تاریخ شائع کریں2018 19 March گھنٹہ 13:17
خبر کا کوڈ : 319271

امام باقر العلوم (ع) اور حوزہ علمیہ کے طلاب

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کے دلوں میں ظالم اور خود ظلم سے کتنی نفرت ہونی چاہیے۔؟
آج اس زمانے میں بھی داخلی اور خارجی ہر طرف سے شیعیان حیدر کرار کے سامنے چیلنجز ہیں کہ جن کا مقابلہ کرنے کے لئے سب اور خصوصاً طلاب دینیہ کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے
امام باقر العلوم (ع) اور حوزہ علمیہ کے طلاب
حضرت امام محمد باقر (ع) کی ولادت باسعادت یکم رجب ستاون ہجری میں ہوتی ہے، کربلا کے پورے واقعہ میں آپ شریک رہتے ہیں، اس وقت آپ کی عمر مبارک چار سال ہوتی ہے۔ امام (ع) کے بچپن میں ہی معاویہ، یزید اور مروان جیسے ظالم بادشاہوں کا وقت گزرتا ہے تو عبدالملک  جیسے ظالم شخص اور اس کے چار ظالم بیٹوں کے زمانے میں بھی زندگی گزارتے ہیں۔ امام باقر (ع) کے زمانہ امامت میں مختلف منحرف، گمراہ افراد اور فرقے مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرتے ہیں، امام (ع) ان کا مقابلہ کرتے ہیں بلکہ ان سے مناظرہ کرکے ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔ امام (ع) کے مناظرے خوارج کے ساتھ، معتزلہ کے ساتھ اور مرجئه کے ساتھ سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آج اس زمانے میں بھی داخلی اور خارجی ہر طرف سے شیعیان حیدر کرار کے سامنے چیلنجز ہیں کہ جن کا مقابلہ کرنے کے لئے سب اور خصوصاً طلاب دینیہ کو ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ آیا پاکستان کے طلاب دین دنیا اور خصوصاً پاکستان میں دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے تیار ہیں یا دشمن ہی کی سازش کا شکار ہو کر سستی و کاہلی اور اپنے ہی مراکز، مدارس اور علماء حق کی تضعیف کا سبب بن رہے ہیں۔ امام باقر (ع) علماء کا احترام کرنے کا حکم دیتے اور ظالم سے نفرت کی تلقین کرنے کے ساتھ اس سے قطع تعلق کا حکم دیتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ظالم سے نفرت کرنا تو کجا خود ظالم بن بیٹھیں۔

عقبہ بن بشیر نامی ایک شیعہ امام باقر علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنے قبیلہ میں اپنے بلند مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ہمارے قبیلہ میں ایک عریف (حکومت کی طرف سے منظور شدہ کسی قوم کا ترجمان یا سردار) تھا، جو مر چکا ہے۔ قبیلہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ مجھے اس کی جگہ عریف بنا دیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ امام نے فرمایا: کیا تم اپنے حسب اور نسب کا ہم پر احسان جتاتے ہو؟ اللہ تعالٰی مومنوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے بلند مقام دیتا ہے، حالانکہ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں اور کافروں کو ذلیل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہیں اور یہ جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہارے قبیلہ میں ایک سردار تھا، جو مرچکا ہے اور قبیلہ والے تجھے اس کی جگہ پر رکھنا چاہے ہیں، تو اگر تجھے جنت بری لگتی ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبیلہ کی سرداری کو قبول کرلے، کیونکہ اگر حاکم نے کسی مسلمان کا خون بہایا تو تو اس کے خون میں شریک سمجھا جائے گا اور شاید تجھے ان کی دنیا سے بھی کچھ نہ ملے۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ امام کس طرح سے اپنے شیعوں کو حکومت میں کسی بھی مقام حتٰی کہ عریف بننے سے بھی روکتے تھے، جس کی کوئی خاص حیثیت بھی نہیں ہوتی تھی اور اس کی دلیل یہ تھی کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناہوں میں شیعہ شریک نہ ہوں۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کے دلوں میں ظالم اور خود ظلم سے کتنی نفرت ہونی چاہیے۔؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کے دلوں میں ناجائز اور غلط لوگوں سے کتنی نفرت ہونی چاہیے۔؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ باقر العلوم کے ماننے والوں کا علم سے کتنا تعلق ہے۔؟ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے شیعہ و سنی طلاب کہ جن میں برادران و خواہران ہر دو شامل ہیں، کی تعداد چونسٹھ لاکھ ہے، جن میں سے باب مدینۃ العلم اور امام باقر العلوم کے ماننے والوں کی تعداد صرف بیس ہزار ہے۔ یہ رپورٹ تقریباً دس سال پہلے کی ہے اور ان دس سالوں میں سنی اور دیوبندی طلاب کی تعداد تقریباً دو برابر ہوچکی ہے جبکہ شیعہ طلاب کی تعداد کم ہو کر چودہ ہزار تک رہ گئی ہے۔ ان چودہ ہزار طلاب کی علمی کیفیت کو خود مدارس میں رہنے والے طلاب ہی اچھی طرح سے درک کرسکتے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں بھی پاکستانی طلاب کی علمی استعداد جو ہے، اس سے بھی کوئی اور آگاہ ہو یا نہ ہو، خود طلاب اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ انہیں آئندہ پانچ کروڑ پاکستانی شیعہ قوم کا رہبر بننا ہے یا علمی، اخلاقی اور اعتقادی و فکری صلاحیت سے خالی، فقیر، گداگر بن کر دوسروں کا غلام بننا ہے۔ اس بات کا فیصلہ بھی باقرالعلوم کے ماننے والے طلاب کرام نے خود کرنا ہے۔

یہ بات بھی باقر العلوم کے ماننے والے سب طلاب کو ہمیشہ ذہن نشین کرنی اور یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں اسلام اور خصوصاً مکتب اہلبیت (ع) سے لوگوں کو دور رکھنے پر وہابیت اور استعماری طاقتیں دن رات ایک کئے ہویے ہیں، مکتب اہلبیت (ع) کی حقیقی تفسیر بتانے والے علماء حق سے باقی لوگ کیا خود شیعہ کو بھی ہٹایا جا رہا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت  نوجوان نسل کو علماء اور مدارس دینیہ کے مقابلہ میں لا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ساتھ ساتھ ذاکروں و بے عمل مقررین و خطیبوں کو ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہویے طلاب اور علماء حق کو معصومین (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ تمام حالات کا مقابلہ کرنا ہے، اس لئے کہ آج جس امام محمد باقر (ع)کی ولادت باسعادت کا دن ہے، وہ صاحبان علم کی شان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:"ایک نفع پہنچانے والا عالم ستر ہزار عابدوں سے بہتر ہے، عالم کی صحبت میں تھوڑی دیر بیٹھنا ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے، خدا ان علماء پر رحم و کرم فرمائے جو احیاء علم کرتے اور تقویٰ کو فروغ دیتے ہیں۔" کیا ہم خود عالم ہیں؟ اگر عالم نہیں تو کیا نفع پہنچانے والے عالم کی محفل میں یٹھنا سعادت سمجھتے ہیں یا شیطانی وسوسوں میں مبتلا ہو کر  ایسے علماء سے دور بھاگتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو امام محمد باقر(ع) کی ولادت کے صدقہ میں اہل علم بننے اور اہل علم کا احترام کرنے کی توفیق عطا  فرمائے۔آمین
https://taghribnews.com/vdccmoq1s2bqsi8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ