تاریخ شائع کریں2018 18 February گھنٹہ 12:44
خبر کا کوڈ : 312843

اسرائیل دفاعی حصار میں بند ہونے پر مجبور

ایف سولہ طیارے کی سرنگونی نے اسرائیلی حکام میں ہلچل مچا دی ہے اور غاصب صہیونی رژیم بے سابقہ انداز میں دفاعی خول میں بند ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اگرچہ صہیونی حکام اسے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن ان کے رویے سے یہ حقیقت بخوبی عیاں ہے کہ خطے کی صورتحال ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے
اسرائیل دفاعی حصار میں بند ہونے پر مجبور
اسرائیلی روزنامے "یدیعوت احرونوٹ" کے مطابق اسرائیل آرمی اور وزارت جنگ نے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے اور اسے مزید مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ شام کے میزائل ڈیفنس سسٹم ایس 200 کے ذریعے ملک کی حدود میں داخل ہونے والے اسرائیلی جنگی طیارے ایف 16 کو مار گرائے جانے کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایف سولہ طیارے کی سرنگونی نے اسرائیلی حکام میں ہلچل مچا دی ہے اور غاصب صہیونی رژیم بے سابقہ انداز میں دفاعی خول میں بند ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے اسرائیلی ایف سولہ طیارے کی سرنگونی کے فوراً بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران تازہ ترین صورتحال پر بات چیت کی۔ 

اگرچہ امریکی وزیر خارجہ اور اسرائیلی وزیراعظم کے درمیان انجام پانے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا گیا لیکن اس کے نتائج سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بات چیت اسرائیلی ایف سولہ طیارے کی سرنگونی کے بارے میں ہی ہوئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسی واقعے کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ کے مشرق وسطی دورے سے تل ابیب کا نام کاٹ دیا گیا کیونکہ ماضی میں تمام امریکی اعلی سطحی عہدیداران کا دورہ مشرق وسطی اسرائیل کے دورے سے آغاز ہو کر اسرائیل کے دورے پر ہی اختتام پذیر ہوتا آیا ہے۔ امریکہ میں صہیونی رژیم کے سابق سفیر نے ریکس ٹلرسن کے اس فیصلے پر شدید اعتراض کیا ہے اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو امریکی وزیر خارجہ کی بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ 

اسی طرح امریکہ میں اسرائیل کے سابق سفیر نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو دھمکی آمیز لہجے میں خبردار کیا ہے کہ تل ابیب کا دورہ نہ کرنے سے ان کی حیثیت کو شدید نقصان پہنچے گا اور انہیں اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں صہیونی حکام کی جانب سے امریکی عہدیداروں کو ایسی دھمکیاں معمول بن چکی تھیں لیکن اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ دھمکی آمیز بیان انتہائی معنی خیز ہے اور ایک طرح سے اسرائیل اور ٹرمپ کے درمیان جاری ہنی مون کے اختتام کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ صہیونی حکام کا یہ رویہ درحقیقت امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان کا ردعمل ہو سکتا ہے جو شام میں اسرائیلی ایف سولہ طیارے کی سرنگونی کے بعد جاری کیا گیا اور اس میں امریکہ نے شام کی سرزمین پر اسرائیلی جارحیت میں کسی قسم کی مداخلت سے انکار کیا تھا۔ 

صہیونی حکام نے حالیہ بے سابقہ اور انتہائی دشوار حالات میں گوشہ نشینی کا احساس کرنے کے باوجود دھمکی آمیز لہجہ اپنا رکھا ہے اور اس ذلت آمیز شکست اور اسٹریٹجک ضرب کا ازالہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ کہ صہیونی رژیم کس قسم کی جوابی کاروائی انجام دے گی ہنوز واضح نہیں لیکن اسرائیلی جارحانہ اقدامات پر علاقائی اور عالمی سطح پر سامنے آنے والے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی ان کی جانب سے کسی قسم کے اقدام کا نتیجہ جنوبی شام میں ایف سولہ طیارے کی سرنگونی سے زیادہ مختلف نہیں نکلے گا۔ صہیونی حکام کی کوشش تھی کہ وہ شور شرابے اور پروپیگنڈے کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام اور اس کے اتحادیوں پر کاری ضرب لگا سکیں گے لیکن عمل کے میدان میں انہیں شکست اور خفت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ 

البتہ ماضی میں بھی اسرائیلی حکام ایسے اقدامات انجام دیتے آئے ہیں جن کا نتیجہ ان کے کیلئے ذلت اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ انہیں اقدامات کی ایک مثال لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کو جو شکست ہوئی وہ اس کی حیثیت ختم ہو جانے کا باعث بنی۔ اسرائیلی فوج کی افسانوی طاقت کی داستانیں ختم ہو کر رہ گئیں۔ اسرائیلی فوج کے ماہر ترین دستے جو "گولانی بریگیڈ" کے نام سے مشہور ہیں بھی ذلیل و خوار ہو گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر چلی گئی۔ لہذا مستقبل میں بھی اسرائیل کی ہر شرارت کا جواب اسلامی مزاحمتی بلاک کی طرف سے فوراً اور طوفانی انداز میں دیا جائے گا۔ 

اگرچہ صہیونی حکام اسے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن ان کے رویے سے یہ حقیقت بخوبی عیاں ہے کہ خطے کی صورتحال ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور روز بروز ان کے نقصان میں آگے بڑھ رہی ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب سے اپنے جارحانہ اقدامات کے ازالے کیلئے انجام پانے والے ممکنہ جوابی اقدامات سے شدید خوفزدہ ہے۔ اسرائیل کے حالیہ دفاعی اقدامات اس کی تاریخ میں بے مثال ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے شام حکومت کی جانب سے جوابی ردعمل کی توقع نہیں تھی اور اسے ایف سولہ طیارے کی سرنگونی سے شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ صہیونی حکام کو جان لینا چاہئے کہ اب انہیں اونچی سمینٹ کی دیواریں اور "فولادی گنبد" نامی میزائل ڈیفنس سسٹم بھی اسلامی مزاحمتی بلاک کی کاری ضربوں سے محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔

تحریر: احمد افضلی
https://taghribnews.com/vdcayunee49n6a1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ