تاریخ شائع کریں2018 20 May گھنٹہ 12:36
خبر کا کوڈ : 331915

فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکی سفارتخانہ قائم

بیت المقدس شہر میں امریکی سفارتخانہ غاصب صیہونی جعلی ریاست کی سرپرستی کا ثبوت ہے
فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فلسطینیوں پر گزرنے والا ہر دن ہی یوم نکبہ سے کم نہیں ہے، یوم نکبہ فلسطینیوں کے لئے ایک ایسا دن ہے، جسے فلسطین کی گذشتہ اور موجودہ نسل کسی طور فراموش کر ہی نہیں سکتی
فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکی سفارتخانہ قائم
فلسطین کی ستر سالہ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو فلسطینیوں پر گزرنے والا ہر دن ہی یوم نکبہ سے کم نہیں ہے، یوم نکبہ فلسطینیوں کے لئے ایک ایسا دن ہے، جسے فلسطین کی گذشتہ اور موجودہ نسل کسی طور فراموش کر ہی نہیں سکتی۔ یہی وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جس دن صیہونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست جسے اسرائیل کا نام دیا گیا ہے، کا ناجائز وجود سرزمین فلسطین پر قائم ہوا تھا اور اسی ایک دن میں ہی آٹھ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، جو بالآخر مجبوری میں فلسطین کی پڑوسی ریاستوں اردن، شام، لبنان اور مصر میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے تھے اور آج ستر سال بیت جانے کے باوجود بھی یہ فلسطینی اور ان کی تیسری نسل انہی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دن 15 مئی 1948ء کا دن تھا، جسے فلسطینی تاریخ میں یوم نکبہ یعنی تاریخ کی بدترین تباہی اور ہولناک بربادی کا دن قرار دیتے ہیں، جہاں ایک طرف مجموعی طور پر ان کے وطن پر صیہونیوں کا تسلط قائم کیا گیا تو دوسری طرف ان فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کیا گیا۔

یوم نکبہ فلسطین کے عوام ستر سال سے ایک بدترین دن کے عنوان سے مناتے آئے ہیں اور ہمیشہ سے عالمی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کے حقوق ان کو دلوائے جائیں اور سب سے اہم ترین فلسطینیوں کا حق واپسی ان کو دیا جائے، تاکہ وہ اپنے وطن جا کر اپنے گھروں کو آباد کرسکیں، جن گھروں کی چابیاں آج بھی نوے سال کی فلسطینی ماؤں نے اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہیں اور جو گزر گئے ہیں، انہوں نے اپنی نسل نو کو یہ چابیاں منتقل کر دی ہیں۔ 2018ء میں بھی فلسطینی عوام یوم نکبہ پر سراپا احتجاج رہے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس مرتبہ یہ دن کچھ انوکھے انداز سے ہی فلسطینیوں پر شب خون مار گیا، کیونکہ دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع کا راگ الاپنے والی سپر پاور امریکہ نے کھل کر یہ ثابت کر دیا کہ گذشتہ ستر برس سے فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی پائمالیوں کی امریکہ ہی سرپرستی کرتا آیا ہے۔

اس سال فلسطینی عوام گذشتہ سات ہفتوں سے حق واپسی فلسطین کا مطالبہ کر رہے ہیں اور مسلسل غزہ اور مغربی کنارے کے مابین غاصب اسرائیل کی طرف سے جبری طور پر قائم کی گئی لائن آف کنٹرول پر جمع ہیں اور ان سب فلسطینیوں کا نعرہ ہے کہ فلسطین کی طرف واپسی، القدس کی طرف واپسی، لیکن جواب میں پہلے تیس مارچ کو غاصب صیہونیوں نے ان مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر وحشت ناک مظالم ڈھائے، جس کے نتیجہ میں سات ہفتوں میں 70 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے تھے، جبکہ سات ہزار سے زائد زخمی ہوگئے تھے، لیکن 14 مئی کو امریکی سرپرستی میں صیہونیوں نے فلسطینیوں پر وحشیانہ دہشت گردی کا نمونہ اس وقت پیش کیا، جب فلسطین کے عوام امریکی سامراج کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے تھے کہ امریکی سفارتخانہ کی القدس شہر میں منتقلی روکی جائے، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، لیکن جواب میں چند لمحوں میں ساٹھ سے زائد معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو وحشت کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلا دیا گیا اور دنیا کے لئے انسانی حقوق کے بڑے بڑے نعرے لگانے اور بلند و بانگ دعوے کرنے والی امریکی سامراج نے ان فلسطینی بچوں اور خواتین کی لاشوں پر اپنا سفارتخانہ القدس شہر میں کھول کرکے ہی دم لیا اور دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ امریکی سامراج کے سامنے انسانی جانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔

دراصل امریکہ نے بیت المقدس شہر میں امریکی سفارتخانہ کھول کر نہ صرف غاصب صیہونی جعلی ریاست کی سرپرستی کا ثبوت دیا ہے بلکہ پورے عالم اسلام میں موجود حریت پسندوں کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے، کیونکہ امریکہ کی جانب سے القدس میں سفارتخانہ کی منتقلی کے پس پردہ امریکی ناپاک عزائم آشکار ہیں، جس کے تحت وہ فلسطین کے اس تاریخی شہر یروشلم (القدس) کی شناخت بلکہ اسلامی و عربی و جغرافیائی شناخت کو تبدیل کرکے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے حق میں کرنا چاہتا ہے۔ القدس میں امریکی سفارت خانہ فلسطینی قوم کی امنگوں کا خون کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، فلسطینی قوم کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ اور فلسطینی قوم کی لاشوں پر قائم کیا گیا۔ امریکہ نے جہاں ایک طرف فلسطینیوں کے حقوق کی کھلم کھلا پائمالی کی، وہاں بین الاقوامی قوانین کو بھی روند ڈالا ہے اور اس کے ساتھ ہی اگر بین الاقوامی اداروں اور بالخصوص اقوام متحدہ کی قرارداد کی بات کی جائے تو امریکہ نے غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں اس قرارداد کو بھی ردی کی ٹوکری کا حصہ بنا دیا ہے۔ جو گذشتہ برس جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں 193 ملکوں میں سے 128 نے القدس سے متعلق امریکی فیصلہ کو مسترد کیا تھا اور مخالفت کی تھی۔ مخالفت کرنے والوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے امریکہ کے حلیف ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم عالمی دباؤ اور مخالفت کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی قوانین کو دیوار پر دے مارا اور 14 مئی کو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرکے تاریخ کا ایک نیا سیاہ باب رقم کیا ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے مغربی حصے پر اسرائیل نے 1948ء کی جنگ کے بعد غاصبانہ تسلط جمایا، جبکہ 1967ء کی جنگ میں مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا گیا۔ 1980ء میں اسرائیل نے متحدہ القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا، تاہم آج تک امریکہ سمیت عالمی برادری اسرائیل کے اس دعوے کی مخالفت کرتی آئی ہے۔ فلسطینی قوم نے القدس کی آزادی کے لئے ہر سطح پر مزاحمت کی۔ القدس فلسطین میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں اور انتفاضہ کا عنوان بنتا رہا۔ گذشتہ برس 6 دسمبر کو جب امریکی صہیونیت نواز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا تو فلسطینی قوم نے ایک نئی تحریک انتفاضہ شروع کی۔ اب تک اس تحریک کے دوران 140 فلسطینی شہری شہید کئے جا چکے ہیں، جبکہ ہزاروں زخمی اور گرفتار کئے گئے۔ گذشتہ برس امریکی صدر کے القدس سے متعلق فیصلہ کے سامنے آنے کے بعد مسلم امہ بالخصوص او آئی سی نے بھی کوئی خاطر خواہ اقدام نہ اٹھایا، جس کے باعث نوبت یہاں تک آئی ہے کہ بالآخر فلسطینیوں کی لاشوں پر امریکہ نے اپنا سفارتخانہ منتقل کرکے مقبوضہ فلسطین میں اپنی سفاکیت کا جشن منایا ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ القدس شہر کو دو بار صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ 23 بار اس کا محاصرہ کیا گیا، 52 بار جنگوں کا میدان بنا، 44 بار اس پر قبضہ کیا اور آزاد کرایا گیا، ہر بار اس پر قبضہ کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی اور آخری فتح اس کے اصل باشندوں یعنی فلسطینی قوم کو ملی۔ آج بھی فلسطینی قوم پورے عزم اور جرات کے ساتھ القدس کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظلوم فلسطینی شہداء کی لاشوں پر اپنا سفارتخانہ قائم کیا ہے، جلد یا بہ دیر صہیونیوں اور امریکیوں کو القدس سے اپنا بوریا بستر گول کرنا ہوگا۔ یقیناً امریکہ کے لئے القدس میں سفارتخانہ منتقلی کا عمل نقصان دہ ثابت ہوگا۔

تحریر: صابر ابو مریم
https://taghribnews.com/vdcb88bfsrhbf9p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ