تاریخ شائع کریں2018 17 April گھنٹہ 12:56
خبر کا کوڈ : 325058

میں خطرے میں ہوں، میری جان بچایے

کشمیری مسلمان بچی کے گینگ ریپ کے بعد قتل کے کیس کی وکیل کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوگئے
مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والی 8 سالہ آصفہ کو رواں برس 8 جنوری کو گھر کے قریبی جنگل جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا، جس کی لاش 11 دن بعد 17 جنوری کو ایک مقامی مندر کے باہر سے ملی تھی
میں خطرے میں ہوں، میری جان بچایے
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی 8 سالہ بچی کے والد نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کیس کا ٹرائل کسی اور ریاست کی عدالت میں منتقل کیا جائے۔

بھارتی ویب سائٹ این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ مقتول بچی کے والد کی اپیل پر آج سماعت کرے گی۔

مقتولہ کے والد کے وکیل کا کہنا تھا کہ جموں کی صورتحال دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ٹرائل پُر امن طریقے سے ممکن نہیں۔

وکیل نے بتایا کہ بچی کے والد نے سپریم کورٹ سے اس کیس کو کسی دوسری ریاست کی عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔

ٹائمز آف اںڈیا کی رپورٹ کے مطابق جموں کی مقامی عدالت نے اس کیس کی چارج شیٹ کی نقول ملزمان کے حوالے کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔

ادھر بھارتی میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کی وکیل نے خدشات کا اظہار کیا کہ انہیں ریپ کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔

متاثرہ خاندان کی وکیل کا کہنا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں، اور اب وہ سپریم کورٹ میں کہیں گی کہ ’میں خطرے میں ہوں، میری جان بچایے‘۔

خیال رہے کہ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھنے والی 8 سالہ آصفہ کو رواں برس 8 جنوری کو گھر کے قریبی جنگل جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا، جس کی لاش 11 دن بعد 17 جنوری کو ایک مقامی مندر کے باہر سے ملی تھی۔

بچی کے والدین کی جانب سے رپورٹ درج کروائے جانے کے بعد ماہ فروری میں اس کیس میں ملوث پولیس اہلکاروں سمیت دیگر ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

جموں و کشمیر کے ضلع کھٹوعہ میں اجتماعی ’ریپ‘ کا نشانہ بنائے جانے کے بعد 8 سالہ بچی کے قتل کے واقعے نے نہ صرف کشمیر اور ہندوستان بلکہ پوری دنیا کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔

دو پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد پر آصفہ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے جن میں سے ایک مبینہ طور پر آصفہ کی لاش کی تلاش میں بھی ملوث تھا جبکہ دیگر 2 کو شواہد مٹاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی کے مطابق اس جرم کا منصوبہ سابق ریوینیو حکام نے بنایا جو کشمیر میں کاٹھوا کے علاقے رسانہ میں مسلمان برادری کو لڑکی کے واقعے کے ذریعے بھگانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کو جامنی رنگ کا لباس پہنی بچی اپنے ایک کمرے کے گھر کے پاس گھوڑوں کو چراہ رہی تھی کہ 19 سالہ ملزم نے اسے گمشدہ گھوڑے کی تلاش کا جھانسہ دے کے جنگل کی جانب بلایا بعد ازاں جنگل سے گھوڑا تو واپس آگیا لیکن بچی واپس نہ آسکی۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہمدردوں اور وزیروں کی جانب سے ملزمان کی پشت پناہی بھی سامنے آئی۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں کشمیر میں ریپ کے بعد قتل کے اس واقعے کو اپنی قوم و معاشرے کے لیے شرم ناک قرار دیا تھا۔

بعدِ ازاں یہ معاملہ مذہبی رنگ اختیار کر گیا جہاں مسلمان اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔

حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندو گروہوں کے ہزاروں ارکان نے 8 سالہ آصفہ کے ریپ اور قتل کے الزام میں گرفتار 6 ملزمان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

کئی ہندو وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا کہ ملزمان، جن میں 2 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، بے گناہ ہیں۔

ادھر اس کیس کے مبینہ 8 ملزمان نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ ملزمان کے وکیل انکر شرما کا کہنا تھا کہ ان کے موکل بے گناہ ہیں اور وہ جھوٹ پکڑنے والے آلے کے ٹیسٹ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

بعد ازاں عدالت کے باہر انکر شرما نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے تمام ملزمان کو چارج شیٹ کی کاپیاں فراہم کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور اگلی سماعت کی تاریخ 28 اپریل مختص کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جنوری کے مہینے میں لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد نشہ آور چیزیں کھلا کر 5 دن تک مندر کے اندر ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد اس کا گلا دبایا گیا اور بھاری پتھر سے سر پر وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تفصیلات منظر عام پر لانے کے بعد پورے بھارت میں مظاہروں کا آغاز ہوگیا ہے۔

مندر کے رکھوالی کرنے والے (ر) عوامی خدمت گزار سنجی رام پر 4 پولیس اہلکاروں، ایک دوست، ان کے بیٹے اور بھتیجے کے ساتھ مل کر ثبوتوں کو مٹانے کا بھی الزام عائد ہے۔

پولیس کو عدالت میں ملزمان کے خلاف چارج جمع کرواتے وقت وکلاء کی جانب سے روکنے کے معاملے پر بھارت کی اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے انصاف میں رکاوٹ ڈالنے پر خبردار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل اتر پردیش میں 17 سالہ لڑکی کی جانب سے ریاستی قانون ساز پر اسے ریپ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جس کی پشت پناہی کرنے پر حکمراں جماعت پر تنقید کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ ایک علیحدہ کیس میں لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے کلدیپ سنگھ سینگار کے خلاف ریپ کے کیس دائر کیے جانے کی کوشش کے بعد اسے گزشتہ ہفتے ہی حراست میں لیا گیا تھا۔

ان دو کیسز نے 2012 میں نئی دہلی میں ایک طالب علم کے بس میں ہونے والے گینگ ریپ اور قتل کے بعد ہونے والے مظاہروں کی یاد تازہ کردی۔
https://taghribnews.com/vdccppq142bqix8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ