تاریخ شائع کریں2018 21 January گھنٹہ 12:43
خبر کا کوڈ : 306989

سپریم کورٹ کا سانحہ قصور کیس پر عدم اطمئنان کا اظہار

سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی، تاہم عدالت نے کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا
سپریم کورٹ کا سانحہ قصور کیس پر عدم اطمئنان کا اظہار
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں زینب قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ محمد ادریس نے عدالت میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی، تاہم عدالت نے کیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران زینب کے چچا اور ریپ کے بعد قتل کیے گئے دیگر بچوں اور بچیوں کے والدین بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم نے عدالت بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا، جب زینب شام 7 بجے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے نکلی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ زینب اپنی خالہ کے گھر قرآن پڑھنے جاتی تھی، جو 300 میٹر کی دوری پر ہے، کمیٹی نے بتایا کہ زینب کا بھائی عثمان اسکے ساتھ جاتا تھا لیکن جس دن واقعہ پیش آیا وہ ساتھ نہیں تھا۔

تحقیقاتی ٹیم نے بتایا کہ جب زینب گھر واپس نہیں پہنچی تو اسکے گھر والوں نے تلاش شروع کردی اور 9 بج کر 30 منٹ پر پولیس کو 15 کے ذریعے اطلاع دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ جون 2015 سے اب تک 8 واقعات پیش آئے اور یہ واقعات تینوں تھانوں کی حدود میں پیش آئے اور ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے، جس کا ڈی این اے ملا ہے جبکہ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دو تھانوں کی حدود میں اتنے واقعات ہوئے، پولیس کیا کر رہی تھی؟ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے، سنا ہے کہ لوگوں کی شکایات کے باوجود اس کو ہٹایا نہیں گیا۔

سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ ہم نے 800 کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کیے، جس میں سے 8 ڈی این اے ٹیسٹ میچ ہوئے ہیں۔

جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں، پولیس کے پاس تفتیش کے مزید روایتی طریقے بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو پولیس کر رہی ہے ،اس طرح تو 21 کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔

سماعت کے دوران جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بھی تفتیش کرے، ہم جانتے ہیں کہ پولیس اپنا روایتی طریقہ استعمال کرے تو ملزم تک پہنچا جاسکتا ہے۔

از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا ہے، اگر پولیس 2015 میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج 8 بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ زیادتی کے 8 مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بھی تفتیش کی جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے زینب کے لواحقین سے استفسار کیا کہ آپ کو اگر کسی قسم کی شکایات ہیں تو بتائیں؟

جس پر لواحقین نے عدالت میں بیان دیا کہ جے آئی ٹی تسلی بخش کام کررہی ہے، ہم دعا گو ہیں کہ یہ جلد کامیاب ہوجائیں۔

بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت کے لیے جی آئی ٹی اور دیگر فریقین کو چیمبر میں طلب کرلیا۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں چلنے والے زینب قتل کیس کی سماعت کو روکنے کی ہدایت کی تھی اور تمام تحقیقاتی ٹیموں کو سپریم کورٹ طلب کرلیا تھیں۔

خیال رہے کہ قصور میں 6 سالہ بچی زینب کے قتل پر پہلے لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا، تاہم اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ پر نوٹس لیا اور 15 جنوری کو کیس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سمیت جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔

جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی سے زیادتی کی تصدیق ہوئی تھی۔
https://taghribnews.com/vdcevp8xojh87oi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ