تاریخ شائع کریں2018 5 May گھنٹہ 13:29
خبر کا کوڈ : 328560

پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار جاسوسی کی زد میں

امریکی انٹیلی جینس کے ادارے، سی آئی اے نے 2013ء میں پاکستان میں اپنی جاسوس کی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تھا
20 اپریل کو پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آنا، اچنبھے کی بات نہیں کہ مالی سال 2018ء، 2019ء کے بجٹ میں وزیرِاعظم ہاوس کی سکیورٹی کے لئے دو نئے منصوبوں کی غرض سے ایک کروڑ 55 لاکھ روپے مختص کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے
پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار جاسوسی کی زد میں
گذشتہ ماہ سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق کیمبرج اینالیٹیکا نے کروڑوں فیس بک صارفین کی ذاتی معلومات حاصل کرکے اسے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں الیکشن پر اثر انداز ہونے کے لئے استعمال کیا۔ برطانوی الیکشن کنسلٹنسی فرم کیمبرج اینالیٹیکا کو اُس وقت دنیا بھر کے میڈیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک خفیہ ویڈیو آپریشن میں کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار نفسیاتی ساز باز، لوگوں کو پھانسنے کے طریقوں اور جعلی خبروں کی مہمات کو فخریہ طور پر بیان کرتے پکڑے گئے۔ اس حوالے سے برطانوی اور یورپی ادارے فیس بک اور کیمبرج اینالیٹیکا کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا 2016ء میں امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے ہونے والے ریفرنڈم بریگزٹ کو ممکن بنانے کے لئے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ڈیٹا چوری کرکے نتائج کو متاثر کیا گیا۔ سیاسی جنگ ہو یا نفسیاتی اور عسکری معرکہ آرائی، دوست دشمن کو مخالفین اور حلیفوں دونوں کی اچھی معلومات درکار ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کو ان میدانوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہر نئی ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کی رفتار بہت زیادہ تیز ہوگئی ہے، لہذا خطرات اور خدشات بھی اسی رفتار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج کے دور کا بہت بڑا خطرہ اس ٹیکنالوجی کی جانب سے ہے، جس نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی ہے اور ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں تھوڑی سی بھی مہارت رکھنے والے فرد کے لئے دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر کسی بھی خاص و عام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور اُن کی گفتگو ریکارڈ کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ اس ضمن میں ماہرین کی جانب سے انٹرنیٹ اور موبائل فون کو بہت خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ آج دنیا بھر میں کسی بھی شخص کی چوبیسوں گھنٹے نگرانی یا جاسوسی کرنا ممکن ہوگیا ہے اور یہ حقیقت خطرے کی سطح میں مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والے کو اپنی جاسوسی ہونے کے بارے میں شک تک نہیں ہوتا، لہذا وہ خلوت اور جلوت میں بے دھڑک ان کا استعمال جاری رکھتا ہے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی گفتگو اور افعال کرتا رہتا ہے۔

اس دوران اسے ذرّہ برابر یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ دنیا کے کسی کونے میں اس کی گفتگو اور افعال ریکارڈ کئے جا رہے ہیں، جنہیں کسی بھی وقت اس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے اسے بلیک میل کرکے کوئی بھی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ پہلے عموماً ریاستی ادارے جاسوسی کرتے تھے، لیکن نئی ٹیکنالوجی نے عام آدمی اور نجی و تجارتی اداروں کے لئے بھی یہ کام کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ حال ہی میں فیس بُک کی انتظامیہ کے خلاف یہ الزام سامنے آیا ہے کہ اس نے اپنے صارفین کے بارے میں معلومات امریکہ کی ایک سیاسی شعبے کی کنسلٹنسی کمپنی کو فراہم کی تھیں۔ تقریباً 5 کروڑ سے زائد صارفین کا ڈیٹا لیک کرنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ فیس بک کے خلاف امریکہ میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے فیس بک کی انتظامیہ کے خلاف ڈیٹا لیک کرنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد فوراً کارروائی شروع کر دی ہے۔

تحقیقات کے آغاز کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں فیس بک کے شیئرز کو 60 ارب ڈالرز یعنی 66 کھرب 37 ارب روپے سے زائد کے زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسی کمپنی نے فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ جیتنے میں کام یاب ہوئے تھے۔ یہ شکایت اس وقت سامنے آئی تھی، جب کمپنی نے اپنے صارفین کو مطلع کئے بغیر اپنی پرائیویسی سیٹنگز میں تبدیلیاں کی تھیں۔ ایف ٹی سی کی رائے ہے کہ فیس بک نے شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سرکاری تحقیقاتی ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ فیس بک کی انتظامیہ پرہر خلاف ورزی کے لئے ہزاروں ڈالرز کا الگ الگ جرمانہ عاید کرسکتا ہے۔

ان حالات میں 20 اپریل کو پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آنا، اچنبھے کی بات نہیں کہ مالی سال 2018ء، 2019ء کے بجٹ میں وزیرِاعظم ہاوس کی سکیورٹی کے لئے دو نئے منصوبوں کی غرض سے ایک کروڑ 55 لاکھ روپے مختص کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیرِاعظم ہاوس میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں کی ریموٹ مانیٹرنگ اور سیٹیلائٹ ریکارڈنگ کو روکنے کے لئے بلاک وائزنگ وائس ڈیٹا کا نیا سیٹ نصب کیا جائے گا۔ مذکورہ رقم ان آلات کی تنصیب پر خرچ ہوگی۔ اس ضمن میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں دو نئے منصوبے شامل کر لئے گئے ہیں۔ جوہری بم اور خطّے اور دنیا میں اہم سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے بہت سے دوستوں کے ساتھ اس کے متعدد دشمن بھی ہیں۔ چناںچہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک کے ذمّے داروں کو بھی بہت سے معاملات میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوتے ہیں، کیونکہ ہم پر ہر لمحے نظر رکھنے والے کبھی اپنے کام سے غافل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس کمرے میں جاسوسی کرنے والے سگنلز پکڑے گئے تھے، جس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونا تھا۔

چناںچہ حفاظتی نکتہ نظر سے وہ اجلاس اس وقت ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمن ملک کا اس ضمن میں جون 2015ء میں دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میں 2 غیر ملکی سفارت خانے سابق صدر آصف علی زرداری اور اس وقت کے وزیرا‏عظم نواز شریف کی جاسوسی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی اور دو غیر ملکی سفارت خانے ٹیلی فون ٹیپنگ میں ملوث رہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے رحمان ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اہم ترین عہدے دار بھی جاسوسی سے محفوظ نہیں، ہمارے دور حکومت میں ایوان صدر سمیت تمام سرکاری محکموں کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی ہے۔ دو غیر ملکی سفارت خانے ٹیلی فون ٹیپنگ میں بھی ملوث ر ہے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ ٹیلی فون ٹیپنگ، لیزر مائیکرو فون اور سییٹلائٹ کے طاقتور سگنلز کے ذریعے مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور ان سگنلز کو روکا نہیں جاسکتا۔ ایک مرتبہ ایسے ہی سگنلز پکڑے جانے کی اطلاع ملی، جنہیں نہ روکے جانے کے سبب کابینہ کا اجلاس مؤخر کرنا پڑا تھا۔

وہ سگنلز ڈپلومیٹک انکلیو کی جانب سے موصول ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ذاتی فون سمیت سابق صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔ تاہم سابق وزیر داخلہ نے ان دو سفارت خانوں کا نام نہیں لیا تھا، جن کے سامنے پاکستان اتنا بے بس ہے۔ رحمن ملک کا کہنا تھا کہ غیر متعلقہ افراد 2012ء میں وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی جاسوسی کے لئے استعمال کیے جاتے تھے اور ممکن ہے کہ ایسا اب بھی ہو رہا ہو۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے یہ اور دیگر رازوں کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ملک میں ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے کے معاملات کی ریگولیٹری سے متعلق ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے یہ انکشافات اس وقت کئے تھے، جب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر اسمعیل شاہ نے ان کے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ جاسوسی کی روک تھام کسی اور کی ذمّے داری ہے۔ اس پر رحمن ملک نے کہ پاکستان کے پاس جاسوسی کی ان سرگرمیوں کی روک تھام کی صلاحیت زیادہ نہیں، ان کے گھر کی بھی دو کھڑکیاں سیمنٹ لگا کر بند کرنی پڑی تھیں، تاکہ جاسوس سگنلز کو بلاک کیا جاسکے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی انٹیلی جینس کے ادارے، سی آئی اے نے 2013ء میں پاکستان میں اپنی جاسوس کی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تھا، جس کے مطابق اس نے سابق صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم (2015ء میں) نواز شریف اور دیگر پاکستانی راہ نماؤں کے فونز ٹیپ کئے۔ پی ٹی اے کے عملے میں صرف ایک درجن سے زائد ٹیکنیکل افراد موجود ہیں، جن کا بنیادی کام ملک کے ٹیلی کام سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا ہے۔ سائبر سکیورٹی کے لئے پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیز نے ملازمین رکھنے سے پہلے ان کی چیکنگ کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں، جن میں ان کی تعلیمی اسناد، سابقہ ملازمتوں کی تصدیق، نادرا سے شناختی کارڈز کی تصدیق، ملازمت کے دوران سکیورٹی واچ اور فراڈ ڈیٹابیس پر چیک شامل ہیں۔

جولائی 2014ء میں امریکی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے پیپلز پارٹی کی جاسوسی اور نگرانی کی تھی۔ اسی عرصے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مصر کی حکمراں جماعت، اخوان المسلمون کو بھی امریکی جاسوسی کے نظام نے مانیٹر کیا تھا، جس بارے میں حاصل کردہ معلومات کا ڈیٹا بھی اب سامنے آگیا تھا۔ اس وقت وائٹ ہائوس کی بریفنگ میں بھی بی جے پی کے حوالے سے کئے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان کے نوکمنٹ اور مبہم بیانات اور اشاروں سے بھی تصدیق ہوگئی تھی کہ امریکی نیشنل سکیورٹی نے پی پی پی، بی جے پی اور اخوان المسلمون سمیت پانچ سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کی تھی۔ یہ کسی سائبر نظام کے ذریعے جاسوسی کی نشان دہی تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو اس انکشاف پر امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت کاروں کو نئی دلی طلب کر لیا تھا اور تمام صورت حال جاننے اور اعترافات کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کی امریکی یقین دہانی حاصل کی تھی۔ امریکہ عالمی طاقت ہے اور اس کے مفادات امریکی سرحدوں سے باہر بھی ہیں۔ لہٰذا اپنے عالمی مفادات کے لئے اس کا جاسوسی کا نظام بہ قول ایڈورڈا سنوڈن 193 ممالک اور اُن کے سربراہان اور حکومتی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔

ہمارے خِطّے میں اس کے مفادات افغانستان، پاکستان، بھارت، چین اور وسطی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اگر پی پی پی کی جاسوسی کرنے کے بارے میں امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق ملازم ایڈورڈ اسنوڈن کے فرار ہونے اور دستاویزات کا انکشاف کرنے سے سامنے آگیا، تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمراں، حزبِ اختلاف اور حساس ادارے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی اور دیگر امریکی اداروں کی جاسوسی اور نگرانی کی زد میں ہوں۔ ویسے بھی انٹرنیٹ، ای میل، اسمارٹ فون، کمپیوٹر اور ٹیلی کمیونی کیشن کے جدید سائنسی آلات نے دنیا کے ہر حکمراں سمیت عام شہریوں کو بھی ان کی پرائیویسی سے محروم کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق فیس بک، ٹوئٹر،وٹس ایپ وغیرہ اور ٹیلی کمیونی کیشن کے مختلف ادارے امریکی نظام کو اتنی معلومات فراہم کر دیتے ہیں کہ کسی بھی عام شہری کی زندگی کے نجی لمحات سے لیکر کر اُس کی عادات و مزاج، پسند و ناپسند بلکہ نقطہ نظر اور سوچ کے بارے میں اچھا خاصا خاکہ تیار ہو جاتا ہے۔ آج کے دور کا انسان یہ نہیں سوچتا کہ اطلاعات اور مواصلات کی جدید ایجادات اور سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کے شوق میں وہ اپنے فون اور کمپیوٹر پر اپنے بارے میں معلومات کا ڈھیر خود لگا رہا ہے۔ اس ضمن میں واشنگٹن پوسٹ کی میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے بارے میں شائع شدہ تفصیلات میں کیے گئے بعض انکشافات حیران کرنیکے لئے کافی ہیں۔

(1) نیشنل سکیورٹی ایجنسی اپنے دو پروگرام Prism اور Upstream کے ذریعے یاہُو، گوگل اور دیگر ڈیٹا کمپنیز سے ڈیٹا حاصل کرتی ہے۔ وہ ڈیٹا نیٹ ورکس کے بارے میں معلومات اور وائس ڈیٹا بھی اکٹھا کرتی ہے۔ لہٰذا ذاتی تصاویر، سمندر کے کنارے تفریح اور بچوں کی تعلیمی اسناد اور تصاویر کے علاوہ آپ کا طبّی ریکارڈ، محبت کے ضمن میں کی گئی خط و کتابت اور دل ٹوٹنے اور محبت کی داستانوں تک کا ریکارڈ ڈیٹا کی شکل میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے پاس ہے، جو بوقتِ ضرورت آپ کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں سے لے کر عام شہری تک کی انفرادی اور ذاتی زندگی کے بارے میں تمام تر مواد جو آپ نے فیس بک، ٹوئٹر، ای میل، اسکائپ پر لکھا یا محفوظ کیا، وہ سب آپ کی ذات و حالات کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی ہے، جو این ایس اے کے پاس ا نٹرنیٹ اور کمیونی کیشن کمپنیز کے ذریعے پہنچ رہا ہے اور یہ آپ کی شخصیت کے تمام پہلوئوں کو جاننے کے لئے کافی ہے۔ 2011ء میں ایبٹ آباد میں بم بنانے والے محمد طاہر شہزاد کی گرفتاری اور انڈونیشیا کے جزائر بالی میں دہشت گردی کرنے والے عمر پاٹک کو ایسی ہی معلومات اور ڈیٹا کے ذریعے گرفتار کیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے بعض تفصیلات اور انکشافات اس لئے شایع نہیں کئے تھے کہ بعض قومی راز اور بعض جاری آپریشنز کے بارے میں راز افشاء ہونے کا ڈر تھا۔

(2) امریکہ کے جاسوسی سے متعلق حکام میں این ایس اے نے ایک پاکستانی اور ایک امریکی نوجوان کے درمیان ہونے والی ایسی گفتگو بھی ریکارڈ کی، جس میں 2009ء میں پاکستانی بچے نے امریکی نوجوان سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کی جنگ کو 44 کافر ممالک (نیٹوکے رکن ممالک) کے خلاف مسلمانوں کی مذہبی جنگ قرار دیا تھا اور امریکی شہری نے اس پاکستانی نوجوان کا موقف رد کر دیا تھا۔

(3) این ایس اے کا معلومات اور ڈیٹا حاصل کرنے والا پروگرام ایٹمی عدم پھیلاؤ اور انسداد دہشت گردی پر مرکوز ہے اور اس حوالے سے 193 ممالک کی جاسوسی اور معلومات حاصل کرنے کا کام خفیہ طور پر کرتا ہے۔ ایک ملک کا نام لئے بغیر یہ کہا گیا کہ اس ملک کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں بھی جاسوسی اور خفیہ معلومات جمع کرنے کا کام ہو رہا ہے۔ قارئین سمجھ لیں کہ مغربی طاقتوں کو کس کس ملک کا ایٹمی پروگرام کھٹکتا ہے۔ اسی طرح عام شہریوں کے عشق و محبت، دل ٹوٹنے اور انتہائی قربتوں کی تفصیلات بھی این ایس اے نے اس لئے جمع کر رکھی ہیں کہ نہ جانے یہ معلومات کب اور کہاں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

امریکہ میں شہری آزادیوں اور حقوق کی نامور امریکی اور عالمی تنظیمیں اس ضمن میں احتجاج کر رہی ہیں اور اسے شہری آزادیوں اور پرائیویسی کا خاتمہ قرار دے رہی ہیں، لیکن امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی آج بھی اس کام میں مصروف ہے۔ چنانچہ آپ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں، عام شہری ہوں یا حکمراں، امریکہ کی قومی سلامتی اور مفاد کے لئے آپ کی تمام معلومات کمیونیکیشن کمپنیز کے ذریعے جمع کی جا رہی ہیں اور نہ جانے کن کن مقاصد کے لئے استعمال ہور ہی ہوں گی یا کی جائیں گی۔

گذشتہ برس فروری کے مہینے میں یہ خبر آئی تھی کہ جرمنی کی خفیہ ایجنسی کی طرف سے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف صحافیوں کی جاسوسی کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ غیر ملکی جریدے اسپیگل نے صحافیوں کی جاسوسی کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جرمن خفیہ ایجنسی بی این ڈی نے دنیا بھر میں صحافیوں کی جاسوسی کی جن میںبی بی سی، رائٹرز اور نیو یارک ٹائمز کے صحافی بھی شامل تھے۔ اس ایجنسی نے ٹیلی فون ٹیپ کئے، صحافیوں کی ریکی بھی کی۔ فرانسیسی ٹی وی 24 کے لئے رپورٹنگ کرنے والے صحافی آزنلڈ زجتمان، جن کا تعلق بیلجیئم سے تھا اور وہ افریقی ملک کانگو میں کام کرتے تھے، جرمن خفیہ ایجنسی نے ان کی نقل و حرکت کو واچ کیا اور اس کی باقاعدہ رپورٹ بھی تیار کی گئی۔ اس رپورٹر نے 10سال تک خدمات سرانجام دیں۔ مذکورہ جریدے میں شایع ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بی بی سی کے لئے کام کرنے والے نمائندے کے بھی فون ٹیپ کئے جاتے رہے۔ بی این ڈی کی لسٹ سے نیویارک ٹائمز کا بھی حوالہ ملا ہے، جو پاکستان، افغانستان اور نائجیریا کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ زمبابوے کے اخبار ڈیلی نیوز کی بھی جاسوسی کی جاتی رہی ہے۔ جریدے اسپیگل کے مطابق جرمن خفیہ ایجنسی نے 1999ء کے بعد صحافیوں کے پچاس نمبروں کی جاسوسی کی۔

یہ گذشتہ ماہ کی بات ہے کہ برطانوی اخبار دی گارڈین نے انکشاف کیا کہ امریکہ نے پاکستان سے اس برس مارچ کے مہینے میں 13 ارب خفیہ معلومات اکٹھا کیں۔ یہ معلومات ٹیلی فون اور کمپیوٹر نیٹ ورک سے لی گئیں۔ برطانوی اخبار نے امریکہ کی دنیا بھر میں خفیہ ڈیجیٹل معلومات جمع کرنے کی رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جاسوسی کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ امریکی ادارے نے رواں سال مارچ کے 30 دنوں میں پاکستان سے ساڑھے 13 ارب خفیہ معلومات اکٹھا کیں۔ سب سے زیادہ ڈیٹا ایران سے لیا گیا، جہاں سے امریکہ نے 14 ارب معلومات لیں۔ اردن سے 12 ارب سے زائد، مصر سے 7 ارب سے زائد اور بھارت سے 6 ارب 3 کروڑ خفیہ معلومات اکٹھا کی گئیں۔ امریکی ایجنسی نے اسی عرصے میں امریکہ سے بھی 3 ارب خفیہ معلومات اکٹھی کیں۔

تحریر: ٹی ایچ بلوچ
https://taghribnews.com/vdcd9j0szyt0xk6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ