تاریخ شائع کریں2018 13 April گھنٹہ 14:05
خبر کا کوڈ : 324443

امریکہ کی شام کے خلاف فوجی کاروائی ملتوی

روسی صدر: اگر شام کے خلاف کوئی فوجی کاروائی کی گئی تو اس کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائے گا۔
امریکہ کی شام کے خلاف فوجی کاروائی ملتوی
چند دن پہلے دمشق کے نواح مشرقی غوطہ کے علاقے "دوما" میں مبینہ کیمیائی حملے کی مشکوک خبروں کے بعد مغربی اور عرب ممالک نے بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے اس کا الزام صدر بشار اسد کی حکومت پر لگانا شروع کر دیا۔ اس پروپیگنڈے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر فوجی حملے کی دھمکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی دوران غاصب صہیونی رژیم نے تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شام میں تدمر کے قریب واقع ٹی فور ایئرپورٹ کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ 

اس کے بعد ممکنہ جوابی کاروائی کے خوف سے صہیونی حکام نے ریاستی دہشت گردی کا ثبوت دیتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر کوئی جوابی کاروائی کی گئی تو وہ شام کے صدر بشار اسد کو قتل کر دیں گے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شام کو فوجی حملوں کی دھمکیاں دینے لگے۔ سعودی عرب اور بعض مغربی ممالک نے بھی جلتی پر تیل ڈالنا شروع کر دیا۔ یہاں چند اہم سوال پیدا ہوتے ہیں: امریکہ کو شام پر فوجی حملے کی ترغیب دلانے اور روکنے والے عوامل کون سے ہیں؟ امریکہ کی جانب سے شام پر فوجی حملے کی صورت میں شام کا اتحادی ہونے کے ناطے روس کا ردعمل کیا ہو گا؟

شام پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ممکنہ فوجی حملے کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ اور ویب سائٹس پر بہت سی رپورٹس اور کالمز شائع ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ان رپورٹس اور کالمز میں اس ممکنہ فوجی حملے کے محرکات، اہداف اور مستقبل میں اس کے اثرات کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایسوسی ایٹڈ پریس لکھتا ہے کہ واشنگٹن، پیرس اور لندن اگلے ہفتے اتوار تک شام کے خلاف مشترکہ فوجی کاروائی کے بارے میں بات چیت اور مشورہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح بعض ممالک کی جانب سے زور و شور سے امریکہ کو شام کے خلاف فوجی کاروائی کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی کابینہ نے امریکہ کی سربراہی میں شام کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کا جائزہ لینے کیلئے بدھ کو اہم میٹنگ کی۔ بعض ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی جانبدارانہ طور پر اس ممکنہ فوجی حملے کی حمایت کی جا رہی ہے۔ 

دوسری طرف بعض ایسے ذرائع ابلاغ میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے دوما میں مبینہ کیمیائی حملے کی بنیاد پر امریکہ کی جانب سے شام پر فوجی حملے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی کے خبررساں ادارے نے ماضی میں امریکہ کی جانب سے عراق پر کیمیائی ہتھیار تیار کرنے کا الزام عائد کرنے اور اسی بنیاد پر اس ملک کو فوجی حملے کا نشانہ بنائے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ہے آج یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اس وقت امریکہ کا یہ الزام سراسر جھوٹ پر مبنی تھا اور صدر صدام حسین کی جانب سے کیمیائی ہتھیار تیار کرنے پر ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھے۔ 

آج بھی شام حکومت پر دوما میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جانے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں اور ماضی کی غلطی دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ اسی طرح اب تک یہ بھی طے نہیں ہو سکا کہ اگر شام کے خلاف کوئی فوجی کاروائی کی جاتی ہے تو اس میں کون کون سے ممالک حصہ لیں گے۔ بعض ذرائع ابلاغ امریکہ کے ساتھ فرانس، برطانیہ اور سعودی عرب کی موجودگی کو یقینی قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض رپورٹس میں خطے کے بعض ممالک جیسے ترکی کا نام بھی لیا گیا ہے۔ ترکی کے تجزیہ نگار راغب سویلو کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی میں خفیہ طور پر شرکت کا امکان پایا جاتا ہے۔ 

اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا امریکی حکام اس اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کریں گے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے امریکہ کو شام کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے ترغیب دلانے اور اس سے روکنے والے عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکہ کو شام کے خلاف فوجی حملے پر ابھارنے والے دو اہم عوامل موجود ہیں۔ ایک سعودی عرب اور دوسرا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم۔ اب آئیں ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ 

غاصب صہیونی رژیم کا مسئلہ واضح ہے۔ ان کے شام میں دو بڑے مسئلے ہیں۔ شام کے ہوائی اڈے ٹی فور پر اسرائیل کے میزائل حملے کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین نے کہا: "ہم کسی قیمت پر ایران کو شام میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔ شام میں ایران کے فوجی اڈے قبول کر لینے کا مطلب اپنی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈالنا ہے۔ ہم ایسا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔" صہیونی حکام خطے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھنے کیلئے ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کیلئے تیار ہیں۔ 

شام کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی اسرائیل کیلئے کئی فائدے رکھتی ہے۔ پہلا فائدہ امریکہ کی سربراہی میں چند ملکی اتحاد کا قیام ہے۔ اس اتحاد میں شامل کئی ممالک اسرائیل کے نمائندہ ملک تصور کئے جاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس فوجی کاروائی میں اسرائیل کے مالی اخراجات نہیں ہو رہے جبکہ اس کے مطلوبہ اہداف حاصل ہونے کا امکان موجود ہے۔ اگر اسرائیل بذات خود یہی اہداف حاصل کرنا چاہتا تو اسے بڑے پیمانے پر اخراجات کا سامنا ہوتا۔ شام میں غاصب صہیونی رژیم کا سب سے بڑا مقصد سیاسی اور سکیورٹی عدم استحکام پھیلانا ہے جبکہ دوسرا بڑا مقصد ایران کے اثرورسوخ کا خاتمہ ہے۔ 

دوسری طرف اسرائیل یکطرفہ اقدام کی صورت میں یقین رکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے جوابی کاروائی کی جائے گی۔ اس وقت بھی شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بین الاقوامی تعلقات عامہ کے مشیر علی اکبر ولایتی موجود ہیں جنہوں نے شام کے ہوائی اڈے ٹی فور پر اسرائیل کے میزائل حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متنبہہ کیا ہے کہ اسرائیل کے اس حملے کا جواب دیا جائے گا۔ اسی بیان کے جواب میں اسرائیلی وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے یہ دھمکی دی ہے کہ ایران کی جوابی کاروائی کی صورت میں وہ صدر بشار اسد کو نشانہ بنائے گا۔ یہاں سے اسرائیلی حکام کے دل میں ایران کے شدید خوف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

شام سے متعلق غاصب صہیونی رژیم کے رویوں کا تعین کرنے والا دوسرا اہم عامل شام میں امن و امان اور سیاسی استحکام کا فروغ ہے۔ اسرائیل شام کو اپنا دشمن ملک تصور کرتا ہے لہذا وہ اس ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کا فروغ ہر گز برداشت نہیں کر سکتا۔ صہیونی حکام شام کی مضبوطی اور استحکام کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ لہذا وہ اس وجہ سے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کی حمایت کرتے ہیں تاکہ اس ملک میں سکیورٹی بحران جاری رہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہے۔ 

شام کے خلاف امریکہ کو ترغیب دلانے والا ایک اور عامل سعودی عرب ہے۔ سعودی حکمرانوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ شام میں ایران کی موجودگی ہے۔ آل سعود رژیم خطے میں ایران کے کردار سے ہراساں ہے۔ گذشتہ پندرہ روز کے دوران سعودی ولیعہد نے امریکہ کا بھی دورہ کیا ہے اور فرانس کا بھی اور اپنی تمام ملاقاتوں میں ایک ہی رٹ لگائی رکھی ہے، ایران، ایران۔ سعودی حکومت خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی روک تھام کو اپنا اصل مقصد قرار دے چکی ہے اور وہ اس کام کا آغاز شام سے کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کیلئے آل سعود رژیم پانی کی طرح پیسہ بہانے میں مصروف ہے اور مغربی طاقتیں بھی ایران فوبیا کے ذریعے اسے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ 

دوسری طرف شام پر فوجی کاروائی کے راستے میں امریکہ کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ موجود ہے۔ یہ رکاوٹ روس ہے۔ روس ایک عرصے سے شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہے جبکہ مغربی طاقتیں اور اس کے مغربی اور عرب اتحادی ان دہشت گردوں کی مالی اور فوجی امداد میں مصروف رہے ہیں۔ لہذا شام میں ایک طرح سے روس اور امریکہ کے درمیان پراکسی وار جاری ہے۔ 

مشرقی غوطہ کے علاقے دوما میں مبینہ کیمیائی حملے کے بارے میں بھی روس کا موقف یہ ہے کہ ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا اور سب کچھ ایک ڈرامہ بازی ہے جو امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کے اتحادی ممالک کی ایماء پر ان کے حمایت یافتہ دہشت گروہ جیش الاسلام نے رچائی ہے تاکہ امریکہ کو شام کے خلاف فوجی کاروائی اور مداخلت کا بہانہ فراہم کیا جا سکے۔ لہذا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ اگر شام کے خلاف کوئی فوجی کاروائی کی گئی تو اس کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائے گا۔ 

اس وقت تک بھی روس نے شام سے متعلق کئی امریکی اقدامات کی روک تھام کی ہے۔ دوما میں مشکوک کیمیائی حملے کے بعد امریکہ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں شام کے خلاف قرارداد پیش کی جسے روس نے ویٹو کر دیا۔ سکیورٹی کونسل میں روس کے سفیر ویسلے نینزیا کا کہنا تھا: "گذشتہ برس بھی بالکل یہی راستہ اختیار کیا گیا تھا اور آپ نے اسی بہانے شام پر میزائل حملہ کیا تھا۔ اس بار وائٹ ہیلمٹس نے آپ کو بہانہ فراہم کیا ہے۔" انہوں نے منگل کے دن منعقد ہونے والے اس اجلاس میں مزید کہا: "میں ایک بار پھر آپ سے گزارش کرتا ہوں ان منصوبوں کو ترک کر دیں جو آپ اس وقت بنانے میں مصروف ہیں۔" ویسلے نینزیا نے خبردار کرتے ہوئے کہا "غیر قانونی فوجی مہم جوئی کی تمام تر ذمہ داری امریکی حکومت پر ہو گی۔"

یاد رہے 2013ء میں بھی اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کی قیادت میں امریکی حکومت شام کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکیاں لگا چکی ہے۔ اس وقت بھی روس کی جانب سے مشکوک کیمیائی حملے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دو ٹوک موقف کے باعث امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی ملتوی کر دی تھی۔ روسی پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کے نائب سربراہ یوگنی سربرینکوف نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کی تو اسے فوراً جواب دیا جائے گا۔ 

اسی طرح لبنان میں روس کے سفیر نے بھی اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام کی طرف فائر کئے گئے میزائلوں کو بھی مار گرایا جائے گا اور جہاں سے میزائل فائر کئے گئے اس جگہ کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ لہذا روس بھی امریکہ کو اپنا پیغام پہنچا چکا ہے۔ شاید اسی دو ٹوک پیغام کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے خلاف فوری طور پر فوجی کاروائی کا فیصلہ ترک کر دیا ہے اور اسے آئندہ دنوں تک کیلئے ملتوی کر دیا ہے۔ اسی بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے یہ سرخی لگائی ہے کہ "ٹرمپ کی جانب سے فوری طور پر شام پر حملے کا وعدہ ویک اینڈ (اتوار) تک ملتوی کر دیا گیا ہے"۔ 

اب جبکہ سعودی حکمرانوں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو مالی بخشش میں اضافہ ہو چکا ہے اور صہیونی حکام بھی ٹرمپ کو شام کے خلاف فوجی کاروائی پر اکسا رہے ہیں، ایران اور روس کو چاہئے کہ وہ چین اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون کو ٹیکٹیکل حد سے بڑھا کر اسٹریٹجک حد تک وسعت دے دیں۔ جیسا کہ روسی تھنک ٹینک والدائی ڈسکشن کلب کے ریسرچ ڈائریکٹر نے بھی اسی نکتے پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے: "ماسکو اور تہران کو چاہئے کہ وہ نئے عالمی نظم کی تشکیل کیلئے آپس میں جاری تعاون کی سطح ٹیکٹیکل سے بڑھا کر اسٹریٹجک کر دیں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی سازشوں سے مقابلے اور فوجی خطرات سے مقابلے کا واحد راستہ اسٹریٹجک اتحاد کی تشکیل ہے۔
تحریر: رضا دانش پسند
https://taghribnews.com/vdcjxxettuqe8xz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ