تاریخ شائع کریں2018 18 November گھنٹہ 13:55
خبر کا کوڈ : 378420

فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دیا

اسرائیلی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں
اسرائیلی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دے کر آگ کے بدلے آگ کے معنی کو مضبوط کر دیا ہے ۔
فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دیا
مشہور عربی اخبار رای الیوم نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اسرائیلی صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کو منہ توڑ جواب دے کر آگ کے بدلے آگ کے معنی کو مضبوط کر دیا ہے ۔

رای الیوم کے سینئیر ایڈیٹر عبد الباری عطوان نے فلسطین کے حالیہ واقعات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ فلسطینی عوام خاص طور پر غزہ کے فلسطینیوں کا حق ہے کہ انہیں کامیابی حاصل ہو، وہ اپنی کامیابی کا جشن منائیں اور مساجد میں اللہ اکبر کے نعرے لگائیں ۔ اگر فلسطینیوں کی جرات مندانہ مزاحمت نہ ہوتی تو مغرور صیہونی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کبھی بھی جنگ بندی قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے اور سمندری، زمینی اور فضائی راستوں سے غزہ پٹی پر حملے جاری رکھتے ۔ اسرائیلی صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں اور غزہ پٹی و مغربی کنارے میں مزاحمتی طاقتیں ہی ہیں جنہوں نے یہ زبان اچھی طرح سیکھ لی ہے ۔

عبد الباری عطوان لکھتے ہیں کہ نتن یاہو اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بغیر تباہ کن جواب اور صیہونی فوجیوں نیز صیہونی کالونیوں میں رہنے والوں کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچائے بغیر غزہ پٹی کو نشانہ بنانا ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے مزاحمت کے ایک سینئیر کمانڈر کے اغوا اور ان کے قتل کے لئے اپنے اسپیشل کمانڈوز غزہ بھیجے تھے ۔ یہ کمانڈوز گزشتہ سال کی طرح اس بار بھی فلسطینی مزاحمت کے جال میں پھنس گئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس جانب فرار کریں ۔

اگر یہ دہشت گرد ٹیم کی نجات کے لئے اسرائیل کے وسیع حملے نہ ہوتے اور ان کے ہیلی کاپٹر وقت پر نہ پہنچ جاتے تو یہ پوری ٹیم ہلاک ہو جاتی ۔ ان دہشت گردوں کو ہلاک کرنا ایک قانونی اور قومی حق ہے ۔

عبد الباری عطوان اپنے اداریے میں غزہ اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے اعلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غزہ پٹی کی حالیہ جنگ کم مدت کا تھا کیونکہ نتن یاہو اور ان کی کابینہ اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ اگر یہ جنگ وسعت اختیار کرتا ہے تو انہیں شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑے گا اور ممکنہ طور پر اس کی وجہ سے نتن یاہو اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کر سکتے ہیں  اور ان سے تعلقات استوار کرنے والے عرب دوستوں مشکل میں پڑ سکتے ہیں ۔ اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ کم از کم نقصان کے ساتھ بحران سے نکل جائیں ۔ مزاحمتی فورسز نے جو نئے اندازے پیش کئے ہیں ان سے جنگ میں ایک نئے معنی سامنے آتے ہیں اور وہ ہے "آگ کے مقابلے آگ" اور غزہ پٹی کے نزدیک واقع صیہونی کالونیاں فلسطینی مزاحمت کے میزائلوں کے سٹیک نشانے پر ہیں ۔

صرف ایک دن میں 400 میزائل فائر کئے گئے جن سے اسرائیلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ خطرے کے سائرن مسلسل بجتے رہے اور لاکھوں خوفزدہ کالونیوں کے رہنے والوں کے لئے پناہ کے دروازے کھول دیئے گئے ۔

کون سوچ سکتا تھا کہ ایک مغرور حکومت کے سامنے اتنی تیزی کے ساتھ اس طرح کے حالات پیدا ہو جائیں گے؟ یہ وہی مزاحمت کا محاذ ہے جو اللہ کی مدد سے سازش کے دیگر محاذوں کو بھی شکست دے دے گا۔ رای الیوم کے مشہور اور سینئیر تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے اپنے اداریے میں لکھتے ہیں کہ اس بار مزاحمت کی فتح ہوئی کیونکہ اسے یقینی فتح کا پورا یقین تھا جس طرح سے اسے اس بات پر یقین ہے کہ فسطین کی مزاحمتی قوم اس کی حامی ہے ۔  جب الاقصی ٹی وی چینل نے اپنا ہیڈکواٹر تباہ ہونے کے دس منٹ کے اندر اپنی نشریات دوبارہ شروع کر دی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مزاحمت نے ہر امکان اور اندیشے کو مد نظر رکھا تھا اور ہر حالت کا آپشن تیار کر رکھا تھا۔ اس ٹی وی چینل نے اسرائیلیوں کو تپا رکھا ہے اور یہ خود اپنے آپ میں ایک فوج ہے جو صیہونی حکومت پر شدید حملے کر رہا ہے۔ غزہ کے عوام اس جنک میں فتح کے لئے مبارکباد کے لائق ہیں ۔ اس فتح کے نتیجے بھی بڑی تیزی سے سامنے آئے اور ظالمانہ محاصرے کے باوجود اس نے نئے فوجی اندازے پیدا کر دیئے ہیں ۔
https://taghribnews.com/vdcdxj0szyt05o6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ