تاریخ شائع کریں2018 28 February گھنٹہ 13:33
خبر کا کوڈ : 315155

شام میں امریکہ اور ترکی کا کھیل

امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضے کا اصل مقصد اس ملک کا قومی تشخص، مسلح افواج اور حکومتی اداروں کی نابودی تھا
حقیقت تو یہ ہے کہ سب عراق میں موجود خام تیل کے ذخائر جیسی عظیم دولت ہتھیانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ خام تیل کے ذخائر کی وجہ سے عالمی طاقتیں لالچ میں آ گئیں اور عراقی قوم کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو گئیں
شام میں امریکہ اور ترکی کا کھیل
امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے میں نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی اس کا خواہاں ہے۔ اس بات کے واضح اور ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ واشنگٹن عراق میں داخل ہوا اور اپنے بقول دنیا کو صدام حسین اور اس کے کیمیائی ہتھیاروں سے نجات دلانے کیلئے اس ملک پر قابض ہو گیا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ امریکہ کی جانب سے عراق پر قبضے کا اصل مقصد اس ملک کا قومی تشخص، مسلح افواج اور حکومتی اداروں کی نابودی تھا۔ یہ امریکی حکام کے اس بیان کے بالکل برعکس تھا جس میں کہا گیا تھا کہ "عراق خطے میں مثالی جمہوری ملک بن کر سامنے آئے گا۔" اس کے بعد یہ ملک بیرونی قوتوں کے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر اور سیاسی رہنماوں کے ذریعے شروع ہونے والے سکیورٹی بحران کی لپیٹ میں آ کر مفلوج ہو کر رہ گیا۔ 

حقیقت تو یہ ہے کہ سب عراق میں موجود خام تیل کے ذخائر جیسی عظیم دولت ہتھیانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ خام تیل کے ذخائر کی وجہ سے عالمی طاقتیں لالچ میں آ گئیں اور عراقی قوم کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہو گئیں۔ امریکی حکام نے عراق کو دہشت گرد عناصر کے اکٹھا ہونے کا مرکز بنا دیا جس کے نتیجے میں وہاں "داعش" جیسا بدترین اور احمقانہ ترین دہشت گرد گروہ معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد خطے میں رونما ہونے والے بحران جسے عرب انقلابات کا جھوٹا عنوان دے دیا گیا، کے ذریعے دہشت گرد عناصر پروان چڑھا کر انہیں شام بھیجا گیا۔ اس کے بعد صدر رجب طیب اردگان سے خفیہ معاہدہ طے پایا جس کے تحت دنیا کے مختلف ممالک سے تکفیری دہشت گرد عناصر ترکی کی سرحد پار کر کے شام پہنچنا شروع ہو گئے۔ 

بڑی تعداد میں تصدیق شدہ رپورٹس اور حکومتی عہدیداروں کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکی نے تکفیری دہشت گرد عناصر کی شام اور عراق منتقلی میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ کیا ہوا۔ ان رپورٹس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ داعش اور دیگر تکفیری دہشت گرد گروہوں سے وابستہ عناصر کے ذریعے ترکی شام سے انتہائی سستے داموں خام تیل حاصل کرتا رہا ہے اور ان دہشت گردوں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی طرح ترکی بھی داعش کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ ترکی نے داعش کو بہانہ بنا کر شام کے شمالی علاقوں میں فوجیں گھسا دیں اور کردوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ دوسری طرف کردوں کو امریکی حمایت حاصل ہے اور امریکہ نے داعش کے خلاف جنگ کے نام پر پیشمرگہ نامی کرد فورسز کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ جدید اسلحہ بھی فراہم کیا ہے۔ 

امریکہ اور ترکی اگرچہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ان کے آپس میں اختلافات موجود ہیں لیکن درحقیقت دونوں نے مل کر شام میں کھیل کا آغاز کر رکھا ہے۔ یہ کھیل مصر کے صحرای سینا میں انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کی بدولت فاش ہوا ہے۔ داعش کو شام اور عراق سے خطے کے دیگر حصوں میں منتقل کیا جا رہا ہے جن میں سے ایک خطہ صحرای سینا ہے۔ داعش کے منظرناموں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں سے بہت سے منظرنامے پردے پر آنا باقی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابھی ان کے اجرا کیلئے مناسب وقت نہیں آیا۔

تحریر: احمد عبدالحکم
https://taghribnews.com/vdcjiietiuqevvz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ