المسلم : جو بھی یہ گواہی دے کہ خدائے وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے ذبیحہ(ذبح کئے گئے جانور) کو کھائے، تو وہ مسلمان ہے،ایک مسلمان کے جملہ حقوق اس کے لئے ہیں اور مسلمان کے تمام فرائض اس پر واجب ہیں ۔

" اھل سنت و جماعت " کی اصطلاح عباسی حکمرانوں کے دور کی ابتدا سے رائج ہوئی ہے ۔ اسلام اس سے زیادہ سابق اور جامع ہے اور کسی خاص مذھب تک محدود نہیں ہوتا ۔ بلکہ تمام سنی، ظاھری، جعفری و زیدی مذاھب، اسلام کے پرچم کے نیچے اور اس کے احکام کے تابع ہیں اور سارے وہ بزرگ پیشوا کہ جن سے یہ مذاھب منسوب ہیں، اسلام کے آستانے پر سر جھکاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک، ایسے مجتھدین مطلق ہیں کہ جن کے علمی مراتب کو اھل سنت قبول کرتے ہیں۔ منجملہ ائمہ اھل بیت اطھار میں سے امام زید بن علی (رضی اللہ عنہ)، کہ جن کی طرف مذھب زیدیہ کی نسبت دی جاتی ہے اور ان کے بھائی امام ابو جعفر محمد بن علی الباقر (رضی اللہ عنہ) اور آپ(ع) کے فرزند امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کہ جن سے امام مالک (رضی اللہ عنہ) نے درس حاصل کیا ھے اور امام ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے روایت نقل کی ہے اور مذھب جعفری آپ(ع) کی طرف منتسب ہے ۔ ان پیشواؤں میں سے ہر ایک اجتھاد میں ایک خاص طریقہ رکھتے تھے ۔

صحابہ اور تابعین کے بعد، زید بن علی، امام محمد باقر(ع)، امام جعفر صادق(ع) کا (اھل سنت کے) پیشوا ابو حنیفہ، اوزاعی اور لیث بن سعد کے ساتھ اختلاف ہو گیا، اور ان کے بعد بھی شافعی کا اصحاب مالک و ابو حفینہ کے ساتھ اختلاف ہو گیا؛ لیکن یہ نظریوں کا اختلاف، دین خدا میں خصومت اور یقینی مسائل میں اختلاف کی صورت میں نہیں تھا، بلکہ فکری نظریہ کا اختلاف، دینی متون کی تفسیر اور اسلام کے حقیقی معانی کے ادراک میں تھا ۔ اسی لئے عمر بن عبد العزیز کہتے ھیں: رسول اللہ(ص) کے اصحاب کا اختلاف، سرخ اونٹوں کی طرح مجھے خوش کرتا ہے اس لئے کہ اگر ان کی رائے ایک ہوتی تو لوگ مشکل میں پڑ جاتے ۔

ہر مجتھد کو اس کا اپنا نصیب ملے گا چاہے وہ غلطی پر ہو ۔ اس لئے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا ھے : اذا اجتھد الحاکم فاخطأ فلہ اجرو ان اجتھد فاصاب فلہ اجران ؛ اگر حاکم اپنے اجتھاد میں خطا کرے تو اس کو ایک اجر ملے گا اور اگر اس کا اجتھاد حق سے جاکر ملے تو اس کا دو اجر ہوگا ۔

ابن عباس، عطا، مجاھد اور مالک بن انس (رضی اللہ عنہ) سے نقل ھوا ھے: کہ " رسول خدا(ص) کے علاوہ لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نھیں ھے مگر یہ کہ ان کی بعض باتوں کو قبول کیا جاتا ھے اور بعض کو رد کر دیا جاتا ھے " ۔

ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کا بھی اس طرح کا قول ھے: " یہ میری رائے ھے اور یہ سب سے بھترین رائے ہے جسے میں نے چنا ہے، جو بھی اس سے بھتر رائے دے گا، میں اسے قبول کرلوں گا " ۔

امام مالک (رضی اللہ عنہ) نے کہا ہے: " میں ایک انسان ہوں میں کبھی صحیح راستہ پر چلتا ہوں اور کبھی مجھ سے غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ میری رائے کو کتاب اور سنت کی کسوٹی پرپرکھو "۔

شافعی (رضی اللہ عنہ) بھی کہتے ہیں: " اگر کوئی صحیح حدیث تم کو ملے جو میرے نظریہ کے خلاف ھو، تو میرے نظریہ کو دیوار پر ماردو اور اگر کوئی حجت(کتاب و سنت) چاہے راستہ میں ھی تم کو ملے، تو میری رائے وہی ہے۔ میرا نظریہ صحیح ہے لیکن اس کے غلط ہونے کا احتمال بھی ہے اور دوسروں کی رائے غلط ہے لیکن اس کے صحیح ہونے کا احتمال بھی پایا جاتا ہے "!

ائمہ اھل بیت(علیھم السلام ) اصول سے تمسک کیلئے بھت اھتمام کرتے تھے اور دوسرے پیشواؤں کے ساتھ " گفتگو " فرماتے تھے، جیسا کہ امام باقر (رضی اللہ عنہ) کی گفتگو ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ۔ زیدی مذھب پر عقیدہ رکھنے والے بھی اھل بیت کے گزرے ھوئے لوگوں کا احترام کرتے تھے اور مختلف شھروں کے مذاھب کو بھی نظراندازنہیں کرتے تھے، اپنے آپ کو مذاھب اربعہ سے علاحدہ نھیں کیا اور ان پر جفا نھیں کی، بلکہ صحاح ستہ کو معتبر سمجھا اور اپنی کتابوں میں بغیر کسی تعصب کے دوسرے مذاھب کے علماء و مجتھدین کے نظریوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

مذھب جعفری کے پیروکار بھی ارکان ایمان پر عقیدہ رکھتے ہیں اور ارکان اسلام کیلئے حرمت کے قائل ہیں اور اکثر فروع میں دوسرے مذاھب کے ساتھ ھم عقیدہ ہیں۔ اھل سنت کے ائمہ نے علم، ائمۂ شیعہ سے حاصل کیا ھے جیسا کہ بعض شیعہ علماءنے بھی اھل سنت کے علماء سے درس حاصل کیا ہے ۔ (۳)

یہ ایک تاکید ہے اس بات پر کہ وہ لوگ، اسلامی امت واحدہ کا ایک جزو ہیں ۔

اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو تاریخی امور سے متعلق ہے کہ بعض لوگ اسے گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کتنا بھتر ھوگا کہ ھم اس زمانہ میں، ان اختلافات سے عبور کریں(گزر جائیں) تاکہ امت کی وحدت کو حقیقت میں تبدیل کر سکیں اور سامنے آنے والے امتحانوں کے مقابلہ میں اپنے اتحادو یکجہتی کو تقویت پہنچائیں ۔

ہم کیوں اپنی مصلحتوں کے بارے میں نہیں سوچتے اور ماضی کےراستوں پر رک گئے ہیں اورگڑے مردرےاکھاڑنے میں لگے ھیں تاکہ ایک دوسرے سے گستاخی اور اختلاف کرسکیں؟! کیوں اپنے سلف صالح کا احترام نہیں کرتے ھیں؟ خدائے متعال فرماتا ھے:

تلکَ اُمّۃٌ قَد خَلَت لَھا ما کَسَبَت و لکم ما کَسَبتُم ولا تُسئَلونَ عَمّا کانوا یَعمَلونَ۔

یہ وہ قوم تھی جو گزر گئی، انھیں وہ ملے گا جو انھوں نے کمایا اور تمھیں وہ ملے گا جو تم کماؤگےاور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نھیں ھوگا ۔ (۴)

اور یہ بھی فرماتا ھے:

رَبَّنا اغفِرلَنا وَلاِِخوانِنا الذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَلا تَجعَل فی قُلوبِنا غِلّاً لِلّذینَ آمَنوا رَبَّنا اِنَّکَ رَؤوفٌ رَحیمٌ۔

خدایا! ھمیں معاف کردے اور ھمارے ان بھائیوں کو بھی جنھوں نے ایمان میں ھم پر سبقت کی ہے اور ہمارے دلوں میں صاحبان ایمان کے لئے کسی طرح کا کینہ قرار نہ دینا کہ تو بڑا مھربان اور رحم کرنے والا ھے ۔ (۵)

اور اباضیہ، عبداللہ بن اباض کے پیروکار ہیں اور خوارج میں سے سب سے معتدل گروہ اور جماعت مسلمین سے سب سے نزدیک ترین ہیں۔ اپنے مخالفین کو نعمت کا کافر سمجھتے ھیں عقیدہ کا کافر نھیں۔ اس لئے کہ وہ خدا کا انکار نھیں کرتے بلکہ خدا کے حضور میں کوتاھی کرتے ھیں ۔

اباضیہ، اپنے مخالفین کا خون محترم سمجھتے ھیں، ان کی سرزمین کو بادشاھوں کی جنگی چھاؤنی کے علاوہ، توحید اور اسلام کی سرزمین (دار الاسلام) سمجھتے ھیں، ، لیکن اس بات کو علنی طور پر نھیں کہتے ۔

ان کی باطنی رائے یہ ھے کہ ان کے مخالفین کی سرزمین اور خون حرام ہے، اگر کچھ مسلمان ان سے جنگ کریں تو گھوڑا اور اسلحہ اور جنگی آلات کے علاوہ، ان کی غنیمتیں حلال نہیں ہیں، لیکن سونا اور چاندی کو لوٹا دیتے ھیں ۔ ان کا فقہ بھی اسلامی مذاھب کے فقہ سے نزدیک ھے اور ایسا ھے کہ کوئی بھی مسلمان، شھادتیں پڑھنے والوں کو تکفیر نھیں کر سکتا جو قبلہ کی طرف رخ کرتے ھیں اور اھل سنت کے چاروں مذاھب، مذھب ظاھری، جعفری، زیدی اور اباضی کے پیروکار ان میں سے ھر ایک مسلمان ھے اور سب ظاھری طور پر شریعت پاک محمدی(ص) کے تابع ھیں، ان کے باطن کا بھی اللہ تعالیٰ ذمہ دار ہے ۔

ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نقل کرتے ھیں: نبی اکرم(ص) نے ایک گروہ کو ایک قوم کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے بھیجا کہ جس میں مقداد بھی تھے ۔ لشکر اس وقت پھنچا جب سارے دشمن بھاگ چکے تھے، صرف ایک مالدار آدمی ان میں سے بچا تھا جس نے اسلام کے لشکر کو دیکھ کر کہا: اشھد ان لا الہ الا اللہ مقداد نے اسے قتل کر دیا، نبی اکرم(ص) نے ان سے فرمایا: کل لا الہ الا اللہ کے ساتھ کیا کروگے؟ اس کے بعد یہ آیت شریفہ نازل ھوئی:

یا ایَّھا الذینَ آمَنوا اِذا ضَرَبتُم فی سَبیلِ اللہِ فَتَبَیَّنوا وَلا تَقولوا لِمَن اَلقیٰ اِلَیکُمُ السَّلامَ لَستَ مؤمِناً۔

اے ایمان لانے والو! جب تم راہ خدا میں جھاد کیلئے سفر کرو تو پہلے تحقیق کر لو اور خبردار جو اسلام کی پیش کش کرے اس سے یہ نہ کہنا کہ تم مؤمن نھیں ہو ۔

دوسرا سوال: ھمارے زمانہ میں تکفیر کی حدیں کیا ھیں؟ کیا ایک مسلمان ان لوگوں کی تکفیر کر سکتا ھے جوروایتی اسلامی مذاھب میں سے کسی ایک کے یا اشعری مذھب کے پابند ھیں؟ اس کے علاوہ کیا حقیقی طریقت صوفیہ کے پیروکاروں کی تکفیر کی جا سکتی ھے؟

جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بعد؛ آج کل بعض افراد کے نزدیک، غرور، تکبر اور تنگ نظری کی وجہ سے تکفیر کی کوئی حدود نہیں رہ گئي ہیں ؟ جبکہ یہ حق کے خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ھیں: لوگوں میں سب سے زیادہ عالم شخص وہ ہے جو لوگوں کے فکری اختلافات کے بارے میں سب سے زیادہ عالم ہو ۔ کبھی کبھی تکفیر ھوا پرستی، فکری ونظری تعصب یا رد عمل کی صورت میں ھوتی ہے اور باعث ھوتی اے کہ اختلاف جو کہ صحت اور خیر کی علامت ھے، ایسی مخالفتوں میں تبدیل ھو جائے جو کہ شر اور برائی کا بیج ڈالتی ھیں اور دشمنی، خصومت، گالی گلوچ اور تھمت لگانے کا باعث ھو جاتی ھیں، یھاں تک کہ تکفیر تک پہنچ جاتی ھے ۔ اللہ سبحانہ فرماتا ھے:

اِنَّ الذینَ فَرَّقوا دینَھُم وَ کانوا شِیَعاً لَستَ مِنھُم فی شَیءٍ اِنَّما اَمرُھُم اِلی اللہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُم بِما کانوا یَفعَلونَ ۔

بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے ، ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے ، پھر وہ انہیں ان کے اعمال کے بارے میں با خبر کرے گا ۔ (۷)

ابو ھریرہ سے نقل ہوا ہے: کہ نبی اکرم(ص) نے اس آیت ان الذین فرقوا دینھم کے بارے میں فرمایا:

ھُم اَھلُ البِدَعِ و الشُّبَھاتِ وَ اَھلُ الضَّلالَۃِ مِن ھٰذِہِ الاُمَّۃِ ۔

وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا، اھل بدعت اور شبھات اور اس امت کے راستے سے گمراہ ہوگئے ۔

اور عمر بن خطاب سے نقل ھوا ہے کہ پیغمبر اعظم (ص) نے عائشہ سے فرمایا:

(ان الذین فرقوا دینھم و کانوا شیعاً)، اِنَّما ھُم اصحابُ البِدَعِ و اصحابُ الاھواءِ و اصحابُ الضلالَۃِ من ھٰذہِ الاُمَّۃِ یا عائشہ! اِنَّ لِکُلِ صاحِبِ ذَنبٍ بَراءٌ غَیرَ اَصحابِ البِدَعِ وَ اصحابُ الاھواءِ لَیسَ لَھم توبۃٌ و اَنا بَریءٌ منھم وھُم مِنّی بَراء ۔

جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ھو گئے، بیشک وہ اس امت کے اھل بدعت اور ھوس پرست اور گمراہ لوگ ھیں اے عائشہ! بیشک ھر گنھگار کیلئے [دوزخ کی آگ سے] برائت [نجات] ھے، اصحاب بدعت اور ھوس پرستوں کے علاوہ کہ جن کیلئے توبہ نھیں ھے اور میں ان سے بری [دور] ھوں اور وہ مجھ سے بری [دور] ھیں ۔

یہ آیت شریفہ نبی اکرم(ص)کی طرف اشارہ کرتی ھے کہ ان کا عذاب کرنا آپ (ص) کے ذمہ پر نھیں ھے آپ (ص) صرف انذار کرنے والے اور ڈرانے والے ھیں ۔

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے تھے: و اللہ ما فرقوہ و لکنھم فارقوہ: خدا کی قسم انھوں نے دین میں تفرقہ پیدا نھیں کیا بلکہ وہ دین سے جدا ھو گئے ۔

ابو ھریرہ، عائشہ اور ابو امامہ نے اس آیت کی تاویل میں کھا ھے: " یہ لوگ اس امت کے بدعت گزار اور منحرف لوگ ھیں " ۔

تکفیر ایک نہایت خطرناک امر ھے، اس لئے کہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خون اور مال کو حلال سمجھنا اور اس کی کرامت کو پامال کرنا ھے اور اس کے عواقب قیامت کے دن تک باقی رھنے والے ھیں ۔ اس لئے کہ جھنم کی آگ میں ھمیشہ ھمیشہ رھنے کا سبب ھے ۔ تو تکفیر سے دوری کرنا جھاں تک ممکن ھو واجب ھے اور ان لوگوں کے خون اور مال کو مباح سمجھنا ایک بھت بڑی خطا ھے جو لوگ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ھیں اور لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کھتے ھیں اور ھزار کافر کو زندہ رکھنے میں غلطی کرنا کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ گرانے سے زیادہ آسان[اس سے کم اھمیت رکھنے والا] ھے ۔ پیغمبر اعظم(ص) نے فرمایا ھے:

اُمِرتُ اَن اُقاتِلَ الناسَ حَتّیٰ یَقولوا لا اِلہ اِلا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسولُ اللہ فَاِذا قالوھا فَقَد عَصَموا مِنّی دِمائَھُم وَ اَموالَھُم اِلّا بِحَقِّھا۔

مجھے حکم ملا ھے کہ لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یھاں تک کہ وہ کھیں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، جب ایسا کھہ لیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال کو میرے تعرض سے محفوظ کر لیا ھے،اس کے علاوہ کہ اس کاحق ھو ۔

یہ سب شرعی اور فقھی احکام کے مطابق ھے نہ کہ عقلی قواعد کے ۔

امام طحاوی(رحمۃ اللہ) نے کھا ھے: " ھم اھل قبلہ میں سے کسی ایک کو بھی گناہ کرنے کی وجہ سے تکفیر نھیں کرتے، الا یہ کہ گناہ کے حلال ھونے پر اعتقاد رکھتا ھو، ھم نھیں کھتے: گناہ، گنھگار کے ایمان کو نقصان نھیں پھنچاتا ھے" ۔

یہ اھل سنت کے عقیدہ کی توضیح اور خوارج کے عقائد کی تردید ھے جو کہ ھر گناہ کو کفر کا باعث سمجھتے تھے اور طحاوی نے " مالم یستحلہ " کی عبارت کے ذریعہ اسے مقید کردیا ھے ۔ یعنی گناہ اس وقت کفر کا باعث ھوگا کہ اس کے حلال ھونے کے عقیدہ کے ساتھ ھو ۔

اور(ھم نھیں کہتے کہ گناہ، گنھگار شخص کے ایمان کو نقصان نھیں پھنچاتا) کی عبارت مرجئہ کے عقائد کا رد ھے جو کھتے ھیں: " گناہ، ایمان کو نقصان پھنچاتا ھے جیسا کہ کافر کی اطاعت اسے کوئی فائدہ نھیں پھنچاتی ھے " ۔

علامہ صدر الدین علی بن علی بن محمد بن ابی العز حنفی، " شرح طحاویہ " میں مرجئہ کے شبھہ کے بارے میں کھتے ھیں: صحابہ کے زمانے میں ایک ماجرا واقع ھوا کہ جس کے عاملین کے قتل پر، توبہ نہ کرنے کی صورت میں، اصحاب نے اجماع [ایک ھونا] کیا اور وہ ماجرا یہ تھا: قدامہ بن مطعون اور ایک دوسرے گروہ نے شراب کے حرام ھونے پر علم حاصل کرنے کے بعد، شراب پی لی اور آس آیت شریفہ کو تأویل کیا:

لَیسَ عَلی الذینَ آمَنوا وَ عَمِلوا الصالِحاتِ جُناحٌ فیما طَعِموا اِذا ما اتَُقَوا و آمَنوا و عَمِلو الصّالِحاتِ ۔

ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا کوئی حرج نھیں ھے ان چیزوں میں جسے [پھلے] کھا چکے ھیں اگر تقوا اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح انجام دیں ۔ (۸)

جب یہ خبر عمر بن خطاب تک پھنچی، تو وہ اور علی بن ابی طالب اور دوسرے اصحاب (رضی اللہ عنھم) نے ارادہ کیا کہ اگر وہ لوگ شراب کے حلال ھونے پر اصرار کریں، تو انھیں قتل کر دینا چاھئے عمر بن خطاب نے قدامہ سے کھا: تم نے غلطی کی ھے اور اپنے ھاتھوں اپنی قبر کھودلی ھے تم اگر پرھیزگار اور با ایمان ھوتے اور عمل صالح انجام دیتے تو شراب نھیں پیتے اس لئے کہ اس آیت کا نزول اس لئے تھا کہ جس وقت جنگ احد کے بعد خدا نے شراب کو حرام قرار دیا تو اس وقت بعض صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے کھا: پھر ھمارے دوستوں کا کیا ھوگا؟ وہ تو شراب پیتے تھے اور مرچکے ھیں؟ خدا نے اس آیت کو نازل کیا تا کہ بتائے کہ تحریم شراب سے پھلے جن لوگوں نے شراب پی تھی، اگر وہ صالح اور پرھیزگار مؤمنین میں سے تھے تو ان پر کوئی گناہ نھیں ھے بالکل اس طرح کہ اس سے پھلے مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔

اس کے بعد یہ گروہ[قدامہ اور اس کے دوست] پشیمان ھوئے لیکن توبہ سے نا امید اور مایوس تھے ۔عمر نے قدامہ کو لکھا:

حٰم، تَنزیلُ الکِتابِ مِنَ اللہِ العَزیزِ العَلیم، غافِرِ الذَّنبِ وَ قابِلِ التَّوبِ شَدیدِ العِقابِ ۔

حم، اس کتاب کا نازل کرنا عزیز و علیم خدا کی طرف سے ھے،[جو کہ] گناہ بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا اور سخت سزا دینے والا ھے ۔ ھم نھیں جانتے کہ تمھاری کون سی گناہ زیادہ بڑی ھے؟ حرام الٰھی کا حلال سمجھنا یا پروردگار کی رحمت سے نا امید اور مأیوس ھونا؟

وہ چیز جس پر اصحاب اتفاق رکھتے ھیں، اس پر سارے مسلمان اتفاق رکھتے ھیں ۔

امام طحاوی (رح) کھتے ھیں: " کوئی بھی بندہ اھل ایمان کے دائرے سے خارج نھیں ھوتا، مگر اس چیز کے انکار سے جس نے اسے مسلمانوں کے گروہ میں شامل کیا ھے " اور یہ انھیں کے جملہ کی ایک دوسری تعبیر ھے کہ " ھم اھل قبلہ میں سے کسی کو بھی گناہ کی خاطر تکفیر نھیں کرتے مگر یہ کہ اس گناہ کو حلال سمجھے " ۔

امام علی (رضی اللہ عنہ) نے خوارج کی بیعت توڑنے کو ان کی بے ایمانی کا باعث نھیں سمجھا اور ان کی تکفیر نھیں کیا فرمایا: "کلمۃ حق یراد بھا الباطل" اور ان سے خطاب فرمایا:

لَکُم عَلَینا ثَلاثٌ، لا نَمنَعکُم مَساجِدَ اللہِ اَن تَذکُروا فیھا اسمَ اللہِ وَ لا نَبدَؤُکُم بِقِتالٍ و لا نَمنَعکُم الفَیء ما دامَت اَیدیکُم مَعَنا ۔

تم لوگوں کے ھم پر تین حق ھیں: ھم تمھیں خدا کی مساجد میں خدا کے نام کو یاد کرنے کیلئے حاضر ھونے سے منع نہ کریں اور تمھارے ساتھ جنگ شروع نہ کریں اور جب تک تمھارا ھاتھ ھمارے ساتھ ھے، ھم بیت المال کو تم سے نہ روکیں ۔

خوارج کے ساتھ آپ(ع) کا سلوک، آپ کا اھل اسلام جیسا سلوک تھا ۔

امام ابو الحسن اشعری (رح) کھتے ھیں: پیغمبر اکرم(ص) کے بعد مسلمانوں نے کچھ امور میں اختلاف کیا، ایک دوسرے کو گمراہ کیا، ایک دوسرے سے بیزاری کا اعلان کیا اور فرقوں میں تبدیل ھو گئے، لیکن اس سب کے باوجود اسلام ان کے بیچ جمع کرتا ھے(یعنی سب کے سب مسلمان ھیں)۔

بھت سے بزرگ علماء جھاں تک ھو سکتا ھے مسلمانوں کی تکفیر سے بچتے ھیں ۔

ابن نجیم نے، جو کہ حنفی مذھب کے بزرگ فقھاء میں سے ھیں، اپنے بھت سے تکفیری فتوؤں کو واپس لے لیا اور کھا: اگر کسی مسئلہ میں ننانوے وجھیں ھوں کہ جن کی وجہ سے تکفیر لازم ھو اور ایک وجہ ایسی ھو جس میں تکفیر لازم نہ ھو تو یہ ایک وجہ وہ ساری ننانوے وجھوں پر بھاری ھے اور رجحان رکھتی ھے اس کے بعد کس کی جرأت ھو سکتی ھے کہ بغیر شرعی حجت و دلیل کے کسی مسلمان کی تکفیر کرے؟ ۔

لیکن اشعری عقیدہ کے پیروکار اور حقیقی تصوف کی طریقت پر چلنے والے: امام محمد عبدہ رحمہ اللہ تعالی علیہ ان کے بارے میں لکھتے ھیں: وہ لوگ نبی اکرم(ص) اور ان کے اصحاب (رضی اللہ عنھم) کے احکام پر نھایت سختی سے عمل کرتے ھیں ۔

مذھب اشاعرہ، اھل سنت و جماعت کے مذاھب میں سے ایک ھے اور امام سفارینی حنبلی، کتاب لوامع الانوار میں کھتے ھیں: اھل سنت و جماعت تین فرقہ ھیں : اثریہ ، کہ جن کے امام احمد بن حنبل (رضی اللہ عنہ) ھیں، اشعریہ، کہ جن کے امام ابو الحسن اشعری (رحمہ اللہ) اور ما تردیدیہ، کہ جن کے امام ابو منصور ماتریدی (رح) ھیں ۔

اس بنا پر، مذاھب اھل سنت و جماعت، نقلی رجحان کے علاوہ عقلی رجحان کو بھی اپنے اندر شامل کرتے ھیں ۔ نقلی رجحان، " اثریہ " ،احمد بن حنبل کے پیروکاروں میں دیکھی جاتی ھے اور عقلی رجحان کی نمائندگی، متکلمین، اشعری مذھب کے علماء اور ما تریدیہ کرتے ھیں ۔ وھی لوگ جنھوں نے عقلی ادلہ کو وضع کرنے کیلئے اور اعتقادی شبھات کے مقابلے میں دفاع کرنے کیلئے قیام کیا اور ایسے گمراہ فرقوں کے ساتھ بحث اور مناقشہ کر کے ان کی مکرو فریب کو انھیں کو واپس لوٹا دیا جو کہ چاھتے تھے کہ مسلمانوں کی زندگی میں زھر گھول کر اپنے باطل عقائد کو منتشر کریں ۔

اس بناپر اھل سنت و جماعت، تین شاخوں کے ساتھ ایک متکامل مذھب ھے کہ جس نے عقلی و نقلی ادلہ کو ایک ساتھ اکٹھا کیا اور دینی عقائد پر یقین کو مسلمانوں کیلئے تحفہ کے طور پر لائے ۔ یہ سب کلیات میں، متفق القول ھیں اور بعض جزئیات میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ھیں ان فرقوں میں کوئی بھی صرف اپنے لئے صواب کا مدعی ھوکر دوسروں کی تکفیر نھیں کر سکتا اس لئے کہ اس اعتقاد پر مسلمانوں کے دل ایک دوسرے سے جڑے ھیں، بھت سی کتابیں قرآن کی تفسیر، سنت کی شرح، لغت اور ادب کے موضوعات میں لکھی گئی ھیں اور کروڑوں مسلمان، دنیا کے مشرق و مغرب میں اس پر عقیدہ رکھتے ھیں اور ھزاروں علماء نے، مختلف مکاتب و مذاھب اور مختلف شھروں میں سے، ان عقائد کی خدمت کیلئے کمر باندھ لی ھے ۔

اور صوفیہ: امام عبدالحلیم محمود رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے فتاوا میں ان کے بارے میں فرماتے ھیں: صافی صوفی جو کہ گفتار اور کردار میں، اخلاص کے ساتھ خدا کی کتاب اور رسول(ص) کی سنت پر پابند ھوں، اس اسلام کے سائے میں ھیں کہ جسے خدا نے اپنے بندوں کیلئے پسند کیا ھے اور اس کی بنیاد، خالص توحید اور ظاھر و باطن میں الٰھی مراقبت، خدا ترسی پر مبنی خود سازی، اور لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک اور حسن خلق پر ھے ۔ خدا نے ان کا قبلہ سب چیز میں قرار دیا ھے، دنیا ان کے لئے آخرت کی کھیتی ھے اور ان کے ھاتھ میں مال، لوگوں کو فائدہ پھنچانے کیلئے ھے اور ھرگز اس کی طرف دل نھیں لگایا ھے ۔

ظاھر سے پھلے صوفی لوگ، باطن کو پاک کرتے ھیں اور ان کاموں کو اولیت دیتے ھیں جن کا ربط دل سے ھے ۔ روحی اور اخلاقی تربیت کا اھتمام کرتے ھیں اور حقیقی و صافی صوفی، احکام شرع حنیف پر پابند اور رفتار و کردار میں بدعتوں اور انحرافات سے دور ھیں ۔

تیسرا سوال: اسلامی شریعت میں کس شخص کو حقیقی مفتی سمجھا جا سکتا ھے؟ امر افتاء کو اپنے ذمہ لینے کیلئے اور دین کو سمجھنے کیلئے اور شریعت اسلامی کی پیروی میں لوگوں کی ھدایت کیلئے اسلامی صلاحیتیں کیا ھیں؟

جواب: الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین و بعد؛ مفتی کےلئے شرط ھے کہ:

۱۔ منابع و مصادر شرع پر احاطہ رکھتا ھو تاکہ اس کی صحیح تقدیم و تاخیر کوسمجھ کراسکی تحقیق کر کے اس حکم کا انتخاب کر سکے کہ جس کی صحت پر ظن قوی موجود ھے۔

۲۔ عادل ھو اور ان گناھوں سے اجتناب کرے جو کہ عدالت میں مانع ھیں۔ یہ شرط اس لئے ھے کہ اس کے فتوا پر اعتبار کیا جا سکے ۔ جو شخص عادل نہ ھو، اس کا فتوا قبول نھیں ھے، ھر چند کہ عدالت، فتوا دینے کی شرط نھیں ھے ۔ دوسرے لفظوں میں، عدالت فتوا کے قبول ھونے کی شرط ھے، صحت اجتھاد کی شرط نھیں ھے ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کھتے ھیں: چونکہ الٰھی احکام کو پھنچانا، احکام پر علم اور کلام میں سچائی پر مبنی ھے، اس لئے روایت و فتوا کے مرتبۂ ابلاغ کو حاصل کرنا، علم اور سچائی رکھنے والے لوگوں کے علاوہ کسی اور کے لئے موزوں نھیں ھے ۔ مفتی جس چیز کی تبلیغ کرتا ھے اسے اس کا علم ھونا چاھئے اور اسے چاھئے کہ اپنے کلام میں سچا ھو اور نیک طریقہ اور پسندیدہ سیرت پر پرقائم رہے ؛ اپنے گفتار و کردار میں عادل اور اس کا ظاھر و باطن اور مدخل و مخرج یکساں ھو ۔

نووی (رح) کھتے ھیں: مفتی کی شرط یہ ھے: کہ بالغ، مسلمان، قابل اعتبار، امین اور اسباب گناہ اور خلف مروت سے پاک ھو، اور آگاہ دل، سالم ذھن، محکم فکر اور صحیح کردار بھی رکھتا ھو ۔ اسے چالاک ھونا چاھئے ۔ غلام اور آزاد، مرد اور عورت، اندھا اور بہرا اس کے نزدیک ایک جیسے ھوں ۔

شیخ ابو عمرو ابن صلاح (رح) کھتے ھیں: اسے چاھئے کہ ایک راوی کی طرح، رشتہ داری، دشمنی، منفعت طلبی اور دفع ضرر کے اثر کے تحت واقع نہ ھو، اس لئے کہ مفتی اپنے کام میں، حکم شرع کی خبر دیتا ھے، ایک ایسا حکم جو کسی خاص شخص سے مخصوص نھیں ھے ۔ اس کی مثال راوی کی طرح ھے نہ شاھد، اس کا فتواء حکم قاضی کے برخلاف الزام نھیں لاتا ۔ افتاء، اجتھاد سے اخص ھے ۔ اجتھاد، احکام کا استنباط ھے، چاھے کسی موضوع میں سوال کیا گیا ھو یا نھیں، بالکل اسی طرح کہ ابو حنیفہ اپنے درس میں عمل کرتے تھے اور مختلف فروع اور متنوع فروض کو ابھارتے تھے یا پھر مناسب قیاس کا انتخاب کرتے تھے تا کہ اس استنباط کی بنیاد پر، حکم دیں اور ان قیاسوں کی موزونیت اور اس کے اسباب کو پھچان لیں ۔

لیکن افتاء اس جگہ پر ھے کہ جھاں ایک ایسا امر واقع ھوا ھو کہ جس کا حکم فقیہ جانتا ھے ۔ سابق الذکر شرائط کے علاوہ مجتھد کے صحیح فتوا کے اور بھی شرائط ھیں اور وہ یہ ھیں: جس امر کے بارے میں پوچھا گیا ھے اس کی شناخت، سوال کرنے والے کی ذھنیات کی تحقیق اور اس معاشرہ کی شناخت کہ جس میں وہ رہ رھا ھے تاکہ اپنے فتوے کے منفی اور مثبت آثار کو جان لے اور اس کے فتوے کی وجہ سے، لوگ خدا کے دین کو کھیل تماشہ نہ بنالیں ۔

ابن قیم (رح) نے ابن عبداللہ بن بطہ (رح) سے اپنی کتاب میں خلع کے بارے میں امام احمد بن حنبل (رح) سے نقل کیا ھے کہ منصب افتاء کو سنبھالنا کسی کے لئے مناسب نھیں ھے، مگر یہ کہ اس کے اندر یہ پانچ صفات موجود ھوں:

۱۔ پاک نیت، جو کہ اگر اس میں نہ ھو، تو وہ خود اور اس کا کلام نورانیت سے خالی ھے ۔

۲۔ علم، حلم، وقار اور سکون ۔

۳۔ علمی طاقت اور کافی شناخت ۔

۴۔ زندگی میں کفایت شعاری، ورنہ لوگ اسے چبا جائیں گے ۔

۵۔ لوگوں کی شناخت ۔

توضیح: نیت، کام کی بنیاد اور اس کا ستون ھے ۔ ایک ایسی بنیاد اور جڑ ھے کہ جس پر کام مستحکم اور مضبوط ھوتا ھے ۔ نیت، عمل کی روح اور اس کا رھبر ھے، عمل، نیت کا تابع ھے ۔ اگر نیت صحیح ھو، تو عمل بھی صحیح ھے اور اگر فاسد ھو، تو عمل بھی فاسد ھے ۔ الٰھی توفیق، پاک نیت کا نتیجہ ھے ۔ حلم، وقار اور سکون، مفتی کے علم کا لباس اور اس کی خوبصورتی ھے ۔ اگر مفتی میں حلم اور وقار نہ ھو تو اس کی مثال اس بدن کی طرح ھے جو لباس نہ رکھتا ھو بعض گذشتہ لوگوں نے کھا ھے: کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ھمراہ نھیں ھوئی ھے جو کہ بھتر ھو اس علم سے جو حلم کے ساتھ ھو اور لوگ اس اعتبار سے چار گروہ میں تقسیم ھوتے ھیں، ان میں سے بھترین وہ شخص ھے جو کہ علم کو حلم کے ساتھ رکھتا ھو اور بد ترین وہ شخص ھے جو کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اس کے پاس نہ ھو ۔ تیسرا گروہ، وہ لوگ ھیں جو علم کے زیور سے آراستہ ھیں، لیکن بردباری کی صفت سے بے بھرہ ھیں اور چوتھا گروہ، تیسرے گروہ کے بر عکس ھے ۔

تو بردباری، علم کا زیور اور اس کی نورانیت اور جمال ھے اور اس کے مقابلے میں بیوقوفی، جلد بازی، غصہ اور ناپائیداری ھے ۔

وقار اور سکون، علم کا پھل اور اس کا نتیجہ ھے اور مفتی اس کا بھت محتاج ھے، اس لئے کہ اس کے قلب کے اطمینان اور اس کے سکون کا باعث ھے ۔ وقار کی جڑ دل میں اور اس کے آثار اعضاء و جوارح میں ھے ۔ وقار اور سکون دو قسم کا ھے: عام اور خاص، جیسے انبیاء کا سکون اور مومنین کا جو کہ انبیاء کے پیروکار ھیں ۔ اس فضیلت تک پھنچنے کیلئے، بندے کو چاھئے کہ ھمیشہ پروردگار کے حضور کو مد نظر رکھے، اس طرح سے کہ گویا اسے دیکھ رھا ھے، جتنا یہ خیال زیادہ ھوگا حیاء، سکون، محبت، خضوع، اور اس کی خوف رجاء زیادہ ھو جائے گی اور ھوشیاری کے بغیر ان میں سے کوئی ایک بھی حاصل نھیں ھوگا ۔

لیکن علمی توانائی؛ مفتی، علمی و عملی توانائی کا محتاج ھے ۔ حق کے کلام میں جب تک کلام کا نفوذ نہ ھو، تو وہ فائدہ مند نھیں ھو سکتا ۔

مادی بے نیازی اس لئے شرط ھے کہ مفتی، لوگوں کا محتاج نہ ھو اور ان کادست نگرنہ ھو ۔ بے نیاز عالم دین، اپنے عمل کو انجام دینے میں زیادہ طاقت رکھتا ھے اور جب لوگوں کا محتاج ھو جائے، تو اس کا عمل مرجاتا ھے اور وہ صرف نظارہ کرنے والا ھے ۔

لوگوں کی شناخت، ایک اھم اصل ھے کہ جس کا مفتی اور حاکم محتاج ھے ۔ اگر فقیہ، مردم شناس نہ ھو، تو ظالم اس کے نزدیک مظلوم اور مظلوم اس کی نظر میں ظالم کی طرح جلوہ کرے گا اور لوگوں کے مکرو فریب اس میں اثر کر جائیں گے ۔ وہ زندیق کو صدیق اور کاذب کو صادق دیکھے گا ۔ اسے چاھیئے کہ وہ لوگوں کی چال بازی کو سمجھنے میں بھی فقیہ ھو تاکہ ان کے مکر و فریب اور نیرنگ و سازش کو پھچان سکے ۔ اس لئے کہ فتوا، زمان و مکان اور مفادات و حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتا ھے اور یہ سب دین خدا کی تعالیم میں سے ھے ۔

وہ چیز جو فتوے میں مطلوب ھے، حق، اعتدال اور میانہ روی ھے ۔ حدیث میں آیا ھے:

سددوا و قاربوا و اغدوا و روحوا، شیء من الدلجۃ، القصد، القصد تبلغوا ۔

مستحکم اور مضبوط رھو اور ایک دوسرے سے نزدیک ھو جاؤ اور میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو تاکہ اپنے مقصد تک پھنچ جاؤ ۔

شاطبی (رح) کھتے ھیں: وہ مفتی جو کہ کمال کے سب سے اونچے درجے پر پھنچ چکا ھے، لوگوں کو بیچ کے راستے کی طرف لے جائے گا جو کہ لوگوں کےلئے موزوں ھے، نہ انھیں انتھاپسندی اور افراط کی طرف لے جائے گا اورنہ ھی لا ابالی پن اور لا پرواھی کی طرف ۔

اس طریقہ کے صحیح ھونے کی دلیل یہ ھے کہ شریعت نے اس کا حکم دیا ھے جیسا کہ پھلے بیان ھو چکا، مقدس شارع نے مکلفین سے، میانہ روی اور افراط و تفریط سے پرھیزکرنے کاحکم دیا ھے ۔ اگر مفتی اس طریقہ سے خارج ھو جائیں، تو وہ شارع کے مقصد سے باھر ھو گئے ھیں ۔ اسی لئے بیچ کے راستے سے نکل جانے والے، علم میں راسخین کے نزدیک مذموم ھیں ۔ اور یہ شیوہ بھی وھی ھے جو کہ رسول اللہ(ص) اور ان کے اصحاب کی سیرت سے استنباط کیا جاتا ھے، وھی کہ جس میں شرط ھے کہ تمام نیک صفات کو اپنے اندر رکھتا ھو، استاد نے، اس جگہ پر چالیس خصلت کو بیان کیا ھے منجملہ:

شرط ھے کہ مفتی بالغ ھو، اس لئے کہ بچہ اگر اجتھاد کے درجہ پر پھنچ بھی جائے اور احکام کو درک کر لیا ھو، اس کے رائے پر اعتماد نھیں کیا جاسکتا، لیکن بالغ کی رائے پر اعتماد ھے اور مناسب ھے کہ مفتی عربی زبان، قرآن، علم اصول، تاریخ(ناسخ و منسوخ)، علم حدیث، علم فقہ اور نفسیات کے علم کو جانتا ھے اور عدالت کی فضیلت بھی رکھتا ھو ۔ بعض علماء نے دوسری شخصی صفات کی طرف بھی اشارہ کیا ھے جو کہ اسلام، عقل، ذکاوت اور ذھانت ھے ۔

مفتی کل

سعید عبد الحفیظ حجاوی

۱۔آل عمران/۸۵

۲۔آل عمران/۱۹

۴۔ بقرہ/۱۳۴۔

۵۔ حشر/۱۰ ۔

۶۔ نساء/۹۴ ۔

۷۔ انعام/۱۵۹ ۔

۸۔ مائدہ/۹۳ ۔

۹۔ غافر/۱و ۲و ۳ ۔sal



https://taghribnews.com/vdcdfs09.yt0ff6342y.html
منبع : عالمی مجلس برای تقریب مذاھب اسلامی
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ