تاریخ شائع کریں2018 30 May گھنٹہ 12:44
خبر کا کوڈ : 334035

لبنان اور عراق کے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی مزاحمت کی شاندار فتح

لبنان اور عراق کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بعض حلقوں میں انتہائی معنی خیز نتائج سامنے آئے ہیں
عراق اور لبنان کے الیکشن ہمارے خطے کی صورتحال کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطے کا منظرنامہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خطے کا مستقبل کیا صورت اختیار کرے گا تو ہمیں ان واقعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے
لبنان اور عراق کے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی مزاحمت کی شاندار فتح
نتائج کے اعتبار سے عراق میں منعقد ہونے والے پارلیمانی انتخابات بہت حد تک لبنان کے پارلیمانی انتخابات سے مشابہت رکھتے تھے۔ اس دوران بعض دشمن عناصر نے "اسلامی مزاحمت" کے روشن مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانا شروع کر دیئے ہیں اور عراق کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بارے میں بعض غلط اور وہم آلود تجزیئے پیش کئے جا رہے ہیں۔ البتہ ان کی حیثیت ایسے گرد و غبار کی مانند ہے جو بہت جلد بیٹھ جاتا ہے اور حقیقت سورج کی روشنی کی مانند ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ 12 مئی کو منعقد ہونے والے عراق کے پارلیمانی انتخابات سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے بعد نئے سیاسی نظام کے برسراقتدار آنے کے بعد چوتھے پارلیمانی انتخابات تھے۔ ان کا پہلا فائدہ عراق کے سیاسی نظام کے استحکام میں اضافہ تھا۔ لہذا 2004ء میں نئے آئین کی منظوری کے بعد برسراقتدار آنے والے سیاسی نظام کو ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس الیکشن میں عراقی عوام نے "سینٹ لیگو" نامی انتخاباتی فارمولے کے تحت تین بڑے حلقوں یعنی شیعہ، سنی اور کرد سے تقریباً 7 ہزار امیدواروں میں سے 319 افراد کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجا۔ اس فارمولے کی بنیاد پر مختلف انتخاباتی فہرستوں کو ملنے والے ووٹوں کی شرح کی روشنی میں دس مزید رکن پارلیمنٹ چنے جائیں گے جس کے بعد اراکین پارلیمنٹ کی کل تعداد 329 ہو جائے گی۔
 
عراق کے حالیہ پارلیمانی الیکشن میں شیعہ جماعتوں نے 202، شیعہ اتحاد میں شامل اور آزاد اہلسنت جماعتوں نے مجموعی طور پر 71، کردوں نے 58، ترکمن باشندوں نے 4، عیسائیوں نے 5، ایزدی باشندوں نے 4 سیٹیں حاصل کیں۔ عراق کے گذشتہ پارلیمانی انتخابات 2014ء میں منعقد ہوئے تھے۔ اعداد و ارقام کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بار اسلامی مزاحمت کی حامی جماعتوں کو گذشتہ الیکشن کی نسبت زیادہ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ٹرن آوٹ 62.2 فیصد رہا جبکہ حالیہ انتخابات میں عوام کی شرکت 44.5 فیصد تھی۔ یوں عراقی پارلیمنٹ اور پارلیمانی الیکشن کے بارے میں گفتگو کوالی ٹیٹو ہو گی۔
 
2)۔ عراق کے حالیہ انتخابات میں شیعہ ووٹوں کی نوعیت بہت حد تک چار سال قبل منعقد ہونے والے انتخابات میں ان کی نوعیت سے ملتی جلتی ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں سیکولر شیعہ جماعتیں جن میں سرفہرست ایاد علاوی کی جماعت ہے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکیں۔ اس طرح حکومت کی تشکیل میں بھی ان کا کوئی نمایاں کردار نہیں تھا۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا اور سیکولر شیعہ جماعتوں کو پہلے سے بھی زیادہ سنگین شکست کا شکار ہونا پڑا اور عملی طور پر وہ گوشہ نشین ہو چکی ہیں۔ اس سے پہلے وطنیہ پارٹی کے پاس 16 سیٹیں تھیں لیکن حالیہ انتخابات میں انہیں صرف 15 سیٹیں ملیں ہیں جن میں سے 8 اسامہ نجیفی کے حامی سنی امیدواروں کی ہیں۔
 
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بھی مین اسٹریم جماعتیں عوام کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اگرچہ بعض معروف سیاسی لیڈران خاص وجوہات کی بنا پر زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پائے لیکن اس بار بھی مجلس اعلی، حزب الدعوہ اور مقتدی صدر کی پارٹی پارلیمنٹ میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ نتائج ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب گذشتہ چار برس کے دوران ایک طرف عراقی حکومت شدید بیرونی دباو کا شکار رہی ہے اور دوسری طرف عراقی عوام کو بھی حکومت سے دور کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئی ہیں۔ شیعہ جماعتوں کا دوبارہ عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور اس کی پٹھو حکومتوں کی جانب سے انجام پانے والے اس پروپیگنڈے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور وہ عوام کو مین اسٹریم شیعہ جماعتوں اور سیاسی رہنماوں سے دور نہیں کر سکے۔
 
3)۔ حالیہ الیکشن میں دو پارٹیوں کے ووٹ قابل توجہ ہیں۔ اس الیکشن میں مجاہد اور انقلابی افراد جو جہادی تشخص کے حامل ہیں اور انہوں نے ملک سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے ابھر کر سامنے آئے ہیں اور انہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ دو اتحاد "سائرون" اور "فتح" بنیادی طور پر استعمار مخالف ہیں اور اب تک انہوں نے اس راہ میں بہت زیادہ جدوجہد انجام دی ہے۔ ان دو اتحادوں نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں مجموعی طور پر سو سیٹیں حاصل کی ہیں جو کل سیٹوں کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہیں۔ اسی طرح دیگر اتحادوں جیسے حکومت قانون، نصر اور تبار الحکمہ میں بھی مجاہد افراد موجود ہیں۔
 
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جہادی اتحاد "فتح" جو حشد الشعبی اتحاد کے نام سے معروف تھے، میں بھی ان گروہوں کو زیادہ ووٹ ملے ہیں جو زیادہ جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ قیس خز علی کی سربراہی میں "عصائب اہل حق"، جس نے حال ہی میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے مقابلے اور گولان ہائٹس کی آزادی کیلئے مجاہدین کو شام بھیجنے کا اعلان کیا ہے، 15 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دشمن قوتیں مقتدی صدر کی سربراہی میں اتحاد "سائرون" کو غیر جہادی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ 2003ء سے 2005ء تک یہی گروہ امریکی قبضے کے خلاف سرگرم عمل رہا ہے اور بڑی تعداد میں شہید دے چکا ہے۔ دشمن قوتیں ایسا ظاہر کر کے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو ناکامی ہوئی ہے۔
 
4)۔ عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات، طاقتور دہشت گرد گروہ داعش کی نابودی کے فوراً بعد منعقد ہوئے ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے قومیت پرستی کا پرچم بلند کیا تھا اور طاقت کی جنگ کو فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کر کے عراق کے اہلسنت باشندوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں تھا۔ لہذا تکفیری دہشت گرد نپے تلے منصوبے کے تحت اہل تشیع کے مقدس مقامات جیسے ائمہ معصومیں علیہم السلام کے مزارات مبارک پر دہشت گردانہ حملے کرتے تھے۔ داعش نے سامرا میں حرم امام حسن عسکری علیہ السلام کو دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنانے کے بعد عراق کے چار صوبوں دیالا، نینوا، صلاح الدین اور الانبار پر قبضہ کر لیا۔
 
عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات یہ جانچنے کی کسوٹی تھے کہ آیا وہ شیطانی مقاصد جن کی خاطر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے امریکی، اسرائیلی اور سعودی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہزاروں سنی اور شیعہ عراقی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، پورے ہوئے ہیں یا نہیں؟ حالیہ الیکشن نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ عراق کے سنی اکثریتی علاقوں میں زیادہ تر انہیں ووٹ ملے ہیں جنہوں نے داعش کے خلاف اسلامی مزاحمتی محاذ کا ساتھ دیا تھا اور عراق کی قومی سلامتی، حق خود ارادیت اور علاقائی سالمیت پر یقین رکھتے ہیں۔ عوام نے ایسے لیڈران اور گروہوں کو ووٹ دیا ہے جو موجودہ سیاسی نظام کے حامی ہیں اور اسے محفوظ رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔
 
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں حالیہ پارلیمانی انتخابات میں عراقی اہلسنت باشندوں کی شرکت زیادہ ہونے کے باوجود کسی قسم کا مذہبی ٹکراو بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں عوام نے ان معروف سیاسی لیڈران کو ووٹ نہیں دیا جو ماضی میں سنی اکثریتی علاقے داعش کے حوالے کرنے میں ملوث رہ چکے ہیں۔ دوسری طرف ایسے اہلسنت امیدواروں کو بھاری ووٹ ملے ہیں جن کا نام شیعہ اتحادوں جیسے مقتدی صدر کا سائرون، حشد الشعبی کا فتح، نوری مالکی کا حکومت قانون اور حیدر العبادی کا نصر کی فہرست میں شامل تھا۔
 
جب عراق اور شام میں تکفیری دہشت گردی کا بحران شروع ہو رہا تھا تو ایسے افراد کی کمی نہیں تھی جو اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایران کو اس مسئلے میں غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ ان افراد کی دلیل یہ تھی کہ اگر ایران نے اس مسئلے میں مداخلت کی تو چونکہ دہشت گردوں کی اکثریت تکفیری اور شیعہ مخالف تھی لہذا ہو سکتا ہے یہ ٹکراو شیعہ سنی جنگ کی صورت اختیار کر جائے اور اسلامی دنیا کی سنی آبادی میں ایران کی پوزیشن کمزور ہو جائے۔ لبنان میں شیعہ اتحاد کی فہرست میں شامل اہلسنت امیدواروں کی کامیابی اور اس کے بعد عراق کے حالیہ الیکشن میں شیعہ اتحادوں کی فہرست میں شامل اہلسنت امیدواروں کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف یہ گمان غلط تھا بلکہ اس کے برعکس دہشت گردوں کے خلاف ایران کی مداخلت نے اہلسنت برادری میں اس کی محبوبیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
 
اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے لبنان میں 60 فیصد اور عراق میں 70 فیصد عوام کے ووٹ حاصل کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں پر غلبے کے بعد اہلسنت برادری میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی پوزیشن نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ اس عظیم کامیابی میں ایک انتہائی اہم راز پوشیدہ ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یا گروہ خدا کی خاطر ایک کام انجام دے تو خداوند متعال اس کے راستے میں موجود تمام رکاوٹیں دور کر کے دیگر انسانوں کے دل میں بھی اس کی محبت اور طرفداری ڈال دیتا ہے۔
 
5)۔ لبنان اور عراق کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بعض حلقوں میں انتہائی معنی خیز نتائج سامنے آئے ہیں۔ لبنان کے الیکشن میں اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار حزب اللہ لبنان کا امیدوار دارالحکومت بیروت میں سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہا جبکہ گذشتہ انتخابات میں سعد حریری نے یہ پوزیشن حاصل کی تھی۔ حزب اللہ لبنان کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے سنی امیدوار عبدالرحیم مراد نے اپنے مدمقابل حزب المستقبل کی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے سنی امیدوار کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ اسی طرح عراق کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ سابق وزیراعظم نوری مالکی نے حاصل کئے۔ یاد رہے گذشتہ چار برس سے امریکہ اور سعودی عرب ان کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف تھے۔
 
عراق اور لبنان کے الیکشن ہمارے خطے کی صورتحال کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ خطے کا منظرنامہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ خطے کا مستقبل کیا صورت اختیار کرے گا تو ہمیں ان واقعات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نے سکیورٹی میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور سیاسی میدان میں بھی لبنان میں کلا 128 سیٹوں میں سے 73 سیٹیں جبکہ عراق میں 220 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے۔

تحریر: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی
https://taghribnews.com/vdchxknxm23nxvd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ