تاریخ شائع کریں2018 20 March گھنٹہ 18:14
خبر کا کوڈ : 319596

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور توقعات

سعودی عرب ایک دن کہتا ہے کہ ایران کاغذی شیر ہے، اگلے ہی دن کہتا ہے کہ خطے کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ایران ہے
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر سیمینار سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اپنے ملک کی پالیسی کو واضح کیا اور کہا کہ ایران کی سرزمین کو کسی صورت پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا
ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور توقعات
ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا حالیہ تین روزہ دورہِ اسلام آباد، پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے، اس دورے سے جہاں پاک ایران تعلقات میں بہتری کی توقع ہے، وہیں خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ہمسائیگی کا کردار اور دشمن سے نمٹنے کیلئے ہونے والی نئی صف بندی کی طرف بڑا واضح اشارہ ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ محمد آصف کی خصوصی دعوت پر گیارہ مارچ کو اسلام آباد تشریف لائے اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی سے بھی ملاقات کی اور پاک ایران بزنس فورم سے خطاب کیا۔ دورے کی خاص بات یہ تھی کہ طرفین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک تجارت میں بہتری کیلئے اقدامات کریں گے اور جلد تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر تک لیکر جائیں گے۔

انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز اسلام آباد میں پاک ایران تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر سیمینار سے خطاب میں ایرانی وزیر خارجہ نے پاک ایران تعلقات کے حوالے سے اپنے ملک کی پالیسی کو واضح کیا اور کہا کہ ایران کی سرزمین کو کسی صورت پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا، سعودی عرب سمیت ہمسایوں کی سلامتی ایران کی سلامتی ہے۔ گوادر چاہ بہار معاون بندرگاہیں ہیں، پاکستان اور ایران مل کر خطے کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس سیشن کی خاص بات یہ تھی کہ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ سوال و جواب کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ ایران بھارت تعلقات سے جوڑے سوالوں کے جواب میں جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران بھارت تعلقات پاکستان کے خلاف نہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہیں، لیکن ہم اسے اپنے خلاف نہیں سمجھتے۔ ایک سابق ریٹائرڈ فوجی افسر نے سوال کیا کہ اگر ایران اور سعودی عرب اپنے تعلقات کو بہتر کر لیں تو امت کی بہت ساری مشکلات حل ہو جائیں، اس حوالے سے ایران مثبت کردار کیوں ادا نہیں کرتا۔

جواد ظریف نے دلچسپ جواب دیا کہ ہم ہمیشہ سفارت کاری کو اہمیت دیتے ہیں، سابق وزیراعظم نواز شریف تہران آئے تھے اور ثالثی کی پیشکش کی تھی، جس پر ہم نے انہیں مکمل اختیار دیا تھا کہ وہ سعودی عرب سے بات کریں، ہم نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کی اس پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ نے سوال کیا پھر کیا ہوا؟، کہا کہ وہی ہوا ناں جس کا خدشہ موجود تھا، یعنی سعودی عرب نے پاکستان کی مخلصانہ پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہ دیا۔ اب ہمارا آپ سے سوال ہے کہ اس صورتحال میں ایران کیا کرسکتا ہے۔ سعودی عرب ایک دن کہتا ہے کہ ایران کاغذی شیر ہے، اگلے ہی دن کہتا ہے کہ خطے کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ایران ہے۔ جواد ظریف نے سوال کیا کہ کیا یہ عاقلانہ حکمت عملی ہے۔؟ ہم کہتے ہیں کہ آپ عراق میں تباہی پھیلانے اور دہشتگرد گروپوں کو سپورٹ کرنے کے بجائے عراق کی تعمیر میں ہمارا ساتھ دیں، اسی طرح شام میں غیر ریاستی عناصر کو سپورٹ کرنے کے بجائے شام کی تعمیر میں ہمارا ساتھ دیں۔ یمن پر جنگ مسلط کرنے کے بجائے پرامن ہمسائیگی کے فارمولے پر کاربند رہیں، لیکن معاملات اس کے الٹ ہیں۔

خطے کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ داعش چین، پاکستان، روس اور ایران سب کے لئے خطرہ ہے، افغان مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کی طرح ایران بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ پاک ایران باہمی تعلقات، مثالی اور گہرے ہیں۔ ایران اور پاکستان کے درمیان بینکاری کے شعبے میں حائل رکاوٹوں کے جلد دور ہونے کی توقع ہے۔ ایرانی مہمان نے توقع ظاہر کی کہ امید ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ جلد مکمل ہو جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں برادر ممالک کبھی ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ہم کسی کو بھی ایرانی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ اس خطے میں داعش کی موجودگی ہم سب کے لئے خطرہ ہے۔ خطے میں امن کے قیام کے لئے مسلم امہ کا اتحاد بہت ضروری ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے تین روزہ دورے کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، اسپیکر قومی اسلمبلی ایاز صادق، پاکستانی ہم منصب خواجہ محمد آصف سمیت دیگر رہنماوں سے اہم ملاقاتیں کیں اور دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ مبصرین اور تجزیہ نگار اس دورے کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ دونوں ملکوں کیلئے بڑا تھریٹ ہیں، ایسے میں دونوں ہمسایہ ملکوں کا قریب آنا نیک شگون ہے۔ جواد ظریف کے دورہ پاکستان سے دو ہفتے قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایرانی فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل حسن شاہ صفی کی ملاقات اور اس کے دو ہفتے بعد جواد ظریف کا دورہ پاکستان دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی طرف واضح اشارہ ہیں۔ اس سے قبل آرمی چیف جنرل باجوہ اور وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی تہران کا دورہ کرچکے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کے باہمی روابط میں بہتری دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کی طرف سفر ہے، جس سے خطے میں درپیش مسائل سے ملکر نمٹا جاسکتا ہے۔

تحریر: نادر بلوچ
https://taghribnews.com/vdccooq1e2bqsp8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ