تاریخ شائع کریں2018 16 March گھنٹہ 16:00
خبر کا کوڈ : 318725

ایرانی حکومت و قیادت پاکستان کو دوسروں پر فوقیت دیتی ہے

ایرانی وفد نے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی دعوت پر پاکستان کا تین روزہ دورہ
ایرانی حکومت و قیادت پاکستان کو دوسروں پر فوقیت دیتی ہے
پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات کو ستر سال ہوچکے ہیں۔ ان ستر سالہ تعلقات کی مناسبت سے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی قیادت میں تیس رکنی ایرانی وفد نے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی دعوت پر پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا۔ چند نکات وہاں عرض کئے اور مزید اظہار خیال اس تحریر کی صورت میں قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ منجھے ہوئے کہنہ مشق ایرانی سفارتکار جواد ظریف ماضی میں بحیثیت سفیر پاکستان میں تعینات رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں بھی ایرا ن کے مستقل مندوب کی حیثیت سے انہوں نے سفارتی خدمات انجام دی ہیں۔ ان دو عہدوں کی وجہ سے ان کا پاکستانی سفارتی و دیگر حکومتی شخصیات سے باہمی تعامل بھی رہا ہے اور وہ اور پاکستان کی مقتدر شخصیات ایک دوسرے کو دیگر کی نسبت زیادہ بہتر طور جانتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی وزارت کے دور میں پاکستان اور ایران کی اعلٰی سرکاری شخصیات میں روابط میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس مرتبہ بھی وہ نہ صرف پاکستان کے وزیراعظم، وزرائے خارجہ و داخلہ، قومی سلامتی امور کے مشیر اور قومی منصوبہ بندی کے عملی سربراہ سے ملے بلکہ اس مرتبہ بھی انہوں نے پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ قومی سلامتی امور کے مشیر ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ اور پاکستانی جرنیل باجوہ صاحب سے ملاقاتوں میں خاص طور پر سلامتی سے متعلق امور اور تکفیری دہشت گردوں بالخصوص داعش کے خلاف دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال اپنی جگہ، لیکن اس دورے میں زیادہ اہمیت اور توجہ تجارتی تعلقات پر مرکوز رکھی گئی۔ اس دورے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ پاکستان میں ایران کا میڈیا ٹرائل کرنے والوں کو جواد ظریف نے اس دورے میں شکست فاش دی۔ اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے پروگرام میں خطاب اور سوالوں کے جوابات کے دوران، ذرائع ابلاغ سے گفتگو اور جیو نیوز چینل کے پروگرام کیپٹل ٹاک کے میزبان حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو اور کراچی میں پاک، ایران کاروباری فورم سمیت ہر پروگرام میں وہ چھائے رہے۔

پاکستان میں ایران کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے والے دو نکات کو بنیاد بناتے آئے ہیں۔ اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے مذاکرے بعنوان ’’پاک ایران ستر سالہ تعلقات اور مستقبل کے امکانات‘‘ میں جواد ظریف سے سعودی عرب سے متعلق سوال کیا گیا تو انکا دندان شکن جواب آیا کہ اللہ نہ کرے کہ سعودی عرب کے خلاف غیر ملکی جارحیت یا دہشت گردی ہو، لیکن اگر ایسا ہوا تو ایران وہ پہلا ملک ہوگا، جو سعودی عرب کی مدد کو آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران یہ سمجھتا ہے کہ اسکے پڑوسیوں کا امن، سلامتی اور استحکام اسکا اپنا استحکام، سلامتی و امن ہے۔ انہوں نے متوجہ کیا کہ ایران سعودی عرب سے مکالمے و مذاکرات کے لئے آمادہ ہے اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی ثالثی کی کوششوں کو بھی ایران نے سراہا تھا، لیکن سعودی عرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس میں اپنا مفاد دیکھتا ہے کہ دنیا یہ باور کرلے کہ اسے خطرہ ہے۔ (یاد رہے کہ سعودی وزیر نے آن دی ریکارڈ پاکستان کی ان کوششوں سے لاتعلقی کا اعلان کرکے یہ تاثر دیا تھا کہ پاکستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سعودی عرب کے ایران سے اختلافات کو ختم کروائے اور نواز شریف کو اس کوشش میں ناکامی کا سبب خود سعودی بادشاہ تھے۔)

اسلام آباد کے اس پروگرام میں جواد ظریف صاحب کو یہ بھی کہہ دینا چاہئے تھا کہ سعودی عرب سے پاکستان کے صحافی اور دانشور بھی تو پوچھیں کہ فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے پیرس اجلاس میں خلیجی تعاون کاؤنسل کی جانب سے سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف ووٹ کیوں دیا؟ لیکن جواد ظریف صاحب نے ایک اور حقیقت بھی واضح کر دی کہ جس طرح پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ ایران کے خلاف نہیں ہیں، اسی طرح ایران کے بھارت کے ساتھ تعلقات بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہیں۔ یقیناً وہ ایک غیر ملکی سفارتکار ہیں اور سفارتی آداب کے تحت بہت سے نکات کہنے سے گریزاں رہے، ورنہ وہ بھی پوچھ سکتے تھے کہ اسی بھارت کے ساتھ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین وغیرہ کے بہترین تعلقات پر پاکستان کو اعتراض کیوں نہیں؟ اسی بھارت کے ساتھ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (تاپی) گیس پائپ لائن کا مشترکہ منصوبے میں پاکستان کو بھارت پر کیوں اعتراض نہیں ہوا؟ یعنی پاکستان اور سعودی عرب خود بھارت کے ساتھ معاہدے کریں تو کوئی مشکل نہیں، لیکن ایران کوئی معاہدہ کرے تو مسئلہ ہے! بھلے جواد ظریف صاحب نے یہ نہیں کہا، لیکن جو انہوں نے کہا وہ یہ یقین دہانی تھی کہ ایران کی سرزمین کبھی بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بھی اس دورے میں ان سے سوال پوچھے گئے تھے تو انکا جواب تھا کہ پاکستان نے جو کچھ اس ضمن میں ایران سے پوچھا، ایرانی حکومت نے پاکستان کو وہ مطلوبہ معلومات فراہم کر دیں۔

یاد رہے کہ ایرانی حکومت شروع سے پاکستان اور چین کو یہ پیشکش کرتی آئی ہے اور اس دورے میں بھی جواد ظریف صاحب نے اسے دہرایا کہ پاکستان اور چین ایران کی چابہار بندرگاہ کے منصوبوں میں شمولیت اختیار کریں۔ اس پیشکش پر بعض پاکستانی اخبارات نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے۔ ایران چین و پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل ہونے کے لئے آمادہ ہے اور ایران نے چابہار بندرگاہ اور گوادر کو جڑواں اور ایک دوسرے کی مددگار بندرگاہ قرار دیا ہے اور ان دونوں کو زمینی اور سمندری طور ایک دوسرے سے منسلک کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ چابہار منصوبے کی افتتاحی تقریب میں ایران نے پاکستان کو مدعو کیا تھا اور وفاقی وزیر بندرگاہ میر حاصل بزنجو کی قیادت میں پاکستانی وفد نے شرکت بھی کی اور ایرانی ذرائع ابلاغ نے انہیں نمایاں کوریج اور اہمیت بھی دی۔ ایران کی جانب سے یہ مثبت رویہ ہی اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ایرانی حکومت و قیادت پاکستان کو دوسروں پر فوقیت دیتی ہے۔ جواد ظریف صاحب کے الفاظ میں ایران کے پاکستان کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں اور جو ناقابل فراموش اور یادگار نکتہ انہوں نے اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے میں بیان کیا، وہ یہ تھا کہ امام خامنہ ای ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات میں اضافے کو اہم قرار دے کر اس کی تاکید کرتے ہیں۔ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کا دو طرفہ تعلقات کے استحکام کے لئے ایران جانا، ایرانی فضائیہ کے سربراہ کا پاکستان کے دورے پر آنا، پارلیمانی اداروں کے سربراہان کے دورے، سنگل کنٹری نمایش، ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دونوں ملکوں کے سکیورٹی حکام کا پاک ایران سرحدوں کی مشترکہ فضائی پٹرولنگ، دونوں ملکوں کے مابین ترجیحی تجارت کا معاہدہ، اعلٰی سویلین اور عسکری حکام کا مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا اور تبادلہ خیال کرنا، صدر اور وزیراعظم کی سطح کے دورے وغیرہ، یہ سبھی کچھ پاک ایران تعلقات میں ماضی کی نسبت بہتری کی طرف مثبت اشارے ہیں۔

لیکن ہنوز دلی دور است! کے مصداق ان تعلقات کو بہترین بنانے کے لئے ابھی بہت سے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے دونوں ممالک کو سب سے پہلے بینکاری کا رسمی چینل قائم کرنا لازمی ہے۔ دونوں ممالک کو بینکاری کے نظام کے ذریعے جوڑے بغیر دو طرفہ تجارتی تعلقات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ایرانی بینکوں کی شاخیں پاکستان میں اور پاکستانی بینکوں کی شاخیں ایران میں کھولی جائیں اور کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ کی سہولت بھی دونوں ملکوں کے شہریوں اور تاجروں کو مہیا کی جانی چاہئے۔ اسلام آباد اور تہران کے مابین فضائی سفر شروع ہونا چاہئے بلکہ فضائی کارگو سروس بھی شروع ہونی چاہئے۔ سال 2021ء تک پاکستان ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت کا حجم پانچ ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتا ہے تو سب سے پہلے بینکاری کا رسمی رابطہ قائم کرے۔ ایران کی طرف سے اس ضمن میں کوئی مشکل نہیں، پاکستانی بینکوں کو اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ ایران نے دو ارب ڈالر خرچ کرکے گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک پہنچادی ہے اور اب پاکستانی حکومت اس ضمن میں معاہدے پر عمل کرے اور اس کے ساتھ ہی اب ترجیحی تجارت کے معاہدے کو آزاد تجارتی معاہدے میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاہدے کا متن تیار ہے۔ پاکستان حکام نے جون 2018ء تک اس معاہدے پر دستخط کا اشارہ دیا تھا، کیا الیکشن سے قبل ایسا ممکن ہے۔؟

ترجیحی تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان نے ایران کی 339 اشیاء کے لئے ٹیکسوں میں رعایت رکھی ہے، جبکہ ایران کی جانب سے پاکستان کی 309 اشیاء پر یہ رعایت منظور کی گئی ہے۔ آزاد تجارت کے معاہدے کے بعد دونوں ممالک ایک دوسرے کی 80 فیصد اشیاء کی درآمدات و برآمدات کی ڈیوٹی میں رعایت دینے کے پابند ہو جائیں گے۔ پاکستان کا چاول، آم، کینو، موسمی، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، کپاس، ٹیکسٹائل مصنوعات کے لئے ایران ایک اچھی منڈی ہے جبکہ ترکی، آذر بائیجان اور روس تک پہنچنے کی ایک گذرگاہ بھی ہے اور افغانستان سے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ترکمانستان تک پہنچنے کا راستہ بھی ایران ہے، جسے پاکستان نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اسی لئے چین اور بھارت تک زمینی راستے سے ایران پاکستان کے ذریعے ہی پہنچ سکتا ہے۔ یعنی دونوں ممالک ایک دوسرے کے لئے منڈی بھی ہیں اور تجارتی گذرگاہ بھی۔ دونوں ملک سیاحت کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرسکتے ہیں۔ ایران کے تیس رکنی وفد میں تاجر اور کاروباری شخصیات کا دورہ پاکستان، اسی وقت بار آور ثابت ہوسکتا ہے، جب پاکستانی حکومت و ریاست پاکستان کی کاروباری شخصیات کے ان مشوروں پر عمل کریں کہ صرف ڈیڑھ ارب ڈالر میں پاکستان ایران سے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی خریدے، جس سے پاکستان کی معیشت میں پیداواری انقلاب آجائے گا اور پیداوار میں اضافے کی وجہ سے یہ قیمت ایک ہی سال میں حکومت کمالے گی۔ ایران سے آنے والی گیس سے بھی پاکستان خود سستی بجلی بنانے کے قابل ہو جائے گا۔

توانائی کے بحران کی وجہ سے، مہنگی گیس اور بجلی کی وجہ سے ہی پاکستان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی ہے اور کاروباری لاگت اتنی زیادہ ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستان بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام جیسے ملکوں کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سفارتی لحاظ سے تو جواد ظریف صاحب کا دورہ بلا شبہ کامیاب دورہ تھا، لیکن اقتصادی لحاظ سے صرف ایک مثبت پیش رفت ہوئی ہے کہ دوطرفہ تجارتی حکم ایک ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دو طرفہ اقتصادی خوشحالی کے حصول کے لئے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بینکاری چینل کے قیام کے لئے پاکستانی حکومت و ریاست اپنے حصے کی ذمے داری ادا کرے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے دباؤ اور بلیک میلنگ سے ڈرکر انکی چاپلوسی اور انہیں ایران پر ترجیح دیتے رہے تو خود انحصاری اور خوشحالی نہیں آئے گی بلکہ غیر ملکی قرضوں کی قسط کی ادائیگی بھی مزید قرض لے کر کرنے کا یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا، اچھی طرح سوچ لیں!
تحریر: عرفان علی
https://taghribnews.com/vdcf0cdmtw6dyea.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ