تاریخ شائع کریں2017 24 July گھنٹہ 17:21
خبر کا کوڈ : 276553
حاجی حنیف طیب

امریکہ کو حق نہیں کہ وہ حزب اللہ کا دہشتگرد قرار دے

امریکا، اسرائیل اور برطانیہ سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں، جو ان کے ظالم نظام حکومت کے خلاف نبرد آزما ہے
کچھ اسلامی ممالک کی اسرائیل سے اس قدر دوستی ہے کہ ان کی شہہ پر اس نے فلسطینیوں پر مسجد اقسیٰ کے دروازے بند کردیئے
امریکہ کو حق نہیں کہ وہ حزب اللہ کا دہشتگرد قرار دے
بعض اسلامی ممالک کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات ہیں، انھوں نے اسرائیل کو اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے، جس کی وجہ سے صیہونی ریاست کی بڑھ گئی ہے، حاجی حنیف طیب

اقوام متحدہ صرف امریکا اور اسرائیل کی لونڈی بنی ہوئی ہے، تقریب نیوز ایجنسی سے خصوصی بات چیت
 
نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ حاجی حنیف طیب نے کراچی میں ہمارے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ مشرق وسطیٰ خصوصاً خلیجی ممالک میں امن و امان کی جو صورتحال ہے اس کے ذمہ دار خود اسلامی ملک ہیں، وہ ممالک اس ساری صورتحال کے اصل ذمہ دار ہیں، جو اپنا حق غلامی ادا کرنے کے لئے امریکا اور دیگر ملکوں سے ڈکٹیشن لیتے ہیں، اور ان کے ہر حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں۔"

سعودی عرب اور قطر کے معاملے پر بات کرتے ہوئے حاجی حنیف طلیب نے کہا کہ "قطر، کویت اور سعودی عرب کے کچھ عرصے پہلے تک اچھے مراسم تھے، لیکن بیرونی مداخلت کی وجہ سے ان میں دوریاں آگئیں، اور دوریاں بھی ایسی کہ نوبت جنگ و جدل تک پہنچ گئی، مجھے یقین ہے کہ کوئی اسلامی ملک کسی دوسرے ملک کے لئے ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، یہ صرف امریکا اور صیہونیوں کی سازش ہے کہ اسلامی ملکوں کو لڑایا جائے، تاکہ مسلم امہ کمزور ہو اور عالم اسلام کو نقصان پہنچے، کیونکہ امریکا، اسرائیل اور برطانیہ سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں، جو ان کے ظالم نظام حکومت کے خلاف نبرد آزما ہے۔"

قطر کے مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "یہ کافی خوش آئند بات ہے کہ قطر نے کویت کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کا مثبت جواب دیا ہے، اور اب وہ کچھ شرائط پر سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے بات چیت پر رضامند ہوا ہے، قطر کو یہ بات پہلے ہی مان لینا چاہیئے تھی، تاکہ مسئلہ طول نہ پکڑتا، میرا خیال ہے کہ قطر کے معاملے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے درمیان بھی ثالثی کی جائے تاکہ مسلم امہ انتشار کے بجائے ایک ملت بن سکے، پاکستان، ترکی اور دیگر ملک ایران کے معاملے پر سعودی عرب پر دباو ڈالیں کہ وہ تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر بنائے۔" انھوں نے مزید کہا کہ "پاکستان اور ترکی فوجی اعتبار سے مضبوط ملک ہیں، انھیں آگے آنا چاہیئے، مل بیٹھ کر ہی مسائل اور مشکلات حل ہوسکتی ہیں، اس سارے معاملے میں اقوام متحدہ اور امریکا سے توقع غلط فہمی ہے۔"

فلسطین کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ نے سعودی عرب کا نام لئے بغیر کہا کہ "کچھ اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اسرائیل سے ان کی اس قدر دوستی ہے کہ انھوں نے اپنے ہوائی اڈے تک صیہونی ریاست کو استعمال کرنے کی پیش کش کررکھی ہے، جس کی وجہ سے صیہونی ریاست کی جرات اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے جمعہ کے روز نہ صرف فلسطینیوں کو نماز کی ادائیگی سے روکا، صیہونی فوجی مسجد میں داخل ہوگئے، کئی فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا، نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دو فلسطینی نوجوان شہید ہوگئے، اگر اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو کیا اسرائیل ایسی گستاخی کرسکتا ہے، یہ ہماری کمزوری ہے جو دشمن طاقت ور ہورہا ہے، ہماری شہہ پر آگے بڑھ رہا ہے، لوگوں کو مار رہا ہے، لیکن ہم اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتے، برائی کو برائی نہیں کہتے، ہمیں کیا ہوگیا ہے، ہم صرف اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں،جس کی وجہ سے ہمارے اندرونی معاملات بگرٹے جارہے ہیں، ہمارے اندر انتشار بڑھ رہا ہے، اگر ہم دوسروں خصوصا مسلمان بھائیوں کے حق کے لئے آواز بلند کریں تو کسی کی اتنی مجال نہیں کہ وہ کسی مسلمان پر ظلم کرسکے"

اقوام متحدہ اور اسلامی سربراہی کانفرنس کی تنظیم کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے حاجی حنیف طیب نے کہا کہ "اقوام متحدہ خود کو تمام اقوام کی نمائندہ کہتی ہے، لیکن حقیقیت میں وہ صرف امریکا اور اسرائیل کی لونڈی بنی ہوئی ہے، جسے لندن حملوں اور امریکا میں اکا دکا دہشت گردی کے واقعات تو نظر آتے ہیں، لیکن فلسطین، برما، کشمیر شام، عراق اور دینا کے دوسرے ملکوں میں مسلمانوں پر ظلم دکھائی نہیں دیتا، گویا اقوام متحدہ کے کرتا دھرتاوں کی آنکھوں پر مغربی محبت کی پٹی بندھی ہے، جسے ان سے ہمدری کے علاوہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔" انھوں نے مزید کہا کہ "او آئی سی ،،، تو صرف "اوہ آئی سی۔۔۔۔۔۔" بنی ہوئی ہے، جو کہنے کو تو مسلمانوں کی نمائدہ تنظیم ہے، لیکن صرف کہنے کی حد تک ہی فعال ہے، ہر سال اجلاس میں مختلف ملکوں کے رہنما جمع ہوتے ہیں لیکن عملی اقدام کہیں نظر نہیں آتا، فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کوئی اسٹینڈ لینے کو تیار نہیں، لہذآ ایسی تنظیم کا کیا فائدہ، اسے چند مسلم ممالک نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قائم رکھا ہوا ہے، ورنہ اس کا وجود تو صرف کاغذوں کی حد تک ہی محدود ہے۔"

سعودی عرب اور ایران کے تعلتقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حاجی حنیف طیب نے کہا کہ " پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر قتل و غارت گری کی گئی، جس میں سیکڑوں افراد کو مار دیا گیا، ہم سعودی عرب کی لڑائی کیوں لڑ رہے ہیں، انھوں نے پاکستان سے جنرل راحیل شریف تو مانگ لیا، لیکن جب پاکستان کے مسائل حل کرنے کی باری آئی تو ٹھینگا دکھا دیا، سعودی عرب پاکستان کے مسائل حل کرنے کو تیار نہیں، ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم پرائی آگ میں کودنے کے بجائے اپنے داخلی اور خارجی معاملات خود دیکھیں، ایران ہمارا پڑوسی اور دوست ہے، ہمیں اس سے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہیئے، ہمیں اپنا مفاد مقدم رکھنا چاہیئے قطع نظر اس سے کہ سعودی عرب یا کوئی اور ناراض ہوجائے گا، ہمیں ان کی خوشنودی سے فائدہ کیا ہے۔"

عالمی دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ کے زوال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ "موصل کی آزادی عراقی افواج کی عظیم کامیابی ہے، لیکن میں ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ وہاں داعش کی مستقل بندش کے لئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھاسکے، داعش کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سپورٹ کیا، مالی معاونت کی جدید اسلحہ فراہم کیا، جسے پاکستان، عراق، شام اور افغانستان سمیت ساری دنیا کے مسلمان ملکوں میں پھیلا دیا، داعش جو خود کو اسلامی ریاست کہتی ہے، اس نے کبھی امریکا یا اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کیا، یہ کیسی اسلام پرست جماعت ہے، جو صرف مسلمانوں کے قتل و غارت گری میں ملوث ہے، کبھی کسی شراب خانے پر کوئی حملہ ہوا، کبھی کسی مندر یا جوئے کے اڈے پر یا فحاشی کے مراکز پر کوئی سانحہ ہوا، نہیں، کیونکہ یہ انھی لوگوں کی قائم کردہ تنظیم ہے، جن کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنا ہے، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا بیان آن ریکارڈ موجود ہے انھوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ پاکستان میں جو دہشت گردی ہے، اسے ہوا دینے کی غلطی ہم نے کی۔" حاجی حنیف طیب نے کہا کہ "سافٹ اور ہارڈ طالبان کیا چیز ہے، مغرب میں یہ اصطلاح عام ہے، لیکن میرا کہنا ہے کہ طالبان صرف طالبان ہے، سافٹ یا ہارڈ کچھ نہیں ہوتا، جو لڑنے آجائے وہ ہارڈ اور جو کمرے میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرے وہ سافٹ، عجیب منطق ہے مغرب کی۔ دوہرا معیار ہے، اپنا قائم کردہ، جسے امریکا اور اس کے اتحادی دوسرے ملکوں پر تھوپنا چاہتے ہیں۔"

امریکی کانگریس کی جانب سے حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے حوالے سے حاجی حنیف طیب نے کہا کہ " کسی کو دہشت گرد یا امن پسند قرار دیے والا امریکا کون ہوتا ہے، لیکن ہم لوگ اس کی خوشنودی کی خاطر جوش میں آکر پابندیوں کا اعلان بھی کردیتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ امریکا کا اقدام درست ہے یا خود اس کے مفاد کے لئے ہے، حزب اللہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جو بھی تنظیم یا فرد یا ادارہ امریکی مفادات یا ان کی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائے، اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، نیو ورلڈ آرڈر کے تحت امریکا ایک ملک کو دہشت گرد قرار دیتا ہے تو دوسرے ملک کے دفاع کے لئے فنڈنگ کرتا ہے، شام کی صورتحال دیکھ لیں، وہاں بھی امریکا نے کیا کیا، پہلے فنڈنگ کی پھر اپنے ہی بھیجے گئے دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کئے، یعنی پہلے لڑاو پھر اسلحہ بیچو، یہ پالیسی ہے امریکا کی۔ مسلمانوں کو کمزور کرنا ہی اصل مقصد ہے امریکا کا۔"

عراق پر جنگ مسلط کئے جانے لے حوالے سے انھوں نے کہا کہ "امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شام پر حملہ کیا، اور اسے تباہ و برباد کردیا، اس سے قبل عراق کے معاملے پر بھی یہی منصوبہ بنایا گیا تھا، عراق پر حملے کے سلسلے میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے جب وہاں کی پارلیمنٹ نے سوال کیا تو وہ عرق جنگ کے جواز کے حوالے سے کوئی ثبوت نہ دے سکا، اسی طرح سابق امریکی وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ زندگی میں سب سے بڑا جھوٹ مجھ سے عراق میں کیمکل ہتھیاروں کی موجودگی کے حوالے سے بلوایا گیا، تاکہ اس کو جواز بنا کر وہاں حملہ کیا جاسکے۔" حاجی حنیف طیب نے کہا کہ"اگر ان حقائق کو دیکھتے ہوئے بھی ہم نہ جاگے مسلمان بیدار نہ ہوئے تو امریکا اور اس کے اتحادی ایسے جھوٹ بول کر مسلمانوں پر حملہ کرتے رہیں گے، مغرب کی سازشوں سے بچنے کے لئے ہمیں بحیثیت سچا مسلمان خود بیدار ہونا پڑے گا۔"       
https://taghribnews.com/vdchm-nix23nqmd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ