تاریخ شائع کریں2013 20 November گھنٹہ 11:00
خبر کا کوڈ : 146095
صاحبزادہ حامد رضا :

شیعہ سنی کے نعرے کی بنیاد پر آپس میں لڑانے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے

تنا (TNA) برصغیر بیورو
سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین کا خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ محرم الحرام مقدس مہینہ ہے، اس میں فرقہ واریت پھیلانے والوں کا سخت محاسبہ کرنا ہوگا، اتحاد و بھائی چارہ اسلام کے بنیادی اصول ہیں، جو تفرقہ بازی کو ہوا دیتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشتگردوں کو شہید نہیں سمجھتے، جو حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دے رہے ہیں وہ بے نقاب ہوچکے ہیں کہ انکا سلسلہ نسب کہاں جاتا ہے۔
شیعہ سنی کے نعرے کی بنیاد پر آپس میں لڑانے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے
تقریب نیوز (تنا): صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں، صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں۔ اپنے والد کی نسشت پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، امریکی سازشوں کے خلاف عوامی بیداری کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل پر ہمیشہ غم زدہ رہتے ہیں، پوری امت کو ایک لڑی میں پرویا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، شیعہ سنی کی تفریق سے ہٹ کر امت کو مسلمان بن کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں سے نالاں ہیں۔ پنجاب حکومت کی دہشت گرد نواز پالیسیوں پر ہمیشہ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے سانحہ راولپنڈی سمیت دیگر موضوعات پر ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

سانحہ راولپنڈی پر کیا کہیں گے، اسے شیعہ سنی مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔؟

سب سے پہلے تو اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا راولپنڈی واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی جتنا جلاؤ گھیراو ہوا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ مسجد کے مولوی نے یزید کو رضی اللہ تعالی عنہا کہا ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی گئی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ اہل سنت کا نام استعمال کرنے والوں کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ فتنہ پرستوں کا ٹولہ ہے، جس نے پورے ملک میں فتنہ کھڑا کیا ہوا ہے، آج جتنی بھی مساجد جلی ہیں اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا گیا ہے، یہ اسی گروہ کی کارستانی ہے ۔ شیعہ سنی صدیوں سے اکٹھے چلے آ رہے ہیں، سنی خود جلوسوں کے راستے میں سبیلیں لگاتے ہیں اور نذر و نیاز دیتے ہیں۔ دنیا نے اس گروہ
کی حرکتیں دیکھ لی ہیں، ان لوگوں نے سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے جتنے جھوٹ بولے ہیں اسکی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، برما، شام اور عراق کی تصویریں سوشل میڈیا پر چلا کر سنیوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے، جس میں وہ بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب یہ آگ ہنگو اور کوہاٹ تک پہنچ گئی ہے، باقی معاملہ جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے، جس پر مزید کوئی کمنٹ نہیں کرنا چاہیے۔

چلیں اس پر آپ نے موقف پیش کر دیا، یہ بتایئے گا کہ طالبان نے ایسے شخص کو امیر بنا دیا ہے جو ہزاروں لوگوں کا قاتل ہے، اب حکومت کیساتھ طالبان کے مذاکرات کو کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟

ہمارا تو پہلے دن سے ہی یہی مطالبہ ہے اور آپکو بھی یاد ہوگا کہ جب صوفی محمد نے سوات میں اپنی شریعت کا اعلان کیا تو ہمارے پلیٹ فارم سے مولانا فضل کریم صاحب نے اٹھ کر اس کو چیلنج کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ کر خاموش تھیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ موصوف جو امیر منتخب ہوئے ہیں، یہ سوات سے ہی ان کے نائب امیر کے طور پر مشہور تھے۔ ان کے بارے میں رائے عامہ یہ ہے کہ یہ بہت مضبوط ہیں اور بھارتی ایجنسی را بھی اس کو مکمل سپورٹ کرتی ہے۔ بھارتی ایجنسی را انہیں فنڈز بھی دیتی ہے۔ جس شخص نے بھی اس کو امیر بنانے کا انتخاب کیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اس نے پاکستان کی بھلائی تو کسی طور پر سوچنا نہیں۔ اس کے علاوہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ جو ان کا عمل رہا ہے، وہ کھلم کھلا اس کے کرتوتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی پاکستان کے لیے بہتر کرے۔ دیکھیں ڈرون حملہ تو امریکہ نے کیا ہے۔ اگر انہوں نے انتقام ہی لینا ہے تو طالبان کو چاہیے کہ وہ امریکہ سے انتقام لیں۔ یہ کون سا انصاف ہے کہ ڈرون حملہ امریکہ کرے اور آپ اس کا انتقام پاکستانی عوام سے لیں۔ میرے خیال میں چونکہ طالبان اور ان کے حامیوں کا نقطۂ نظر اور ہدف یہی ہے کہ خدا نہ کرے کہ پاکستان کو توڑ دیا جائے۔ اسرائیل، بھارت اور امریکہ کی تکون نے ایک مکمل اتحاد قائم کیا ہوا ہے۔ ہم تو اس کی شدید مخالفت اور مذمت بھی کر رہے ہیں، چونکہ موقع انتہائی حساس ہے اور محرم الحرام کا مہینہ بھی ہے۔ طالبان نے ادھر سے انتقام کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ہم مکمل طور پر یقین رکھیں گے کہ ہماری حکومت اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کوئی ایکشن لے لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ورنہ قوم ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہوگی اور اس دفعہ عوام کے ہاتھ حکومت کے گریبانوں تک ضرور پہنچیں گے۔

رحمان ملک اور چوہدری نثار میں کیا فرق دیکھتے ہیں۔؟

جب رحمان ملک
وزیر داخلہ تھے تو اس وقت ان پر بےتحاشہ اعتراضات کیے جاتے تھے، لیکن بہرحال ان میں اور چوہدری نثار میں ایک فرق یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایکٹ کا معاملہ ہو رہا ہوتا تو رحمان ملک کم از کم میڈیا پر آ کر جو بھی صداقت ہوتی تھی، بہرحال وہ ساری معلومات عوام تک منتقل کرتے تھے۔ چوہدری نثار تو ایسا کرتے ہیں کہ جب کوئی ناگہانی واقعہ ہو جاتا ہے تو موصوف چپ کرکے اپنے گھر تشریف فرما ہوجاتے ہیں اور پانچ دن بعد اجلاس بلا کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رحمان ملک تو طالبان کے بہت مخالف تھے، اسی لیے رحمان ملک کا نام ہٹ لسٹ میں بھی آیا۔ اس کے برعکس چوہدری نثار تو طالبان کے پیاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کے مارے جانے پر جس طرح ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایکشن لیا ہے، اس سے تو اس طرح لگ رہا تھا کہ جیسے چوہدری نثار پاکستانی حکومت کے نہیں بلکہ تحریک طالبان کے وزیر داخلہ ہوں۔

ابھی جو آپ نے مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور الائنس آف پیٹریاٹ کا اعلان کیا ہے، اس سے قوم کیا امید رکھے۔؟

پاکستان کے جتنے بھی محب وطن لوگ ہیں، اب مجلس وحدت مسلمین کی قیادت ہو یا انکی جماعت کے متعلقین ہوں یا ہماری جماعت کے متعلقین ہوں یا ہماری جماعت کے قائدین ہوں، وہ تو اپنی قربانیاں پاکستان کے لیے کسی نہ کسی شکل میں دیتے آ رہے ہیں۔ اب یہ بات ہمارے وکلاء، انجینئرز، ڈاکٹرز اور اقلیتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ جن کے حقوق کی آواز ہم بلند کر رہے ہیں، وہ پاکستان کو مضبوط دیکھیں، پاکستان کو منظم دیکھیں، پاکستان کو ان دہشت گردوں سے بچائیں، تو اس شخص کو فوری طور پر ایسے اتحاد میں شامل ہونا چاہیے۔ ہمارا کوئی سیاسی اتحاد نہیں۔ ہمارے اتحاد کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ جن دہشت گردوں نے پاکستان کا بیڑا غرق کر دیا ہے، پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کی جائے۔

موجودہ حکومت نے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا راگ الاپ رکھا ہے، اس کو کتنا طول دے گی اور کتنی لاشیں مزید اٹھائے گی۔؟

چونکہ پچھلے پانچ سال بھی انہی کی حکومت تھی اور دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتے رہے اور اب بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ اب فرق صرف اتنا ہے کہ پنجاب کے جو وزیر قانون ہیں، وہ اس بارے میں بہت شہرت حاصل کرچکے ہیں اور اب وہی شہرت وفاقی وزیر داخلہ کے بارے میں بھی ہوگی کہ اب انہوں نے بھی کالعدم جماعتوں کی زبان بولنا شروع کر دی ہے۔ اب جو پاکستان کے 80 ہزار معصوم
بے گناہ افراد کا قاتل ہے، آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکیم اللہ محسود پر ظلم کیا گیا۔ آپ کو یہاں پر 80 ہزار بے گناہ لوگوں کی لاشیں نظر نہیں آتیں، ان کے گھر نظر نہیں آتے۔ وہ بم دھماکے جو ان طالبان نے کیے کہ جن میں معصوم چھوٹے چھوٹے بچے کہ جن کی عمریں دو دو سال ہیں، بے گناہ عورتیں جن کے پیٹ چاک کیے گئے اور حاملہ عورتوں کو قتل کیا گیا اور ان کے بچوں کو نکال کر مارا گیا۔ یہ اسلام تو بہت دور کی بات ہے، یہ انسانیت کے ہی خلاف ہے۔ یہ تو شہید کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو انہیں مسلمان کیا، انسان ہی نہیں سمجھتے بلکہ ہماری نظر میں تو یہ بھیڑیے ہیں، جو انسانی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

ہمیں ایسا کیا کرنا چاہیے کہ ان بھیڑیوں سے جان چھوٹ جائے۔؟

معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، لسانی بنیادوں پر نہیں، گروہی بنیادوں پر نہیں، ہم سب کو مل جل کر ایک مٹھی کی طرح دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تحفظات سب کو ہوسکتے ہیں، لیکن ہمیں برداشت کی فلاسفی اپنانی ہوگی۔ سنی اتحاد کونسل کے قائدین اور ایم ڈبلیو ایم کے قائدین کو دیکھ لیں، ان سب نے ایک برداشت کی پالیسی بنائی ہوئی ہے۔ ہم نے ابھی تک دہشت گردوں کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے لوگوں کو اسلحہ اٹھانے کا درس دے رہے ہیں۔ ہم تو اپنے لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ دہشت گردی کا جواب محبت کے ساتھ دیا جائے۔

اب یہ لمحہ فکریہ پاکستان کی ایجنسیوں، پاکستان کی سکیورٹی اداروں اور پاکستان کے خفیہ اور اعلٰی اداروں کے لئے ہے جو پاکستان کے اندر حکومتوں کا بنیادی ستون ہیں، جس میں ہماری عدلیہ بھی ہے، ہمارے سکیورٹی ادارے بھی شامل ہیں کہ وہ اب تمیز کریں ایسے لوگوں میں کہ جو پاکستان کے محب ہیں اور وہ جو پاکستان کے غدار ہیں۔ اس سے زیادہ غداری اور کیا ہوسکتی ہے کہ جنہوں نے نو گو ایریاز بنائے ہوئے ہیں اور اپنی فوج الگ بنائی ہوئی ہے اور کئی کئی قتلوں میں ملوث افراد ہیں، لیکن ان کو سرکاری سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ اسکے برعکس ہم جیسے لوگ کہ جن کو روزانہ کی بنیادوں پر تھریٹس مل رہے ہیں، انکو حکومت کہتی ہے کہ اپنا دفاع خود کرنا ہے۔ ہم تو اپنا دفاع خود ہی کر رہے ہیں اور کریں گے بھی انشاء اللہ۔ بہرحال ہم سب کو اکٹھا کھڑا ہونا ہوگا۔

حکومت اور طالبان کے مذاکراتی ڈرامے کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل
نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے، عدالت سے کتنی توقعات ہیں۔؟


جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہم پاکستان کے آئین کو ماننے والے لوگ ہیں اور حکومت کی رٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو دل و جان سے قبول کرنے والے لوگ ہیں اور اگر سکیورٹی فورسز کا کوئی جوان مارا جاتا ہے تو ہم اسے شہید کہتے ہیں۔ ہم اس طالبان کو شہید نہیں مانتے، یہ مردود ہیں، پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑتا ہوا جو بھی مارا جائے وہ ہلاک ہے۔ جو کوئی ہمارے ججوں کے خلاف بغاوت کرے، دہشت گردی کرے تو ہم اس کو جہنم واصل کہتے ہیں اور اپنے جج کو شہید کہتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ میں جا رہے ہیں اور اپنا قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے کیس لڑیں گے۔ وہاں پر ہمارا مطالبہ یہ ہوگا کہ چونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اختیار حاصل ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ حکومت کو راستہ بتائے کہ وہ ان گراؤنڈز پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ انشاء اللہ ہم قانونی دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ اگر ہماری وہاں سے بھی داد رسی نہ ہوسکی تو پھر بھی ہم اپنی جدوجہد احتجاج کی صورت میں جاری رکھیں گے۔ احتجاج کسی صورت میں بھی ہوسکتا ہے، گلی، سڑکوں یا پھر سیمینار کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔

حکومت کیا کرنا چاہتی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔؟

سمجھ آئے گی بھی نہیں، چونکہ جب بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر آپ کو لایا جاتا ہے اور جب اپنی عوام کی بات نہیں سنتے ہیں۔ سمجھ ان کو تب آئے گی جب ان کے اپنے گھر تک آگ پہنچے گی اور جب ان کے اپنے گھر سے ان کی اپنی عورت کی عصمت دری کی جائے گی۔ پھر پتہ چلے گا کہ انسانیت سوز مظالم کس کو کہا جاتا ہے۔ جب آپ کے پاس دو دو سو بلٹ پروف گاڑیوں کے کانوائے ہیں، جس میں نہ تو ان کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی پریشانی۔ حکومت سمجھنا بھی نہیں چاہتی۔ اب بھی اگر حکومت نہ سمجھی تو عوام بھرپور طریقے سے سڑکوں پر ہوں گے، چونکہ اب عوام خوب سمجھ چکے ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے یہ ملک بنایا تھا اور اب ہم اس کو بچانے کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بھی بہائیں گے۔

آپ کا گلگت بلتستان کا دورہ کیسا رہا۔؟

سب سے پہلے میں مجلس وحدت مسلمین کا انتہائی مشکور ہوں کہ جنہوں نے گلگت بلتستان کے جشن آزادی کے اہم موقع پر ہمیں دعوت دی۔ اس کے علاوہ گلگت میں ایم ڈبلیو ایم کے میزبانوں کا جو جوش اور جذبہ تھا، اس کے ساتھ ساتھ عوامی جذبہ بھی قابل دید تھا۔ اس طرح سے ہماری گردن پر بہت
بڑا قرض رکھ دیا گیا اور ہم بھی انشاءاللہ وہ قرض مثبت اور محبت سے ادا کریں گے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تاخیر کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

جب آپ کا اپنا ملک اہم ہوگا تو آپ پھر اسی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اس کے برعکس جب بندے کو اپنی کرسی، اپنی پارٹی یا اپنا گھر اہم ہو تو ملک پھر بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہماری حکومت بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ناچتی رہی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہر حال میں شروع ہونا چاہیے، چونکہ ہر دن کے آخر میں حکمرانوں کے گھروں کے چولہے نہیں بجھیں گے۔ ان کی جائیدادیں امریکہ، یورپی ممالک میں ہیں۔ انہیں کیا پتہ کہ جن کے گھر چولہا نہ جلے اور جس کے گھر میں بچہ بھوکا مر جائے تو اس کے گھر میں کیا حال ہوتا ہے۔ اگر حکومت نے اس منصوبے پر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تو ہم احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئیں گے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی بقاء کے لیے سب سے اہم اور سب سے ضروری پاک ایران گیس پائپ لائن والا منصوبہ ہے جو ہر حال میں مکمل ہونا چاہیے۔ ہمارا پانی بھارت روک چکا ہے، بجلی ہمارے پاس نہیں، گیس ہمارے پاس نہیں، اگر کاشت بھی ختم ہوگئی تو یہ سب وسائل جب ختم ہو جائیں گے تو پھر ہماری آئندہ نسل کہاں جائے گی۔ پس اس پر قوم کو ایک متفقہ موقف اختیار کرتے ہوئے اٹھنا ہی ہوگا اور ان لوگوں کا تعین بھی کرنا ہوگا کہ جو لوگ آج بھی عوام کے اندر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کا حکومت کے لیے انتخاب کرنا ہوگا۔

موجودہ حالات اور بالخصوص محرم الحرام کے حوالے سے کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟

یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں امام حسین علیہ السلام نے ایسی عظیم قربانی دی کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس ماہ میں ہمیں اخوت و یگانگت کے ساتھ علم بلند کرنا ہے کیونکہ یہی وہ پیغام ہے کہ اپنے نانا کے دین کی سربلندی کے لیے حسین (ع) اپنا سر کٹا تو دیا لیکن جھکایا نہیں۔ ہمیں بھی امام حسین (ع) کی اس فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اسلام کے علم کو بلند رکھنا ہے، اسے گرانا نہیں۔ میری تمام مسلمان بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی ہماری پہچان ہے۔ ہمارے صوفی ازم کی فلاسفی بھی یہی ہے کہ اختلافات اپنی جگہ پر لیکن اپنے مسلک کو نہ چھوڑو اور کسی کا مسلک نہ چھیڑو۔ ہر ایک کو پاکستان میں رہتے ہوئے آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی مذہبی تقریبات کا انعقاد کرسکے۔ جو لوگ ہمیں شیعہ سنی کے نعرے کی بنیاد پر آپس میں لڑا رہے ہیں، ان لوگوں کا احتساب کرنا ہے۔
https://taghribnews.com/vdceop8znjh8e7i.dqbj.html
منبع : اسلام ٹائمز
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ