تاریخ شائع کریں2018 5 July گھنٹہ 17:40
خبر کا کوڈ : 341160

ایران کیخلاف عالمی سامراج کا بیلجیم آپریشن

جمعہ کے روز کے اجلاس میں ایران کو دباؤ میں لانے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے
اسرائیل و امریکہ یہ نہیں چاہتے کہ یورپی ممالک یا کوئی بھی ملک ایران کیساتھ اقتصادی سمیت کسی بھی نوعیت کے دوستانہ تعلقات رکھے، اسی لئے انہوں نے ماضی کیطرح جیسے ارجنٹائن میں حزب اللہ لبنان کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا تھا، اسی طرح ایرانی حکومت کیخلاف یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ تہران میں بیلجیم اور فرانس کے سفیروں اور جرمنی کے چارج ڈی افیئرز کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے احتجاج کیا گیا۔
ایران کیخلاف عالمی سامراج کا بیلجیم آپریشن
حسب توقع امریکہ نے ایران کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بند نہیں کیا اور اس مرتبہ بعض یورپی ممالک کی سرزمین اور سرکاری اداروں کو استعمال کیا ہے۔ طریقہ کار وہی پرانا گھسا پٹا اور الزام بھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ امریکی سامراجی بلاک کو ایران کے خلاف کوئی نیا آئیڈیا سوجھا ہو۔ بیلجیم کے انٹیلی جنس حکام و نچلی سطح کی عدالت کے الزامات کے مطابق ہفتہ 30 جون 2018ء کو ایک کار کی تلاشی لی گئی، جس میں ایک اڑتیس سالہ مرد (امیر) اور اور ایک 33 سالہ عورت (نسیمہ) سوار تھے، انکی کار سے دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر برآمد ہوا۔ یہ میاں بیوی ہیں تو بیلجیم کے شہری لیکن انکے اجداد کا تعلق ایران سے ہے۔ برسلز میں یورپی یونین کے دفاتر کے قریب سے اس جوڑے کی مرسڈیز کار کو روک کر یہ سامان برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ یہ فرانس جا رہے تھے، جہاں ایران کے موجودہ نظام حکومت کے مخالف گروہ(MEK or MKO) (NCRI)کے سرکردہ افراد کا اسی روز یعنی 30 جون کو ہی اجتماع تھا، جہاں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی گیولیانی اور امریکہ کے بعض اتحادی ممالک کی اہم شخصیات بھی شریک تھیں۔

بیلجیم حکام نے الزام لگایا ہے کہ پکڑے جانے والے جوڑے کا ہدف پیرس کے شمال میں ہونے والے مذکورہ اجتماع کے شرکاء تھے۔ چار ہزار افراد کے اس اجتماع میں شرکاء میں تارکین وطن اور یورپی نوجوانوں کو اجلاس کے بعد پیرس کی سیر کرانے کی لالچ دے کر لایا گیا تھا۔ یہ گروہ تقاریر کرنے والی اہم شخصیات کو بھاری معاوضے ادا کرکے بلاتا ہے اور ایران میں دہشت گردی کے ان گنت سانحات میں ملوث رہا ہے۔ اس الزام کا بھونڈا پن یہ ہے کہ اتنے بڑے اور اہم مشن پر دھماکہ خیز مواد کو کار میں لے جایا جاسکتا ہے جبکہ سرحدی گذر گارہوں پر بھی سخت چیکنگ ہونا تھی۔؟؟ صرف یہی نہیں بلکہ سازش کے دوسرے حصے پر عمل کرتے ہوئے یورپی گرفتاری وارنٹ کے تحت بیلجیم پولیس کی درخواست پر جرمنی میں ایران کے اس سفارتکار اسد اللہ اسدی کو گرفتار کیا گیا جو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں تعینات ہیں اور بین الاقوامی قوانین (ویانا کنونشن) کے تحت انہیں سفارتی استثنیٰ بھی حاصل ہے، لیکن امریکی اسرائیلی سازش کے تحت بین الاقوامی قوانین و سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا۔

اس کے علاوہ فرانس میں ایک 54 سالہ ایرانی مھرداد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے، کیونکہ منصوبہ سازوں کو معلوم تھا کہ ایرانی صدر روحانی کا یورپی ممالک کا دورہ طے ہے اور انہیں سوئٹزرلینڈ سے ہوتے ہوئے آسٹریا کا دورہ کرنا ہے، جہاں جمعہ 6 جولائی کو انہوں نے گروپ پانچ مائنس امریکہ سے ملاقات و مذاکرات کرنے ہیں۔ یورپی یونین کے تین ملک برطانیہ، فرانس و جرمنی، روس اور چین سے اعلیٰ سطحی مذاکرات ہونے ہیں، جس میں یہ ممالک ایران کو یہ ضمانت دینے کا ذہن بنا چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور امریکہ سے کہیں گے کہ وہ انکے اقتصادی مفادات کا خیال رکھے۔ چونکہ ویانا میں یہ اجلاس اس طرح ہو جاتا تو امریکہ کی ذلت و رسوائی و تنہائی پوری دنیا دیکھتی، اس لئے اس ممکنہ ذلت و رسوائی سے بچنے کے لئے امریکی اتحاد اس اوچھے ہتھکنڈے کے ذریعے ایران اور یورپی یونین کے تعلقات خراب کرنا چاہتا تھا۔

اسرائیل و امریکہ یہ نہیں چاہتے کہ یورپی ممالک یا کوئی بھی ملک ایران کے ساتھ اقتصادی سمیت کسی بھی نوعیت کے دوستانہ تعلقات رکھے، اسی لئے انہوں نے ماضی کی طرح جیسے ارجنٹائن میں حزب اللہ لبنان کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا تھا، اسی طرح ایرانی حکومت کے خلاف یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ تہران میں بیلجیم اور فرانس کے سفیروں اور جرمنی کے چارج ڈی افیئرز کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان سے احتجاج کیا گیا۔ جرمنی کے سفارتخانے کے چارج ڈی افیئرز سے نائب وزیر خارجہ عراقچی نے رسمی طور مطالبہ کیا کہ سفارتی قوانین کے تحت ایرانی سفارتکار کو بغیر کسی شرط و تاخیر کے فوری آزاد کیا جائے۔ صدر روحانی آسٹریا پہنچ چکے ہیں، جہاں ایران کے دشمن ایرانی سفارتکار کو حاصل استثنیٰ ختم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی و اسرائیلی، ایران و یورپی ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش میں ملوث ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے بھی اسے فالس فلیگ آپریشن قرار دیا ہے۔

اصل میں بین الاقوامی سیاست اور ذرائع ابلاغ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ جنہیں امریکہ کی سامراجی تاریخ اور اسرائیل کی سازشوں کی تاریخ یاد ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں جاکر خفیہ کارروائیاں کروانا assets بھرتی کرکے سبوتاژ کرنا، خفیہ جنگیں لڑنا، ذرائع ابلاغ کو آپریشن موکنگ برڈ کے تحت جھوٹے پروپیگنڈے کے لئے استعمال کرنا، آپریشن مونگوز یا آپریشن نارتھ ووڈز کے تحت کسی ملک پر حملے کے لئے جھوٹا جواز تراشنا، یہ سب امریکہ کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بیلجیم ہو یا فرانس یا جرمنی و آسٹریا، ہر جگہ امریکہ کے کارندوں کے لئے اس نوعیت کے ڈرامے رچانا بہت ہی معمولی کام ہے۔ جمعہ کے روز کے اجلاس میں ایران کو دباؤ میں لانے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے اور ہدف واضح ہے کہ ایران کو نیوکلیئر ڈیل میں رہنے پر اس طرح مجبور کیا جائے کہ دیگر فریق اپنے حصے کا کوئی کام انجام نہ دیں اور ایران معاہدے کی شرائط مانتا رہے۔

جمعہ کو ویانا میں ہونے والے اجلاس میں یورپ کے ان تین ملکوں فرانس، جرمنی اور برطانیہ کا رویہ ظاہر کر دے گا کہ وہ امریکہ کے اس خفیہ ایران دشمن منصوبے میں شامل ہیں یا نہیں۔ انکے ساتھ ساتھ روس اور چین کی بھی آزمائش ہوگی۔ چین بھی ایرانی تیل پر انحصار رکھتا ہے اور ساتھ ہی اسکی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے جبکہ روس شام کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے یورپ کے ان تین ملکوں پر دباؤ زیادہ ہوگا۔ ایران اس لئے دباؤ میں نہیں کہ امریکی اتحاد نے ایران کے خلاف بیلجیم آپریشن سے زیادہ خطرناک آپریشن کرکے زیادہ بڑے نقصانات پہنچائے، لیکن ایران کو اس کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹانے میں ناکام رہا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور ایران نے اس جھوٹے الزام کے مقابلے میں مغربی ممالک کو انہی کے نام نہاد سفارتی اصول یاد دلائے ہیں۔ جمعہ کو ہونے والے ویانا اجلاس کے فیصلے بتائیں گے کہ کون کامیاب ہوا؟!

تحریر: عرفان علی
https://taghribnews.com/vdcepz8x7jh8ezi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ