تاریخ شائع کریں2018 26 January گھنٹہ 15:27
خبر کا کوڈ : 308136

فلسطین تا قیامت مسلمانوں کا مرکز رہے گا

فلسطین تا قیامت مسلمانوں کا مرکز رہے گا
مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کے متعلق امریکی صدر ٹرمپ نے مورخہ6دسمبر کو ایک اعلان اور فیصلہ سناتے ہوئے القدس کو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اس حوالے سے ضروری امر یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی معاشروں میں موجود با شعور افراد اور دانشور لوگ اس اعلان کی بابت پیدا شدہ خطرات اور مستقبل میں القدس یعنی یروشلم شہر اور فلسطین کے مستقبل کے بارے میں پیدا ہونے والے سنگین خطرات سے متعلق اپنے معاشروں کو آگاہی فراہم کریں اور امریکا کہ منفی ہتھکنڈوں کی بدولت دنیا میں پھیلنے والے انارکی کا راستہ روکنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔

گذشتہ چند سالوں میں امریکی سیاست کو جس بری طرح ناکامیوں کا سامنا رہا ہے شاید تاریخ میں اس سے پہلے نہ رہا ہو گا لہذا اب ہر صورت امریکا اسرائیل کی خوشنودی اور اس کے تحفظ کی خاطر اپنے ان تمام ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے جو کبھی امریکا کہ جانب سے داعش کو بنا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک کی سرحدی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ان ممالک میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر کے انجام دینے کی کوشش کی گئی، بہر حال شام، لبنان، عراق، ایران، پاکستان، افغانستان سمیت متعدد مقامات پر امریکی منصوبے خاک ہو چکے ہیں تاہم ایسے وقت میں القدس کے لئے ایسا اعلان کرنا کہ القدس غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت ہو گا یقیناًیہ اعلان اپنے اندر خطر ناک عزائم سامنے رکھتا ہے جو کہ نہ صرف فلسطین و القدس تک محدود ہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کے لئے سنگین خطرات ہیں۔ان خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلم دنیا کو شیعہ و سنی کے جھگڑے میں تقسیم کر کے رکھا جائے تا کہ مسلم دنیا کبھی بھی متحد نہ ہونے پائے اوراس کام کے لئے امریکا و اسرائیل نے کئی ایک عرب ممالک کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور ان سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ امریکا ان ممالک کی سلامتی کا ضامن ہے۔

معروف سیاسی رہنما پروفیسر خورشید احمد نے اس عنوان سے لکھا ہے کہ نئے صہیونی منصوبے کے مطابق شرق اوسط میں سْنی اور شیعہ تصادم کا فروغ ،اسرائیلی اور سْنی اسلام کا متحدہ محاذ ،فلسطین کی آزادریاست کے تصور کو دفن کرکے بیت المقدس کو اسرائیل کا مستقل دارالحکومت بنانا اور فلسطینیوں کے لیے ایک ایسی بے معنی ضمنی ریاست کا قیام جو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں پر مشتمل ہو،جس کی کوئی مستقل فوج نہ ہو ، جس کا دارالحکومت بیت المقدس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ابودیس ہو ،اور جو ایسی کٹی پھٹی ،لولی لنگڑی اور کمزور (نام نہاد)ریاست ہو۔جو معاشی طور پر کبھی خود کفیل نہ ہوسکے اور جو ہمیشہ مالی اعتبار سے امریکا اور چند دوسرے ممالک پر منحصر رہے۔اس شیطانی عمل کے لئے امریکہ اور اسرائیل نے جو لائحہ عمل بنایا ہے اور امریکی اخبارات کے مطابق جس کے سلسلے میں کچھ عرب ممالک کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے ،اسے2018 کے شروع میں ارض فلسطین پر مسلط کرنے کا پروگرام ہے۔(بحوالہ ترجمان القرآن، جنوری 2018)۔

یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ القدس یہودیوں کا تین ہزار سال سے دارلحکومت رہا ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ القدس تین ہزار تو دو ہزار سال قبل بھی بنی اسرائیل کے دارلحکومت کے طور پر یا پھر ان کے اقتدار میں نہیں رہا ۔القدس ہمیشہ سے ہی فلسطین کا دارلحکومت رہا ہے یعنی القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت رہا ہے اور آج بھی ہے ۔

القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے ا س عنوان سے خود فلسطین میں موجود عیسائی روحانی پیشوا عطاء اللہ حنا نے خوب انداز میں صیہونیوں کو منہ توڑ جواب دے دیا ہے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہم فلسطینی مسیحی کا استعمال کر کے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی اور ایسے یہودی بھی آباد تھے کہ جو صیہونزم کے پیرو کار اور حامی نہ تھے جبکہ پہلی جنگ عظیم سے صیہونیوں کی تنظیم اور ایجنسی نے امریکا اور برطانیہ کی مدد سے دنیا بھر کے صیہونیوں کو فلسطین لا کر آباد کرنا شروع کیا اور سنہ1948ء میں غاصب او جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔فلسطین کے بشپ عطاء اللہ حنا نے صاف الفاظ میں امریکی صدر کے القدس سے متعلق اعلان اور فیصلہ کی مذمت کر کے بتا دیا ہے کہ القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے اور رہے گا۔

دوسری جانب افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم دنیا بالعموم اور عرب دنیا بلخصوص امریکی صدر کے اعلان کے بعد کھل کر کوئی موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی گواہی خود مسجد اقصیٰ کے خطیب اعظم شیخ عکرمہ صابری دے چکے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ قبلہ اول کو یہودیانے کی اسرائیلی سازشوں اور امریکی اقدامات کے ذمہ دار عرب ممالک ہیں۔ عرب دنیا نے قبلہ اول کے دفاع اور القدس کی آزادی کے لیے اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا نہیں جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم اور پوری مسلم امہ کو آج یہ دن دیکھنا پڑے ہیں.

یقیناً یہ بات حقیقیت ہے کہ جس قدر امریکی صدر کا بیان خطر ناک ہے اس قدر عرب دنیا اور مسلم دنیا سے رد عمل نہیں آیا ہے۔ عرب ممالک کا رد عمل انتہائی ڈھیلا اور بے معنی ہے۔عرب ممالک کے حکمران مسلمانوں کے پہلے قبلہ اورتیسرے حرم کے حوالے سے بہت بڑی غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کے مستقبل میں خطر ناک نتائج برآمد ہوں گے اور ان عرب حکمرانوں کو بادشاہتیں اور تخت و تاج بھی باقی نہیں رہے گا۔جیسا کہ مقالہ کے آغاز میں بیان ہو اہے کہ القدس سے کبھی بھی یہودیوں کا کوئی تاریخی تعلق نہیں رہا ۔ پوری تاریخ گواہ ہے کہ بیت المقدس کے ساتھ اور القدس شہر ہمیشہ مسلمانوں کا گہوارہ رہا ہے۔عرب دنیا کے حکمرانوں بلخصوص او آئی سی میں یہ کہنا ہے کہ مشرقی القدس فلسطین کا حصہ بنا لیا جائے شرمناک اور قابل مذمت ہے،القدس کی مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم براہ راست صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کی تکمیل کا ایک طریقہ ہے.

مسجد اقصیٰ کے خطیب اعظم شیخ عکرمہ صابری نے یہ بھی کہا ہے کہ قضیہ فلسطین تا قیامت مسلمانوں کا مرکز رہے گا اور یہ آج بھی صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا160 مسئلہ ہے۔ اگر کروڑوں برس بھی بیت جاتے ہیں تب بھی القدس کی اسلامی اور عرب حیثیت کوختم نہیں کیا جاسکتا۔ القدس فلسطینی قوم کا محاذ جنگ ہے اور ہم یہ محاذ نہیں چھوڑیں گے۔ القدس اور الاقصیٰ ہمارے تھے اور ہمارے ہی رہیں گے.

خلاصہ یہ ہے کہ القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے اور پوری مسلم دنیا اور بلخصوص خطے میں موجود عرب دنیا کو چاہئیے کہ اسرائیلی کاسہ لیسی چھوڑ کر یمن اور دوسرے ممالک پر جنگیں مسلط کرنے کے بجائے القدس کی حرمت اور تقدس کی خاطر اقدامات کریں، القدس مکہ اور مدینہ کا حصہ ہے۔ القدس سے رو گردانی حرمین شریفین سے روگردانی کے مترادف ہے۔ القدس کولاحق خطرات مکہ اور مدینہ کو درپیش خطرات کے مترادف ہیں۔ ہمیں القدس کا دفاع مکہ اور مدینہ کی طرح کرنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے منحوس اقدام نے مسلمان اور عیسائی برادری کو باہم متحد کردیا ہے۔ عالم اسلام اور عیسائی دنیا کے سامنے القدس کے تاریخی اسٹیٹس کا دفاع ایک بڑا چیلنج ہے اور ہم160 سب کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے ۔القدس کے تقدس اور تحفظ کے لئے فلسطینی قوم کے نوجوانوں اور خواتین نے قبلہ اول کا بھرپور دفاع کیا ہے اور کر رہے ہیں ۔آج بھی فلسطین کی بہادر بیٹیاں عرب اورمسلمانوں کی جانب سے قبلہ اول کا دفاع کررہی ہیں۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ القدس ہی فلسطین کا ابدی دارلحکومت ہے ، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اکائیاں متحد ہو جائیں اور ایک آواز ہو کر القدس فلسطین کا ابدی دارلحکومت کی صدا بلند کر دیں ، یقیناًامریکی ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائے گا.
https://taghribnews.com/vdcaeanei49nw61.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ