تاریخ شائع کریں2018 18 March گھنٹہ 19:50
خبر کا کوڈ : 319139

شہید استاد سبط جعفر، ایک معمار ایک معیار

استاد صرف اپنی زبان سے درس کی تکرار کے زریعے علم منتقل نہیں کرتا بلکہ اسکے اعمال اور اسکی حرکات و سکنات بھی اس کے اس کام میں اسکی معاون ہوا کرت
شہید استاد سبط جعفر کی شخصیت ایک معیار میں تبدیل ہوچکی ہے اور اگر انسان اس مضطرب اور پریشان حال دنیا میں اپنے لئے نقشہ راہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو سبط جعفر کی زندگی کی سادہ لکیریں اسے بغیر کسی پیچ وخم کے اسکے ہدف تک پہنچا آئیں گی
شہید استاد سبط جعفر، ایک معمار ایک معیار
علم اور معلم کوئی عام الفاظ نہیں ہیں۔ انکے اندر ایک بحر بے کراں موجزن ہے۔ اور پھر ایک ایسی ذات جس کے پاس کوئی خاص علم ہو تو اسکے کیا کہنے۔ معلم کی اہمیت ان احادیث کے مطالعے کے بعد کچھ اور دوچنداں ہوجاتی ہے کہ:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: مَن تَعَلَّمتَ مِنهُ حَرفا صِرتَ لَهُ عَبدا ؛ جس سے تم نے ایک لفظ بھی سیکھا تم اسکے بندے ہوگئے اورآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی  ہی ایک اور حدیث ہے کہ حَقُّ سائِسِکَ بِالعِلمِ ، التَّعظیمُ لَهُ و التَّوقیرُ لِمَجلِسِهِ و حُسنُ الاِستِماعِ إلَیهِ ؛ استاد کا حق یہ ہے کہ اسکی تعظیم کرو اور اسکی مجلس میں اسکا احترام کرو اور اسکی باتوں کو دھیان سے سنو۔ معلم انسان کا ہاتھ تھام کر اسے اسکی حقیقی منزل کی جانب گامزن کرتا ہے، اسے آدمی سے انسان بناتا ہے اور اگر کسی انسان کو اچھا معلم مل جائے تو وہ اسے شرف آدمیت اور شرف انسانیت کی صھیح پہچان کرواتا ہے۔

شاید یہ مقدمہ بھی کسی استاد کی تربیت کی دین ہی ہے جس نے راقم الحروف کو اس قابل بنایا کہ وہ معلم کے لئے ان الفاظ کا استعمال کر سکے۔ شاید کسی استاد کی زندگی کے چند لمحوں کا قدم بہ قدم مشاہدہ ہی تھا جس نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کمال انسانیت عجز انسانی میں پوشیدہ ہے۔ اگر مقام بندگی حاصل کرنا ہے تو اپنے آپ کو منکسر المزاج بنانا پڑے گا، اگر معاشرے سے اختلاف ختم کرنا چاہتے ہوتو پہلی اپنی ذات کو اختلافات سے عاری بناو، اگر چاہتے ہو کہ دوسروں کی اصلاح کرو تو سب سے پہلے اپنی شخصیت کو بے عیب ونقص بناو تاکہ تمہاری شخصیت میں جذابیت پیدا ہوسکے اور جب جاذبہ پیدا ہوجائے گا تو لوگ خود تمہارے گن گانے لگیں گے اور جس نے تم سے ایک حرف بھی نہ سیکھا ہوگا وہ بھی تمہیں استاد کہے گا۔ 

آج جبکہ انسانی معاشرے میں لوگ اپنی عیاری، مکاری، فریب، دھوکے، جھوٹ، تکبر اور چالبازی کے بل بوتے پر بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور جہاں ابلیس صفت انسانوں نے پاکیزگی کا لبادہ زیب تن کیا ہوا ہے اور ذہن انسانی صحیح اور غلط کی پہچان میں سراسیمگی کا شکار ہے۔ ایسے میں شہید استاد سبط جعفر  کی شخصیت ایک معیار میں تبدیل ہوچکی ہے اور اگر انسان اس مضطرب اور پریشان حال دنیا میں اپنے لئے نقشہ راہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو سبط جعفر کی زندگی کی سادہ لکیریں اسے بغیر کسی پیچ وخم کے اسکے ہدف تک پہنچا آئیں گی۔ 

کہتے ہیں بہترین استاد وہ ہوتا ہے جس نے اپنے شاگردی کے زمانے میں اپنے استاد سے پورے دل و جان سے علم حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اگر کوئی شاگرد ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے شاگردوں کے لئے بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو وہ خود مودب ہوتا کیونکہ وہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں یہ سیکھ ہی نہیں پایا تھا کہ ادب کسے کہتے ہیں اور مودب کیسے رہا جاتا ہے اور نہ ہی اسے علم منتقل کرنے کے ہنر آتے ہیں کیونکہ استاد صرف اپنی زبان سے درس کی تکرار کے زریعے علم منتقل نہیں کرتا بلکہ اسکے اعمال اور اسکی حرکات و سکنات بھی اس کے اس کام میں اسکی معاون ہوا کرتی ہیں۔ اسی لئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بظاہر چند ملاقاتیں کرنے والے افراد بھی جب شہید استاد سبط جعفر کا تذکرہ کرتے ہیں تو انکے ظاہر سے زیادہ انکی سیرت اور انکی روش زندگی کے تذکرے کرتے ہیں۔ 
زندگی سادہ سی تھی، تجملات کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، آسائشیں دسترس میں ہوتے ہوئے بھی ان سے شغف نہیں تھا۔ نہ مہنگا گھر نہ مہنگی سواری نہ مہنگا لباس اور تو اور سال بھر ہزاروں مجالس عزا میں مرثیہ خوانی کرنے والے استاد شہید کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وقت مقررہ پر خود پہنچ جاتے نہ پروٹوکول نہ تعریفی کلمات نہ ہی دوسرے لوازمات۔ یہ سب کیا تھا؟ کون تھا یہ شخص؟ اس نے ایسی روش کیوں اپنائی تھی؟ کیا یہ سوالات بہت پیچیدہ ہیں؟ کیا ہمیں اور آپ کو ان کے جوابات نہیں معلوم؟ 

ہمیں ان تمام سولات کے جوابات بھی معلوم ہیں اور یہ مسئلہ اتناپیچیدہ بھی نہیں ہے ۔ تو پھر ہم ایسی زندگی اپنانے سے کیوں گریزاں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم خدا کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے ترک تعلق کر لیں اور سیرت سبط جعفر پر چلنے کی کوشش میں دین کو ہی ترک کردیں لیکن کیا ہم یہ بھی نہیں کرسکتے کہ بنام استاد لہجے کی تلخی کو شیرینی میں بدل دیں، کیا ہم یہ بھی نہیں کرسکتے کہ راہ حسین علیہ السلام میں بے جا مطالبات ترک کردیں۔ کیا ہم یہ بھی نہیں کرسکتے کہ ہم عزائے شاہ شہیداں ع کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دیں نہ کہ اسے اپنے مفادات حاصل کرنے کا زریعہ۔ کیا ہم یہ بھی نہیں کرسکتے کہ کم از کم اس بات کا ہی دھیان رکھا کریں کہ ہم محب اہلیبیت ہیں شاید کچھ لوگ ہیں، کچھ جوان ہیں، کچھ بچے ہیں جو اس وقت ہم سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہیں تو ہم بھی انکے لئے نمونہ عمل بنیں۔

درد دل نے تحریر کو پراکندہ کر دیا لیکن ہوسکتا ہے میرے یہ چند الفاظ ہم میں سے کسی کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کردیں۔ سبط جعفر جیسا معلم جس نے اپنے ایک ایک قدم سے اپنے ایک ایک عمل سے آنے والی نسلوں کی تربیت کی ہے وہ علم دوستوں کو ہمیشہ بہت یاد آئے گا کیونکہ اس  جیسے دیدہ ور کے جانے کے بعد اب ہر آن یہی ناامیدی ذہن کا احاطہ کئے رہتی ہے علم و فن کا چمن اب اور کتنے سال اس جیسی شخصیت کی عدم موجودگی پر گریہ کرے گا۔

یوشع ظفر حیاتی 
حوزہ علمیہ قم 
۱۸ مارچ ۲۰۱۸
https://taghribnews.com/vdcfm1dm1w6dyya.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ