تاریخ شائع کریں2018 1 March گھنٹہ 12:49
خبر کا کوڈ : 315331

سعودی عرب اس وقت مسلمانوں کو اکٹھا کرکے مسلمانوں پر گولیاں چلوا رہا ہے:مفتی گلزار

سعودی عرب اس وقت مسلمانوں کو اکٹھا کرکے مسلمانوں پر گولیاں چلوا رہا ہے:مفتی گلزار
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔

مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ جماعت اہل حرم کے سربراہ بھی ہیں۔


سوال:شرعی مسئلوں پر یوٹرن کیوں لیا جاتا ہے، پہلے کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ نے گستاخی کی ہے اور کلمہ پڑھے بغیر اور عہدے سے برطرف کئے بغیر احتجاج ختم نہیں کرینگے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وزیراعلٰی شہباز شریف پیر آف سیالوی کے پاس گئے اور سب گلے شکوے دور ہوگئے۔ یہ کیا ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: پہلا سوال ہی سخت ہوگیا، میرا اپنا دل بہت مضطرب ہے، عوام کو چھوڑیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو کیا جواب دیں گے، عوام کی عدالت کا اتنا مسئلہ نہیں ہے، جتنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے کھڑا ہونے کا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام لیکر بات کرتے ہیں اور یوٹرن لے لیتے ہیں، وہ بھی اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر، یہ بہت بڑا جرم ہے، بڑے ایشو پر بڑا یوٹرن لیا گیا، اس عمل سے یہ لوگ اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں، پیر آف سیالوی شریف بہت قابل احترام شخصیت ہیں، اُن کی گدی سے ہزاروں علماء اور مشائخ وابستہ ہیں، حضرت پیر مہر علی شاہ جیسی ہستی بھی ان سے منسلک رہی ہے، ان کا اتنا بڑا نام ہے۔ لیکن جب وزیراعلٰی صاحب وہاں گئے اور ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور وہ دعویٰ جو انہوں نے کیا تھا، وہ سب ختم ہوگیا، کافور ہوگیا، یہ بہت بڑا قابل افسوس واقعہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اہلسنت کی تاریح میں جتنے بھی قابل افسوس واقعات نے جنم لے لیا ہے، یہ ان سب سے بڑا افسوسناک واقعہ ہے۔ میں اسے اہلسنت کے چہرے پر سیاہ داغ تصور کرتا ہوں، شاید یہ داغ صدیوں تک نہ مٹے۔ پاکستان کی ریاست میں اہلسنت کو اس عمل سے جتنا نقصان ہوا اور جتنی بدنامی ہوئی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔

سوال: اس سارے عمل کے پیچھے کیا ہوسکتا ہے، بلآخر اتنا بڑا یوٹرن کیوں لیا گیا۔ یہاں تک کہا گیا تھا کہ ہم اپنے طالبے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: میرے خیال کے مطابق رانا ثناء اللہ کے جو بیانات تھے، یہ ان سے ناواقف تھے، اگر واقف تھے اور رانا ثناء اللہ کا اسٹینڈ بھی جانتے تو یہ اسلام کے ساتھ غداری کی گئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دین کے ساتھ مذاق کیا گیا ہے، اسی طرح ہماری جو تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ ہے، اُس کے رہنماوں نے بھی رانا ثناء اللہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، حتٰی پنجاب حکومت کا نام تک نہیں لیا گیا، یہ چیزیں سوالیہ نشان ہیں۔ آج سوشل میڈیا پر تصویریں گردش کر رہی ہیں کہ پیر فیصل قادری کی رانا ثناء اللہ کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں یہ ایک بہت بڑا خطرناک کام کیا ہے، جس کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔

سوال: پیر سیالوی نے کہا کہ شہباز شریف کی آمد کے بعد ہماری ذاتی رنجشیں ختم ہوگئی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے دین کا مسئلہ کیوں بنایا گیا، آپ اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی: اصل مشکل یہی ہے کہ مذہبی سیاست کرنے والے اپنے ذاتی مفاد کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے یہ دین و اسلام کا معاملہ ہو، جب ان کا مفاد پورا ہوتا ہے تو اسلام کا مفاد بھی پورا ہو جاتا ہے۔ جب ان کا مفاد پورا نہیں ہوتا تو وہ اسلام کا نقصان شمار ہونے لگتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی مذہبی و مسلکی سیاست کر رہے ہیں، سب کا مقصد یہی ہے، یہ بہت قابل افسوس ہے۔

سوال: ایوان صدر میں ایک تقریب میں ہوئی، جس میں آپ بھی شریک تھے، ایک ڈاکومنٹ پر تمام مکاتب فکر سے دستخط کروائے گئے، جسے پیغام پاکستان کا نام دیا گیا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے تکفیر کا مسئلہ حل ہو جائیگا۔؟
مفتی گلزار نعیمی: یہ آپ نے بڑا ہی اہم سوال کیا ہے، مجموعی طور پر میں پیغام پاکستان کے عنوان سے جاری ہونے والے بیانیہ کو خوش آئند سمجھتا ہوں، اس میں اچھی بات یہ تھی کہ اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے، اس میں تکفیر اور لاتکفیر دونوں طرف کے لوگ موجود تھے، سب نے تقاریر بھی کیں، شیعہ، دیوبندی، سلفی اور بریلوی سمیت سب نے اپنا موقف پیش کیا، ایک بہت اچھی کاوش تھی، ایک چھت تلے سب کا جمع ہونا اچھا شگون تھا۔ جہاں تک پیغام پاکستان کی کی باتیں ہیں، وہ کہیں نہیں تھیں، اس سے پہلے بھی ہمارے علماء اتحاد و وحدت کے حوالے سے یہ باتیں پیش کرچکے ہیں، التبہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس انداز سے پہلی بار بات کی گئی ہے، جو قابل تعریف ہے۔ اس عمل میں خامی یہ دکھائی دے رہی ہے کہ اس کی پرموشن نہیں کی گئی، اس حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات نہیں اُٹھائے جا رہے، جو لوگ اتحاد و وحدت کو نقصان پہچا رہے تھے اور مسلمانوں کو کافر کہہ رہے تھے، ان کے خلاف حکومت نے نہ پہلے کوئی کام کیا اور نہ اب کر رہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس پیغام کو پرموٹ کرنے کیلئے حکومت کو اپنے وسائل بروکار لانے چاہیئے تھے۔ ایک بدقسمتی یہ ہوئی کہ افغانستان کے علماء اور وہاں کی انتظامیہ نے اس کی بہت مخالفت کی ہے۔ افغان صدر نے اپنے علماء کو بلاکر کہا کہ یہ فتویٰ صرف پاکستان کے لئے کیوں ہے، یہ افغانستان کے لئے کیوں نہیں ہے۔ حالانکہ وہ صرف پاکستان کے لئے نہیں تھا، سب کے لئے تھا، میں یہ کہوں گا کہ پاکستان نے اس کی پروموشن کے لئے دلچسپی نہیں لی، جس کی وجہ سے مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

سوال: کیا کاسمیٹک کاموں سے تکفیر رک جائے گئی۔؟
مفتی گلزار نعیمی: میں سمجھتا ہوں کہ نہیں رکے گی، کیونکہ کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آیا اور نہ ہی اس کی کوئی وہاں کمیٹی بنی ہے، صرف ایک ڈاکومنٹ کو پبلک کرنے کے لئے اور اس کی تشہیر کرنے کے لئے علماء کو بلایا گیا۔ اس سے آگے کچھ نہیں تھا۔

سوال: آنیوالے انتخابات میں مذہبی طبقے کو کہاں دیکھ رہے ہیں۔؟ 
مفتی گلزار نعیمی: میں اہل مذہب کو کہی پر بھی نہیں دیکھ رہا، اس وقت اہل مذہب جس طرف لگا ہوا ہے، وہ مذہبیوں کیلئے نقصان کا باعث بنا ہوا ہے، میں ان کو آئندہ کی سیاست میں اور پارلیمنٹ میں کہیں پر نہیں دیکھ رہا۔

سوال: اب جیسی سیاست ہو رہی ہے، کیا اہل مذہب کو ایسی سیاست کرنی چاہیے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: سیاست ضرور کرنی چاہیے لیکن مذہب اور دین کے تابع ہونی چاہیئے، ایک ہوتا ہے مذہب کی سیاست اور ایک ہوتا ہے مذہبیوں کی سیاست، یہ دو مختلف چیریں ہیں، جہاں مذہب کی بات ہوتی ہے، ہم اس کو ایک دین اور ضابطہ حیات کے طور پر لیتے ہیں، مذہبیوں کی سیاست اس دین کے زیر اثر ہونی چاہیئے، اگر مذہب انہی لوگوں کے ساتھ چل رہا ہو، جو سود کی پرموشن کے قائل ہوں اور سود کو حرام نہ کرنا چاہتے ہوں، جو شراب کو سرعام کرنا چاہتے ہوں تو پھر ایسی سیاست کا کیا فائدہ۔؟ فقط جماعت کا نام مذہبی رکھ دینا کافی نہیں ہوتا۔ عمل بھی ساتھ دے، ہمیں وہ سیاست کرنی چاہیے، جو سیاست رسول ﷺ کے ماننے والوں نے کی، آپ کے اصحاب نے اور آپﷺ کے اہلبیت  علیہ السلام نے کی، یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دین کی بات کی ہے۔ اسلامی اصولوں کی بات ہو، اسلامی اقدار کی بات ہو، جس میں ذات کے بجائے مذہب کو ترویج ملے۔ فقط مذہبی لبادہ اڑھ لینا کافی نہیں۔

سوال: ایم ایم اے اور سنی جماعتوں کے اتحاد کو کہاں دیکھ رہے ہیں، دونوں الگ الگ سامنے آرہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی: عرض کروں کہ حقیقت میں ایم ایم اے کا وجود ہی نہیں رہا، میں آئندہ الیکشن میں ایم ایم اے کا کوئی نقش اور رول نہیں دیکھ رہا، البتہ جو سیٹیں مولانا فضل الرحمن کی ہیں، وہ انہیں ملیں گی، اسی طرح جو سیٹیں جماعت اسلامی جیتتی آئی ہے، وہ حاصل کر لے گی، ایم ایم اے کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کا سیاست پر اثر نظر آئے، لیکن ہم یہ کہیں بھی نہیں دیکھتے۔ ایم ایم اے اس وقت نون لیگ کی بغل بچہ جماعت بن چکی ہے، جو اس کی بی ٹیم تو ہوسکتی ہے لیکن مذہبی نہیں۔ جہاں تک اہل سنت جماعتوں کا پوچھا ہے تو اس حوالے سے کوئی مثبت چیز نظر نہیں آرہی، ان کے بارے میں کیا کہوں جہنوں نے اہلسنت کو اکٹھا کرنا تھا، آپ دیکھیں کافی عرصہ ہوگیا ہے اتحاد بنے، اس کے بعد سے اجلاس تک نہیں ہوا، یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں، خدا جانے کونسی ایجنسی ان کو آگے کر رہی ہے۔ جن لوگوں نے اہلسنت کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا، وہ کیسے سیاسی اتحادی بنا سکتے ہیں۔؟ شائد میر نے اسی وقت کیلئے یہ شعر کہا تھا کہ
​میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب​
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں​

سوال: مسلم لیگ نون کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں، جبکہ ایک طرف عدالتی محاذ آرائی بھی شروع کر رکھی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: میں سمجھتا ہوں نون لیگ کی عوام میں جڑیں بہت مضبوط ہیں اور وہ تین دہائیوں سے سیاست میں ہے، دہی علاقوں کا ووٹ بھی پڑتا ہے، اس وقت نون لیگی کی مقبولیت ماضی میں پیپلزپارٹی کی طرح ہے، وجہ اسٹیبلمشنٹ مخالف ہونا ہے، جو کردار پیپلز پارٹی کا تھا، اب وہ نون لیگ ادا کر رہی ہے۔ جہاں تک عدالتی محاذ آرائی کا سوال ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں یہ ملک کے لئے بہت نقصان دہ چیز ہے، غلطیاں دونوں جانب سے ہوئی ہیں، اگر نون لیگ کی قیادت غلط ہے تو کچھ جج صاحبان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ خاص طور پر افتخار چوپدری نے عدلیہ کا وقار مجروح کیا ہے۔ اس سے عدالت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ آج یہ چیزیں عدلیہ فیس کر رہی ہے۔

سوال: سعودی عرب فوج بھیجنے کے فیصلے پر کیا کہیں گے، نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا، نہ ہی قوم کو آگاہ کیا گیا۔؟
مفتی گلزار نعیمی: سعودی عرب فوج جانے کا میں کل بھی مخالف تھا، آج بھی ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اگر اسرائیل کے خلاف لڑ رہا ہوتا تو اس فوج میں شاید میں بھی اپنے آپکو شامل کرنے میں سعادت سمجھتا اور ایک سپاہی کے طور پر جنگ میں شریک ہوتا، لیکن افسوس کہ اس وقت سعودی عرب اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے، سعودی عرب اس وقت مسلمانوں کو اکٹھا کرکے مسلمانوں پر گولیاں چلوا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں یہ امت کے ساتھ غداری ہے اور پاکستان کو کسی صورت میں ایسا کام نہیں کرنا چاہئے تھا، میں اس کو تحسین کی نگاہ سے کبھی بھی نہیں دیکھتا، میں اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

سوال: افغانستان میں داعش جمع ہو رہی ہے، دوسری جانب کابل پاکستان کیخلاف دشمنوں جیسی زبان استعمال کر رہا ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: افغانستان کا تو اپنا کوئی اسٹینڈ ہی نہیں، یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت ہے، جو امریکیوں کے کہنے پر چلتی ہے، جو امریکہ کہتا ہے وہی کرتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcfmtdmyw6dyma.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ