تاریخ شائع کریں2018 21 February گھنٹہ 13:59
خبر کا کوڈ : 313572

پاکستان میں سر عام پھانسی دینے پر ڈیڈلاک برقرار

عوام کی جانب سے زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے
سرعام پھانسی دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہوگا جبکہ سرعام پھانسی دینے میں عدالتی فیصلہ بھی رکاوٹ بن سکتا ہے/ کسی چوک چوراہے کی بجائے جیل کے اندر پھانسی دی جائے اور پھانسی کے مناظر میڈیا پر دکھائے جائیں
پاکستان میں سر عام پھانسی دینے پر ڈیڈلاک برقرار
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں زینب کے قاتل کو سر عام پھانسی دینے کے معاملے پر وزارت قانون کی جانب سے آئین کے خلاف کسی بھی قسم کے فیصلے سے گریز کرنے کی تجویز پر کمیٹی نے وزارت سے تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کے معاملے پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا سینیٹر جاوید عباسی کی صدارت میں اجلاس ہوا، جس میں وزیر قانون، تمام صوبوں کے ہوم سیکریٹرز، سیکریٹری قانون، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور محکمہ جیل خانہ جات کے حکام نے بھی شریک کی۔

قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کے معاملے پر غور کیا گیا۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ رولز کی موجودگی میں پینل کوڈ میں ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سرعام پھانسی دینے کے لیے رول کافی ہے یا پینل کوڈ میں ترمیم کی ضرورت ہے؟ کیا سرعام پھانسی دینے میں کوئی رکاوٹ ہے یا نہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ عوام کی جانب سے زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔

جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سرعام پھانسی دینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور سرعام پھانسی دے کر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب اکلاس کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے اجلاس کے شرکاء کو تجویز دی کہ کسی چوک چوراہے کی بجائے جیل کے اندر پھانسی دی جائے اور پھانسی کے مناظر میڈیا پر دکھائے جائیں۔

اجلاس میں تمام صوبوں کے ہوم سیکریٹریز بھی موجود تھے جہنوں نے ملزموں کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی۔

بلوچستان کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل نے اجلاس میں موقف اختیار کیا کہ ایک شخص کو سرعام پھانسی دیکر پورے معاشرے کو سزا نہیں دی جا سکتی جبکہ صوبوں نے موقف اختیار کیا کہ کسی ایک شخص کے لیے قانون سازی کی گئی تو اس کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

صوبوں کے نمائندوں کی جانب سے مزید کہا گیا کہ سرعام پھانسی دینے سے امن امان کی صورتحال خراب ہوگی جبکہ انہوں نے میڈیا پر سرعام پھانسی دینے کے مناظر دیکھانے کی اسلامی نظریاتی کونسل کی تجویز کو بھی مسترد کیا۔

بعد ازاں سرعام پھانسی دینے کے معاملے پر وزارت قانون نے اجلاس کے دوران موقف اختیار کیا کہ جذبات اپنی جگہ لیکن آئین سے متصادم اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔

وزارت قانون کا مزید کہنا تھا کہ سرعام پھانسی دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہوگا جبکہ سرعام پھانسی دینے میں عدالتی فیصلہ بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

بعد ازاں کمیٹی نے وزارت قانون سے اس معاملے پر ایک ہفتے میں تحریری طور پر جواب طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سرعام پھانسی دینے میں کیسے رکاوٹ بن سکتا ہے؟ اور بتایا جائے کہ سرعام پھانسی دینے کے لیے پینل کوڈ میں ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟

26 جنوری 2018 کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ مرتب کی جائے۔

اس سے قبل 24 جنوری 2018 کو چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سینیٹ میں زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی دینے کے لیے قانون سازی پر عدم اتفاق کے بعد سینیٹ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو داخلہ کمیٹی کی ترامیم کا جائزہ لے کر حتمی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اسی روز سابق وزیر داخلہ اور چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سینیٹر رحمٰن ملک نے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کرکے بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔

واضح رہے کہ کمیٹی نے ترمیم کریمنل لا 2018 کے نام سے بل میں اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 364-اے میں فوری طور پر ترمیم کرکے سرعام پھانسی کے الفاظ شامل کیے جائیں۔

قبل ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمٰن ملک نے کم سن بچوں کو اغوا کے بعد قتل کرنے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے کے بل کو ایوان میں زیر بحث لانے کی درخواست کی تھی۔

خیال رہے کہ یکم فروری 2018 کو قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراساں کرنے والے مجرمان کو عوامی سطح پر پھانسی دینے کے لیے قانون میں ترمیم کے معاملے کی مخالفت کی تھی، اس ترمیم کا معاملہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب امین کے ساتھ زیادتی اور قتل کے معاملے کے بعد سامنے آیا تھا۔
https://taghribnews.com/vdca0eneu49n6m1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ