تاریخ شائع کریں2018 30 May گھنٹہ 17:47
خبر کا کوڈ : 334217

سیکولر دنیا، مریم اور حجاب

مریم کے صبر و استقامت کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا سے ان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی ہے
انیس سالہ مریم کی یہ کہانی دراصل ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے جنہیں آج کی اس نام نہاد جدید دنیا میں حجاب ایک عار محسوس ہوتا ہے۔ مسلم دنیا یں بسنے والی خواتین کو چاہئے کہ وہ مریم کو اپنا مشعل راہ بنائیں کہ جو مغرب کی سیکولر دنیا میں اپنے دینی فریضے کا بطور احسن دفاع کررہی ہیں
سیکولر دنیا، مریم اور حجاب
کہانی نے اس وقت موڑ لیا جب رواں سال بارہ مئی کو لورینٹ بوویٹ نامی ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ نے شرارت کی اور اپنے فیس بک پیج پر ایک تصویر شیئر کی۔

تصویر بظاہر سادہ تھی اور نیشنل اسٹوڈنٹ یونین کے انتخابات میں ایک برانچ سے صدر منتخب ہونے والی طالبہ مریم پوگیتوکس کی ایک ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو کا اسکرین شاٹ تھی۔ مریم نے اپنے اس انٹرویو میں فرانسیسی حکومت کے خلاف حالیہ دنوں اصلاحات کو لے کر کئے جانے والے مظاہروں پر گفتگو کی تھی۔

لیکن بوویٹ کہ جو سیکولرازم کے گلیڈیئیٹر کہلائے جاتے ہیں ان کا ہدف دنیا کو کچھ اور دکھانا تھا۔ انہوں نے مریم کی باتوں کو نہیں بلکہ انکے حجاب کو ہدف تنقید بنایا تھا۔

بس پھر ہونا کیا تھا سوشل میڈی پر ہر طرف مریم کے حجاب کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ لوگوں نے اس طرح کے پیغامات بھی ارسال کئے کہ مریم کو منتخب کر کے یونین کی لیڈر شپ نے ہماری برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔

اور تو اور فرانس کے وزیر داخلہ گیرارڈ کولمب نے بھی اس بات کو حیرتانگیز قرار دے دیا اور اسکے تانے بانے داعش کے افکار و نظریات سے جوڑ دیئے۔ جبکہ فرانس کی وزیر مساوات نے اسے سیاسی اسلام کا نام دے دیا۔ ادھر انتہا یہ ہوگئی کہ مریم کا موبائل نمبر بھی جگہ جگہ پبلش کیا جانے لگا۔

تو اس سارے معاملے میں چارلی ہیبدو نامی بدنام زمانہ میگزین کیسے پیچھے رہتا۔ اس نے اپنے فرنٹ پیج پر مریم کا ایک کارٹون چھاپ دیا۔ یوں ایک جوان خاتون سیاستدان کے سیاسی کیریئر اور اسکی کامیابیوں کو صرف اسکے حجاب کی وجہ سے زیر سوال لے جایا گیا۔

طلبہ یونین نے ان واقعات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریم کو اسلاموفوبیا,  نسل پرستی اور جنس پرستی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

فرانس ایک سیکولر ملک ہے اور وہاں خواتین کے حجاب کو لے کر ہمیشہ اچھی خاصی بحث رہتی ہے۔ وہاں خواتین کے حجاب پر پابندی ہے اور حجاب کرنے والوں کو قدامت پسند، شدت پسند اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سننے کو ملتے ہیں۔

مریم کے اس اقدام نے انہیں مشکل میں مبتلا تو کردیا ہے لیکن اس انقلابی قدم سے فرانس میں ملکی سطح پر ایک بار پھر حجاب کے متعلق بحث چھڑی ہوئی ہے اور اب وہاں یہ بات اٹھائی جارہی ہے کہ ہر انسان کو اسکی اپنی پسند کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت ہے۔

لیکن اب صورتحال قدرے مختلف ہے اور عوامی حلقوں میں مریم کے حجاب کو مثبت نظروں سے دیکھا جارہا ہے اور اس بات کی تاکید کی جارہی ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی کو سیاسی کھیل کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔

دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کی موجودہ بدترین لہر نے یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں موجود مسلمانوں کو نقصان تو ضرور پہنچایا ہے لیکن انکے صبر و استقامت نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے اور اب پوری دنیا میں آزادی مذہب کے لئے وسیع پیمانے پر آوازیں اٹھائِی جارہی ہیں۔ جس کی تازہ مثال مریم کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔

اس پورے واقعے میں مریم کی اپنی گفتگو بھی قابل غور ہے۔ اس حوالے سے مریم کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنائے جانے کے بعد اب وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں اور عام مقامات پر بہت زیادہ احتیاط سے کام لیتی ہیں کیونکہ انہیں نہیں معلوم کہ اب انکے ساتھ کب کیا ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ ایک سایستدان نے ایسی باتیں کہی ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ میرا حجاب کسی سیاست کے لئے نہیں بلکہ میرے اعتقادات کی وجہ سے ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ یہ سامنے نظر آتا ہے۔ نہ ہی اسے کسی طرح کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔

مریم کے صبر و استقامت کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا سے ان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی جارہی ہے اور ان کی حمایت کے لئے مختلف ہیشٹیگز بھی بنادیئے گئے ہیں۔

انیس سالہ مریم کی یہ کہانی دراصل ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے جنہیں آج کی اس نام نہاد جدید دنیا میں حجاب ایک عار محسوس ہوتا ہے۔ مسلم دنیا یں بسنے والی خواتین کو چاہئے کہ وہ مریم کو اپنا مشعل راہ بنائیں کہ جو مغرب کی سیکولر دنیا میں اپنے دینی فریضے کا بطور احسن دفاع کررہی ہیں۔
 
تحریر: یوشع ظفر حیاتی 
 
 
https://taghribnews.com/vdcjvxetauqet8z.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ