تاریخ شائع کریں2018 24 May گھنٹہ 16:05
خبر کا کوڈ : 332912

گذشتہ سات سالوں میں چار ہزار سے زائد ہزارہ مرد قتل

ہزارہ برداری کے افراد کی قتل و غارت کے معاملے پر سنجیدہ رویہ اختیار کریں
پاکستانی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ستمبر 2011 کے بعد سے اب تک ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار سے زائد افراد قتل ہوئے
گذشتہ سات سالوں میں چار ہزار سے زائد ہزارہ مرد قتل
پاکستانی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ستمبر 2011 کے بعد سے اب تک ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے 3 ہزار سے زائد افراد قتل ہوئے۔

ادھر غیر سرکاری ذرائع نے ہلاک شدگان کی تعداد 4 ہزار بتائی ہے، تاہم یہ واضح ہے کہ تمام جاں بحق ہونے والے افراد مرد تھے۔

وکیل اور سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا کہ ہزارہ برداری کے 10 ہزار خواتین اور بچوں کی محدود آزادیِ اظہار اور نقل و حرکت کے باعث زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

انہوں نے کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ ہزارہ برداری کے افراد کی قتل و غارت کے معاملے پر سنجیدہ رویہ اختیار کریں۔

جلیہ حیدر نے بتایا کہ ‘90 ہزار سے زائد ہزارہ برداری پر مشتمل خاندان ملک کے دوسرے حصہ میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مشکل ترین زندگی گزار رہے ہیں۔

اس حوالے سے انہوں نے الزام لگایا کہ بلوچستان حکومت نے ہزارہ برداری کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں قانون کی پاسداری نہیں رہی، ہم سےغلط بیانی کی گئی، ہزارہ خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور بچوں کی زندگی کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہے’۔ سماجی کارکن نے بتایا کہ ‘ہزارہ برادری کے افراد بیگار کیمپ جیسی زندگی گزار رہے ہیں’۔

کمیٹی ممبر اور حکومتی عہدیدار جلیلہ حیدر کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے جبکہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) جہانزیب جنگوزئی نے کمیٹی کے سامنے جلیلا حیدر کی باتوں کی تائید کی۔

اے آئی جی کا کہنا تھا کہ ‘ہزارہ برداری کے لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں تاہم ہم ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرر ہے ہیں’۔

فرنٹیئر کور (ایف سی) کے لفٹیننٹ کرنل بلال حیدر نے کمیٹی کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز فرقہ پرستی پر مشتمل فیتھ جنریشن کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ‘ایف سی ہزارہ برادری کی حفاظت کے لئے ہر ممکن اقدامات بروکار لارہی ہے، سرحدوں پر مزید اہلکاروں کو تعینات کیا جا چکا ہے تاکہ ہزارہ برادری کے افراد کی ٹارگیٹ کلنگ روکی جا سکے، ہزارہ برادری پر حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ 2012 کے بعد ہوا۔
https://taghribnews.com/vdcjv8et8uqethz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ