>> وحدت کانفرنس کا انعقاد امریکہ کی شکست کا اعلان ہے | تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
تاریخ شائع کریں2018 17 November گھنٹہ 15:51
خبر کا کوڈ : 378168

وحدت کانفرنس کا انعقاد امریکہ کی شکست کا اعلان ہے

"آیت اللہ محسن اراکی " نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا
"آیت اللہ محسن اراکی " نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 32 ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کی جزیئات سے میڈیا کے نمایندوں کو آگاہ کیا۔
وحدت کانفرنس کا انعقاد امریکہ کی شکست کا اعلان ہے
وحدت کانفرنس کا انعقاد امریکہ کی شکست کا اعلان ہے
تقریب خبر رساں ایجنسی کے مطابق مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہ "آیت اللہ محسن اراکی " نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 32 ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کی جزیئات سے میڈیا کے نمایندوں کو آگاہ کیا۔
آیت اللہ اراکی نے اپنی تقریر کی ابتداء میں روز آغاز امامت، حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی شریف کی مبارک باد سے کیا اور فرمایا، خداوند متعال کی مدد اور نصرت کے ساتھ اس سال انتہائی سخت حالات میں بھی وحدت کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے، کیوں کہ دشمن کی تمام سازشیں وحدت کانفرنس کو ناکام بنانا چاہتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا، مدافعین حرم کا پاک و پاکیزہ خون اپنا رنگ لے آیا اور تقریب مجمع کا انعقاد دشمن کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خداوند متعال کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے تمام اسلامی قوتّوں ایک نہج پر گامزن کیا ہیں اور اس تحریک کا آغاز وحدت کانفرنس کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے اور آج اس بات کا ہم اعلان کرتے ہیں عالم اسلام میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔
امریکہ اپنے اتحادی سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ مل کر وحدت کانفرنس کے قیام میں مشکلات ایجاد کرنا چاہتا ہے تو ہم نے بھی 100 ممالک کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ مل کر ان سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا اس کانفرنس میں آزادی ،اسقلال کے خواہاں ، استکبار کے مخالف اور وحدت کے داعی دانشوروں اور علماء شریک ہیں، ان کی اس کانفرنس میں شرکت نے امریکہ کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے۔
آیت اللہ اراکی نے وحدت کانفرنس کو دشمن کی سازشوں کی خلاف ایک دندان شکن جواب قرار دیتے ہوئے کہا وحدت امریکی پابندیوں اور اسلامی دشمنی کے مقابلے میں امریکی سازشوں کا بھرپور جواب ہے۔
انہوں  نے مزید کہا اس کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت میں ہورہا ہے جب صہیونی جابر اور ظالم حکومت کا خاتمہ نزدیک ہے اور وحدت کانفرنس اس ناجائز صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی ہمایت کا اہم زریعہ ہے، مسئلہ فلسطین کی ہمایت، یمنی عوام کی حمایت بھی ہے کیوں کہ یہ مسائل ایک دوسرے سے مربوط ہیں، یہی وجہ ہے کہ وحدت کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا مسئلہ فلسطین ہے۔
وحدت کانفرنس اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن اپنی سازشوں اور مظالم کے زریعہ تحریک آزادی کو دبا نہیں سکتا اور یہ آزادی کی تحریکیں کامیابی کی منزل تک ضرور پہچیں گی۔
آیت اللہ اراکی نے خبرنگاروں کی جانب سے اسماعیل ھنیہ کی شرکت اور صدر مملکت کی تقریر کے حوالے سے کیے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ، بعید ہے کہ مصر اسماعیل ھنیہ کو ایران کا ویزہ فراہم کرے لیکن اگر ایس نہ ہوا تو ویڈیو لنک کے زریعہ ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا مختلف ممالک کے اہم وزراء ، نمایندہ سیاسی و مذہبی شخصیات نے شرکت کا وعدہ کیا ہے اور ترکی کی جانب سے ایک اہم علماء کا پینل وحدت کانفرنس میں شرکت کرے گا۔اب 600 مہمان تشریف لا چکے ہیں اور ابھی مزید  200 سے 300 مہمانوں کی شرکت متوقع ہے۔
آیت اللہ اراکی نے سعودی عرب سے متعلق کیے جانے والے سوال کے جواب میں کہا ،سعودی عرب جیسے بعض ممالک اپنے علماء کی شرکت میں رکاوٹیں دال رہے ہیں، لیکن ہم نے اس کے باوجود سعودی علماء کو دعوت دی ہے۔
وحدت کانفرنس کے پروگراموں میں سے ایک جمہوری اسلامی ایران کے گذشتہ 40 سالہ انقلابی نظام پر روشنی ڈالنا ہے۔
ہم سالوں سے اس بات پر تاکید کر کرہے ہیں کہ اگر سعودی عرب مسلمان ممالک کی سربراہی کرنا چاہتا ہے تو اس کو امت میں وحدت کے پرچم کو بلند کرنا پڑے گا، لکین افسوس کے ساتھ سعودی عرب نے ہمیشہ ہی تعصب اور کینہ پروری کا بیج بویا اور عالم اسلام کو فرقوں میں تقسیم کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کو اسلام کی رہبری اور نمایندگی نہیں دی جاسکتی یہاں تک کہ خادم حرمین بھی کہلانے کے لائق نہیں ہے۔
وحدت کانفرنس میں 3 کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جن میں امریکہ اور اسرائیل کا قدس کو دارالخلافت  قرار دینے کی مذمت کی جائے گی۔
مجمع جہانی تقریب مذاہب کے سربراہ نے کہا، ہم اسرائیل کے نام سے کسی ملک کو نہیں پہچانتے ہیں اور اسرائیل نامی ملک زمین پر وجود ہی نہیں رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے پاس حق نہیں ہے کہ قدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرے۔
ایسی طرح سعودی عرب اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بہت سے اسلامی ممالک کے علماء کو وحدت کانفرنس میں شرکت سے روک رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کانفرس کے محور میں سے ایک فلسطین کا ریفرنڈم ہے اور جس کا رہبر انقلاب اسلامی نے بھی ذکر فرمایا ہے،ہمارا کہنا ہے کہ صلح کا معیار برابری ہونی چاہیے اور فلسطینی عوام کو اس میں شرکت کا برابری کا موقع ملنا چاہے اور یہی روش منطقی اور عقلی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھی وحدت کے حوالے سے بہت کام ہورہا ہے اور ہم اس مثبت عمل کی حمایت کرتے ہیں۔
آیت اللہ اراکی نے اجلاس کے دورانیہ سے متعلق کہا، اجلاس کی شروعات صبح 9 بجے صدر مملک کی تقرر کے ساتھ کی جائے گی، اس اجلاس میں تقریبا 10 کمیشن تسکیل دیے گئے ہیں جس میں سے 3 فلسطین سے متعلق ، علماء مقاومت کمیشن،خواتین کمیشن، اور ایسی طرح دوسرے دن رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب اور امام خمینی (رح) کے مزار پر حاضری شامل ہے۔
انہوں نے شام سے متعلق اپنی نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ شام کی موجودہ صورتحال جو عالم اسلام کے لیے انتہائی اہم پیش نظر رکھتے ہوئے اور وہاں موجود علماء کی اس ملک میں موجودگی کو دیکھتے ہوئے بشار الاسد سے شیعہ و سنی علماء کمیٹی تشکیل دینے کی پیش نہاد کی ہے۔
انہوں نے کہا امریکہ کی ایران کے خلاف پالیسیاں ناکام ہوچکی ہے اور بہت سے ممالک نے ایران کے ساتھ ہمکاری کا اعلان کیا یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔
اک صحافی کے CFT سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے کہا کہ اس معاملے میں بھی دیگر قانونی معاملات کی طرح طریقہ کار اپنا جائے گا کیوں کہ CFT کی بررسی میں اختلاف کا سبب یہ نہیں ہے کہ انقلاب جاری رکھیں یا نہ رکھیں بلکہ دقت اس بات میں ہے کہ آیا یہ مقاومت کو کمزور تو نہیں کرے گا۔
 آیت اللہ اراکی نے آخر میں اپنے بیان میں کہا آج ہم اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ وحدت اور مقاومت پہلے کے مقابلے میں مضبوط او مستحکم ہو چکی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcce4q142bqms8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ