تاریخ شائع کریں2018 8 June گھنٹہ 13:39
خبر کا کوڈ : 335701

لہو لہان قدس کی پکار، اتحاد بین المسلمین

تاریخی دستاویزات اور اسناد کے مطابق مشرق وسطٰی میں صہیونی حکومت کی تشکیل یہودی افراد کی خواہش و مرضی سے زیادہ برطانیہ کی خواہش پر ہوا ہے
اگر آج ہم مسلمان متحد ہوتے اور اسلام کی دی ہوئی معنویت و روحانیت پر تکیہ کرتے تو ہمارے دشمن میں اِس بات کی ہرگز جرأت نہ ہوتی کہ وہ فلسطینی قوم کو خود اُس کے گھر میں ننگی جارحیت کا نشانہ بناتا
لہو لہان قدس کی پکار، اتحاد بین المسلمین
ہر صاحب احساس اچھی طرح یہ بات جانتا اور سمجھتا ہے کہ مشرق وسطی میں جو اسلام کا گہوارہ ریا ہے، صہیونی حکومت کی تشکیل، عالمی سامراج کے ایک بڑی مدت کے منصوبے کو عمل درآمد کرنے کیلئے ہوئی ہے۔ اسلامی دنیا کے اِس حساس خطے میں جسے دنیائے اسلام کا قلب کہا جا سکتا ہے، اِس حکومت کی تشکیل کے عمومی می اہداف میں یوں تو ان مکروہ عزائم کو بیان کیا جا سکتا ہے، جنکے تحت قوموں کا استحصال اور انکو تاراج و برباد کر کے انہیں اپنا دست نگر بنا دیا جاتا ہے اور  استعماری قلمرو میں توسیع کے درپردہ انسانیت کو لہولہان کیا جاتا ہے اور اسی استحصال، قتل و غارتگری و فتنہ گری ہی سے استعمار کا دیو اپنا پیٹ بھرتا ہے لیکن اسرائیل کے نام پر تشکیل ہونے والی موجودہ صہیونی حکومت درحقیقت ایک بڑی مدت کے منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے ہوئی ہے، جس میں لمبے عرصہ تک اسلامی دنیا پر استعمار کے تسلط کا تسلسل بھی شامل ہے۔ تاریخی دستاویزات اور اسناد کے مطابق مشرق وسطٰی میں صہیونی حکومت کی تشکیل یہودی افراد کی خواہش و مرضی سے زیادہ برطانیہ کی خواہش پر ہوا ہے، ایسے شواہد و قرائن موجود ہیں کہ اس حکومت کی تشکیل کے زمانے میں بہت سے ایسے یہودی موجو دتھے کہ جن کوپختہ یقین تھا کہ ایسی کسی حکومت کی تشکیل کی کوئی ضرورت نہیں ہے اوریہ حکومت کسی بھی صورت میں اُن کے حق میں نہیں ہو گی، لہٰذا وہ اُس سے فرار چاہتے تھے۔ یہ بات واضح اور روشن ہے کہ "صہیونی حکومت کی تشکیل صرف یہودی آئیڈیالوجی اور اُن کی آرزو اور دینی عقیدے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یہ ایک استعماری فکر اور برطانوی سازش کا نتیجہ تھی البتہ آنے والے زمانے میں امریکا نے عالمی سیاست اور استعماری دنیا کی قیادت برطانیہ سے چھین لی۔ یہ سب بھی اُنہی سیاسی میراث کا حصہ تھی جو امریکا کو نصیب ہوئی اور امریکا نے اِس سیاسی میراث سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے۔ اِس بنا پر فلسطین کی نجات اور اِس غاصب صہیونی حکومت کو مٹانا ایک ایسا مسئلہ ہے جو اس خطے میں بسنے والی اقوام کی مصلحت سے وابستہ ہے"۔
  
اتحاد و انسجام ہمارا دینی فریضہ اور وقت کی ضرورت: 
اگر آج ہم مسلمان متحد ہوتے اور اسلام کی دی ہوئی معنویت و روحانیت پر تکیہ کرتے تو ہمارے دشمن میں اِس بات کی ہرگز جرأت نہ ہوتی کہ وہ فلسطینی قوم کو خود اُس کے گھر میں ننگی جارحیت کا نشانہ بناتا۔  فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات بلا قید مذہب و ملت ہر غیرت مند انسان کے دل کو خون کر دیتے ہیں اور اُس کے آرام و سکون کو غارت کر دیتے ہیں۔ کون ہے کہ جو قتل کئے ہوئے ایک دو سالہ بچے کے ہاتھوں پر اٹھائے جانے کے منظر کو دیکھے اور اُس بعد آنکھیں بند کر کے آرام سے سو جائے؟ کون ہے کہ جو فلسطینی عوام کو ان کے گھروں، گلی کوچوں، سڑکوں اور خود اُن کے اپنے شہروں میں اسرائیلی محاصرے میں گھرا ہوا دیکھے اور اُس زمین کو اِن کے قبضے میں دیکھے جس میں اُن کے آباؤ و اجداد صدیوں سے مدفون ہیں، اور متاثر نہ ہو؟ آج بیت المقدس، الخلیل، غزہ اور اِسی غصب شدہ سرزمین کے دوسرے شہروں میں لوگوں کو قید کر دیا گیا ہے، اُنہیں خود اُن کے گھروں میں اُن کے خون سے نہلایا جا رہا ہے، والدین اپنے ہی گھروں میں اپنے جوان بیٹوں کے داغ میں فرش عزا بچھائے ہوئے ہیں، وہ سب بھوک کا سامنا کر رہے ہیں اور صہیونیوں نے پوری فلسطینی قوم کا اقتصادی محاصرہ کیا ہوا ہے! اگر آج امت مسلمہ متحد ہوتی تو کیا ایسی کوئی چیز ممکن تھی؟ آج مسلمان حکومتوں اور مسلمان اقوام کا واجب ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ اِس مسئلے میں ہم آواز ہوں اور آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔

مقبوضہ فلسطین میں وہ مسلمان جو سازشوں اور خیانتوں سے بے پرواہ ہوتے ہوئے اپنے خالی ہاتھوں سے اپنے حقیقی جہاد اور اپنے حق کے مطا لبے کی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اُنہیں اور اُن کی تحریک کو غیر انسانی اور انتہائی ظالمانہ طریقہ سے کچل دیا جاتا ہے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں شکنجے و اذیت میں مبتلا ہیں اور اُنہیں بھیڑ بکریوں کی مانند تہہ تیغ کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب ظلم و ستم اور قتل و غارت دیکھتے ہوئے بھی نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والی مغربی حکومتں کھڑی نہیں ہوتی بلکہ وہ امریکہ، برطانیہ اور دوسری صہیونیت نواز حکومتوں کی عملی حمایت اور زبانی تشویق بھی کرتی ہیں۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں صہیونی حکومت کا وزیراعظم یورپ کا دورہ کرتا ہے اور بجائے اسکے کے اسی ماہ مبارک رمضان کے آغاز میں ہونے والے فلسطینیوں پر اسرائیل کے پرتشدد حملوں پر اس سے کچھ باز خواست ہوتی، اسکے لئے سرخ قالین بچھائے جاتے ہیں، اسکا استقبال کیا جاتا ہے اور ان انسانی حقوق کے ٹھیکے داروں میں کسی کو جرات نہیں ہوتی کہ اس کے سامنے احتجاج کر سکیں کہ  فلسطینی بھی انسان ہیں، انہیں اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ کون سے انسانی منشور کا حصہ ہے؟ وجہ صاف ہے یورپی ممالک کو معلوم ہے کہ جب مسلمانوں کی آواز نہیں اٹھتی اور جب کلمہ توحید پڑھنے والے ہی اسرائیل کے مظالم پر خاموش ہیں تو انہیں کیا پڑی ہے جبکہ انکے تو مفادات ہی صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون میں وابستہ ہیں، ایسے میں جس حد تک ایران کو فکری بنیادوں پر الگ تھلگ کیا جائے گا اتنا ہی انکا فائدہ ہوگا، جبکہ شک نہیں کہ اگر اسلامی ممالک کے حکمران اپنے اندرونی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور اسلام کے بلند و بالا اہداف سے آشنا ہوجائیں، اسلام کی جانب لوٹ آئیں تو وہ کبھی بھی استعماری طاقتوں کے ہاتھوں اِس طرح ذلیل و اسیر نہیں ہوں۔

یہ اسلامی ممالک کے داخلی اختلافات ہی ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ فلسطین کی اِس مشکل کو وجود میں لانے کا سبب بنے ہیں بلکہ وہ اِس بات کا بھی باعث بن رہے ہیں کہ اُس کا صحیح راہ حل نہ تلاش کیا جا سکے۔ اسلامی ممالک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے یہ کروڑوں مسلمان سیاسی شعور  اور عقلی بلوغ کے حامل ہوتے، آپس میں منسجم اور متحد ہوتے اور دشمن کے مقابلے میں ایک صف میں کھڑے ہوتے تو بڑی استعماری حکومتوں کیلئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ وہ اِن ممالک میں رخنہ اندازی کرتیں، تو پھر مٹھی بھر یہودیوں کی بات تو چھوڑ دیجئے جو استعمار کے ایجنٹ اور گماشتے ہیں۔ اسلام اور انسانیت کے جانی دشمن، صہیونیوں کے چنگل سے فلسطین کی اسلامی سرزمین کو آزاد کرانے کے لئے چارہ اندیشی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود متحد ہوں اپنے اندر دم پیدا کریں اسکے بعد بقول امام خمینی رضوان اللہ، ضروری ہے "کہ اقوام عالم کی بیداری کیلئے استدلالی انداز سے تبادلہ نظر کریں اور اپنا موقف سامنے لائیں، اعلانات نکالیں  اور حج کے موقع پر اُنہیں سرزمین وحی میں آنے والے تمام مسلمانوں کے درمیان تقسیم کریں۔ اِسی طرح اپنے اپنے ملک لوٹنے کے بعد اُنہیں اپنے ممالک میں بھی چھاپیں اور اُن بیانات میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں مطالبہ کریں کہ وہ اسلام کے اہداف کو اپنا نصب العین قرار دیں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے استعمار کے پنجوں سے آزاد کرانے کیلئے چارہ جوئی کریں۔" 

لیکن افسوس کہ مسلمان اتنا غافل ہے کہ مسلم  ممالک کے درمیان اتحاد تو کیا قدس کے بینر تلے بھی بعض افراد متحد نہیں ہیں اور بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے ایک ہی مکتب کے ماننے والے، ایک ہی نبی و امام کے ماننے والے آپس میں یوں متصادم ہیں کہ گویا انکی خلقت ہی اس لئے ہوئی کہ جب شعور کی منزلوں میں قدم رکھنا تو کسی اپنے ہی بھائی کو دشمن بنا لینا اسکا گریبان پکڑ لینا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ قدس جیسے حساس مسئلہ کو ہم اپنے تعصب و ہوائے نفس کی نظر کر دیں، کاش ہم اپنے دشمن کے تیز اور کٹیلے دانتوں کو دیکھتے کہ کس طرح وہ ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور متحد ہو کر اس کے حملہ کو پسپا کرنے کی کوشش کرتے، دشمن کو معلوم ہے کہ اس کی شکست ہمارے اتحاد میں ہے اس لئے وہ اپنی ایجنسیوں کی ذریعہ، اپنی جاسوسی مشینری کے ذریعہ، ہماری صفوں میں انتشار پھیلانا چاہتا ہے اور ہم ہمیشہ اسکے آلہ کار بن جاتے ہیں، یقینا جس دن ہم متحد ہو گئے اسی دن ہمارے دشمن کی الٹی گنتی شروع ہو جائے گی، ایک بار ذرا غور کریں تو نظر آئے گا جوانوں کے خون میں ڈوبا، یتیموں کی آہوں کے ساتھ، بوڑھوں کی ٹوٹتی تمناوں کے ساتھ ، ماوں اور بہنوں کی سسکیوں کے ساتھ قدس ہمیں آواز دے رہا ہے "دشمن بہت شاطر ہے خدا کے لئے آپس میں نہ لڑو اور متحد ہو جاؤ"۔ کاش ہم یہ آواز سن سکیں اور اپنی صفوں میں اتحاد کی چارہ جوئی کریں۔۔۔



.......
(1) ١ د سمبر  ٢٠٠١ء میں تہران میں رہبر مسلمین کا نماز جمعہ کا خطبہ۔ 
 
[1]  امام خمینی، صحیفہ نور، جلد 1، صفحہ ١٥٧؛ امام خمینی، صحیفہ نور، جلد ١ صفحہ  ١٣٧
[1] ١مام خمینی، صحیفہ نور، جلد ١، صفحہ  ١٥٦ 
https://taghribnews.com/vdciuwapzt1apy2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ