تاریخ شائع کریں2018 10 April گھنٹہ 22:51
خبر کا کوڈ : 323863

دوما میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ

روس نے امریکہ اور مغربی طاقتوں پر نہایت واضح کیا ہے کہ کیمیائی حملوں کو بہانہ بنا کر اگر کوئی مہم جوئی کی گئی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
دوما میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ
2013ء سے اب تک شام میں متعدد کیمیائی حملے ہوئے ہیں، جن سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ ان کیمیائی حملوں میں مختلف قسم کے کیمیائی ہتھیار جن میں فاسفورس بمب، سیرین گیس، نیپالم، کلورین گیس، مسٹرڈ گیس شامل ہیں، استعمال کئے گئے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین حملہ دمشق کے مضافاتی علاقے دوما میں ہوا ہے، جس کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق دسیوں شہری شہید ہوئے، اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔

دوما مشرقی غوطہ کے قریب کا علاقہ ہے، جہاں حال ہی میں شامی افواج اور اس کے اتحادیوں کو جنگجوؤں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ نے اس حملے کی ذمہ داری شامی حکومت پر عائد کی ہے اور صدر ٹرمپ نے اگلے چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر شام کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے جواب میں روسی صدر پیوٹن نے متنبہ کیا ہے شام کے خلاف کسی بھی غیر قانونی حملے کا جواب سختی سے دیا جائے گا۔

شامی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ 2014ء میں او پی سی ڈبلیو کے اہلکاروں کو دے چکا ہے اور ان اہلکاروں کی موجودگی میں ان ہتھیاروں کو تلف کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق شام کے حوالے سے اہم فیصلے کے لئے صدر ٹرمپ نے اپنا ایک اہم غیر ملکی دورہ منسوخ کر دیا ہے، ان کے مطابق ہمارے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں۔ اسی دوران میں لبنانی اور شامی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے شام کے وسطی علاقے میں ایک ہوائی اڈے پر میزائل داغے ہیں، جس میں متعدد افراد کی شہادت اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

علی اکبر ولایتی جو ان دنوں فلسطین سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے شام میں موجود ہیں، نے شام پر اسرائیل کے حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام پر ہونے والے ان حملوں کا مناسب جواب دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ان حملوں میں شام میں تعینات ایران کے کچھ فوجی مشیر مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ روس نے بھی ان حملوں کے حوالے سے ماسکو میں تعینات اسرائیلی سفیر کو طلب کیا ہے۔ شام کے شہر دوما میں ہونے والے کیمیائی حملے کے حوالے سے امریکہ، فرانس، برطانیہ سمیت چند ممالک نے ایک قرارداد اقوام متحدہ میں بھی پیش کی ہے، جس پر امریکہ اور روس کے مندوبین کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ 

اس تلخ کلامی میں ممکن ہے روسی سفراء کی مختلف مغربی ممالک سے بے دخلی اور جوابی بے دخلی کے معاملے کا بھی عمل دخل ہو، تاہم اس بار روس نے امریکہ اور مغربی طاقتوں پر نہایت واضح کیا ہے کہ ان کیمیائی حملوں کو بہانہ بنا کر اگر کوئی مہم جوئی کی گئی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

مغربی طاقتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کے لئے کیمیائی حملوں کا بہانہ سامنے رکھا جاتا ہے، عراق پر حملہ اسی بہانے کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔ یہ دعویٰ بعد میں اگرچہ غلط ثابت ہوا، تاہم اس وقت تک عراق کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ لیبیا میں بھی نو فلائی زون کیمیائی ہتھیاروں سے تحفظ کے مدنظر ہی تشکیل دیا گیا اور پھر کرنل قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور لیبیا آج تک 2011ء میں چھیڑی گئی جنگ میں جل رہا ہے۔

دنیا جانتی ہے کہ عملی طور جنگ کا رخ اپنے حق میں کرنے کے لئے غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کا سہرا امریکہ ہی کے سر سجا ہوا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب روایتی طریقوں سے جنگ کی بساط ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی ہے تو یہ غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہیرو شیما، ناگاساکی اور ویتنام میں امریکہ نے خود ان غیر روایتی ہتھیاروں کو استعمال کیا۔ پھر ایران عراق جنگ میں عراق کے ذریعے ان ہتھیاروں کو بروئے کار لایا گیا اور بعد میں انہی ہتھیاروں کو بہانہ بنا کر عراق پر چڑھائی کی گئی۔

یمن میں بھی فاسفورس بمبوں کے استعمال کے شواہد ملے ہیں، جو یمن کی جنگ کو مطلوبہ اہداف تک پہنچانے کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ شام میں بھی متعدد مواقع پر ان ہتھیاروں کو ان گروہوں کے ذریعے استعمال کرایا گیا، جو امریکہ اور خطے کی دیگر ریاستوں کی پے رول پر ہیں۔ ترکی میں کئی بار جبہۃ النصرہ کے دہشت گرد کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ پکڑے گئے۔ دہشتگردوں کو یہ ہتھیار کس نے فراہم کئے اور ان ٹھکانوں پر حملے جہاں یہ ہتھیار رکھے جاتے ہیں، تاکہ مقامی آبادی متاثر ہو، کون کرواتا ہے، یہ حقیقت شاید کبھی بھی آشکار نہ ہوسکے۔

شامی حکومت اور اس کے اتحادی جو اس وقت ملک میں جاری خانہ جنگی اور بیرونی دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پا چکے ہیں اور داعش کے بعد باقی رہ جانے والے مسلح گروہوں کے خلاف گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور یہ سب کام سالوں کی محنت نیز بے پناہ قربانیوں سے انجام دے رہے ہیں، کو بھلا کیا ضرورت ہے کہ ایک چھوٹے سے مقام پر ایک ایسا حملہ کرے جو عموماً روایتی ہتھیاروں کی ناکامی کے بعد جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

شام کی حکومت اور اتحادیوں کو کوئی جلدی نہیں کہ وہ راتوں رات شام کو دہشتگردوں سے خالی کروائیں۔ ایسے میں غیر روایتی ہتھیار کا استعمال جبکہ معلوم ہو کہ اس ہتھیار کا استعمال عالمی بے چینی کا باعث بنے گا اور اقوام متحدہ اس سلسلے میں اقدام کر سکتی ہے، میرے خیال میں دانشمندی نہیں ہے۔ یہ غیر روایتی ہتھیار وہی استعمال کرسکتا ہے جو جنگ ہار رہا ہو، جو کسی دوسرے ملک پر بھرپور فضائی اور فوجی حملے کو اخلاقی جواز مہیا کرنا چاہتا ہو، جسے عالم برادری کے تعاون اور مدد کی ضرورت ہو، جس کا ایسے ہتھیاروں کے بلاواسطہ یا بلواسطہ استعمال کا وطیرہ رہا ہو۔

اصل حقائق تو یقیناً غیر جانبدارانہ تحقیقات سے ہی سامنے لائے جاسکتے ہیں، تاہم سادہ منطق یہی کہتی ہے کہ اس حملے کے پیچھے اور کوئی نہیں بلکہ وہی ہے، جس کے خیال میں روایتی ہتھیار اور حربے اس جنگ کو جیتنے کے لئے کافی نہیں رہے، جس کے لشکر پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ اس کی نظر میں یہ آخری حربہ ہے، جس کے ذریعے وہ اس جنگ کا پانسہ پلٹنا چاہتا ہے۔

تاہم روسی رکن پارلیمان نے درست کہا کہ امریکہ حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا، وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس کا مکمل انحصار فقط الزامات پر ہے۔ ایسی صورت میں طاقتور جملوں سے ہی امریکہ کے ہوش ٹھکانے لائے جا سکتے ہیں۔ امریکہ واقعی اس حقیقت کا ادراک نہیں کر رہا کہ دنیا 2011ء جیسی دنیا نہیں رہ گئی اور نہ ہی شام افغانستان یا عراق ہے۔
تحریر: سید اسد عباس
https://taghribnews.com/vdcepx8xxjh8wvi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ