تاریخ شائع کریں2018 12 January گھنٹہ 12:18
خبر کا کوڈ : 305036

پاکستان امریکہ سے تعلقات توڑنا نہیں چاہتا

ایران پر سخت ترین یا مفلوج کر دینے والی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے انقلابی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا
بعض اقتصادی ماہرین اور کاروباری حضرات نے مجھے بتایا ہے کہ اگلے چند ماہ میں پاکستان کے پاس قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بچا نہیں ہے
پاکستان امریکہ سے تعلقات توڑنا نہیں چاہتا
بغیر کسی تمہید کے عرض خدمت کہ پاکستان کے حکمران اور دیگر طاقتور اداروں کے طاقتور مسئولین امریکہ سے تعلقات ختم کرنا نہیں چاہتے۔ اب تک جو کچھ کیا ہے، وہ امریکہ نے ہی کیا ہے، یکطرفہ کیا ہے اور پہلی مرتبہ نہیں کیا ہے؟ امریکہ کی خارجہ پالیسی برائے ایران و پاکستان، مشرق وسطٰی میں قیام پاکستان کے بعد سے اور انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے وہی ہے جو ماضی میں تھی۔ امریکہ کو پاکستان کی یاد صرف اس وقت آئی، جب مشرق وسطٰی کے تیل پر اسکو اپنی گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آئی یا کوریا اور افغانستان کی جنگوں میں کمیونسٹ سوویت یونین اور اس کے حامیوں کے خلاف امریکی بلاک کو شکست کا خطرہ لاحق ہوا۔ امریکیوں کی جانب سے پاکستان کی توہین و تذلیل کا سلسلہ بھی نیا نہیں ہے اور سب سے اہم یہ کہ پاکستانی قوم بھی قیام پاکستان سے مستقل مزاج ہے اور اس کی امریکہ کے خلاف رائے آج تک تبدیل نہیں ہوئی۔(1) یہ پاکستان امریکی تعلقات کی اس تاریخ کا نچوڑ ہے، جو دستاویزات سمیت محفوظ کی جاچکی ہے۔ امریکہ مخالف پاکستانی قوم کے جذبات قابل قدر ہیں۔ پاکستانیوں نے عوامی عدالت لگا کر فیصلہ سنا دیا کہ امریکہ سے جان چھڑا لی جائے، لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ عوامی امنگوں کے برخلاف امریکہ کو بھارت کی طرح دشمن ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکی حکومت نے پاکستان کی سلامتی کے شعبے کی امداد معطل کر دی ہے، پاکستان پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ ماضی کی طرح لیکن نئے الفاظ کے چناؤ کے ساتھ پاکستان کو لالچ دی ہے کہ امریکہ کا ساتھ دو گے تو فائدے میں رہو گے، ساتھ نہیں دو گے تو قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی برائے جنوبی ایشیاء ہو یا قومی سلامتی کی حکمت عملی، دونوں میں امریکہ کا یہی رسمی پیغام دستاویزی شکل میں تاریخ نے محفوظ کر لیا ہے۔(2)

وزارت خارجہ کی سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ صاحبہ امریکہ کو بالاتر طاقت (سپر پاور) سمجھ کر دفاعی، دھیمے اور محتاط لب و لہجہ میں بات کر رہی ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی کوئی موثر جواب نہیں دیا گیا۔ یکم جنوری کو نوائے وقت سمیت اردو اخبارات میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کا یہ بیان نظر آیا کہ ٹرمپ نے غلط بیانی کی، پائی پائی کا سرعام حساب دینے کو تیار ہیں! پاکستان کے سفیر برائے امریکہ اعزاز احمد چوہدری اسلام آباد آکر نئی ہدایات لے کر واشنگٹن جاچکے ہیں۔(3) جہاں پیر کے روز امریکہ سے مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے، جو جمعرات تک جاری رہیں گے۔ سفیر محترم نے دو اہم انکشافات کئے ہیں کہ وہ ایک منصوبہ لے کر واشنگٹن جا رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ امریکی حکومت نے تحریری طور پاکستانی حکومت سے کوئی باضابطہ مطالبہ نہیں کیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ترجمان کی رائے یہ ہے کہ پاکستان جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے، یا باالفاظ دیگر امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ذمے جو کام لگائے گئے ہیں، انہیں پاکستان اچھی طرح جانتا ہے۔(4) وزیر دفاع خرم دستگیر نے اسلام آباد میں ایک سپاہ دانش (تھنک ٹینک) سے خطاب کرتے ہوئے منگل (نو جنوری) کو جو گفتگو کی، پاکستان کے بعض انگریزی اخبارات نے اس کی جو خبر دی، اس کے مطابق پاکستان نے امریکہ سے فوجی اور جاسوسی تعاون کا جاری سلسلہ معطل کر دیا ہے۔(5) جبکہ آج ٹی وی چینل نے منگل کی شب جو خبر نشر کی تھی، اس کے مطابق وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان میں موجود امریکی و اتحادی افواج کی براستہ پاکستان غذائی اور دیگر ساز و سامان کی ترسیل کو روکنے کا اختیار پاکستان کو حاصل ہے اور وقت آنے پر اس اختیار کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرض کر لیں کہ یہ خبر کہ فوجی و جاسوسی تعاون کا سلسلہ معطل کر دیا ہے، اگر یہ کہا بھی ہے تو بھی اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے اسکی تردید ان الفاظ میں کی ہے کہ پاکستانی حکومت سے انہیں (یا امریکی حکومت کو) تحریری طور پر پاکستان نے ایسی کوئی اطلاع نہیں دی کہ یہ تعاون ختم کر دیا گیا ہے۔(6) ظاہر ہے کہ جو تعاون رسمی سطح پر طے کیا جاتا ہے، اسے ختم کرنے کے لئے بھی رسمی طریقہ اپنایا جاتا ہے اور تحریری طور پر مطلع کیا جاتا ہے جبکہ ایسا تاحال نہیں ہوا۔ وزیر بندرگاہ و بحری تجارت میر حاصل بزنجو کے مطابق امریکہ و نیٹو اتحادی افواج ریزولوٹ سپورٹ فورس نے تجویز دی ہے کہ انکو افغانستان میں ساز و سامان و دیگر اشیاء کی فراہمی کے لئے کراچی کی بجائے گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کیا جائے، کیونکہ یہ افغانستان سے زیادہ قریب ہے۔(وائس آف امریکہ، 10 جنوری کی خبر)

اسکا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں اور با وردی مسئولین امریکہ کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ انکی سوچ یہ ہے کہ ہم امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ طول تاریخ میں انکا جھکاؤ مغربی بلاک کی طرف ہی رہا ہے اور خارجہ امور کے بہت سے اہم فیصلے اسی ذہنیت کا شاخسانہ تھے۔ پاکستان کی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے لاحق رہا، لیکن امریکہ سمیت پورا مغربی بلاک حتٰی کہ سعودی عرب بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو سلامتی کی رسمی ضمانت (بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی) دینے کے لئے طول تاریخ میں کبھی بھی آمادہ نہیں ہوا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت مغربی بلاک یا سعودی عرب کے بھارت کی طرف جھکاؤ کے باوجود پاکستان کے فیصلہ ساز ادارے اور شخصیات بھارت کے جارحانہ عزائم اور کشمیر پر اس کے ناجائز قبضے کے خلاف اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کم از کم ان دو معاملات پر پاکستان نے فولادی عزم کا مظاہرہ کیا گو کہ بھارت کے ساتھ روابط کو یکسر منقطع بھی نہیں کیا گیا اور جنگ بندی کے معاہدے بھی پاکستان نبھا رہا ہے۔(پاکستان بھارت دو طرفہ تعلقات الگ موضوع ہے، لیکن پاکستان امریکہ تعلقات سے بھی اس کا ایک ربط ہے)۔ پاکستان اپنی مخصوص پالیسی برائے بھارت و مقبوضہ کشمیر پر امریکہ کو اپنے حق میں رام کرنے میں ناکامی کے باوجود امریکہ کے ’’دوست‘‘ اور ’’اتحادی‘‘ کی حیثیت سے امریکہ کے کام آتا رہا، اس کو فائدے پہنچاتا رہا اور ایسی ایسی خدمات انجام دیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں شاید ہی اس کی نظیر مل سکے! پاکستان کی فیصلہ ساز مقتدر شخصیات نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کرنے والے بھارت کو امریکہ کے کہنے پر رعایتیں بھی دیں، جیسا کہ ورلڈ بینک کے قرضے کے لئے پنجاب کے دریاؤں کا پانی بھارت کو دینے کا معاہدہ، اسی لئے اس کی اتنی ہمت بڑھی کہ اس نے پاکستان کو توڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتے وقت ذرا بھی تامل نہ کیا۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات نہ توڑنے کا اہم ترین سبب اقتصادی ہے۔ پاکستان کی آمدنی کم ہے اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان پر بیرونی قرضہ 85 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے(7) جبکہ ہر سال قرضے کی قسط کی اصل رقم اور اس پر ربا (سود) ادا کرنا پڑتا ہے، یعنی پورے مالی سال کے حساب سے سالانہ پانچ ارب ڈالر قرض کی سود سمیت قسط کی ادائیگی۔(8) پرانے قرض کی ادائیگی کے لئے نیا قرض لینا پڑتا ہے، کیونکہ پاکستان کے اخراجات اس کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اخراجات کی ایک بڑی وجہ درآمدات ہیں، یعنی دوسرے ممالک سے مختلف اشیاء یا ساز و سامان پاکستان خرید کر لاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان جو دیگر ممالک کو فروخت کرتا ہے، یعنی برآمدات، وہ درآمدات سے کہیں کم ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارتی عدم توازن ہے، کیونکہ پاکستان امریکی مصنوعات کا بڑا خریدار ہے، البتہ تجارتی حجم کوئی زیادہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی سال 2016ء میں امریکہ کو برآمدات تقریباً 2.107 ارب ڈالر یعنی دو ارب دس کروڑ پچھتر لاکھ ڈالر، لیکن جو امریکی مصنوعات خریدیں یعنی درآمدات اس کی مالیت تین ارب چوالیس کروڑ چھتیس لاکھ ڈالر تھی، یوں ایک ارب تینتیس کروڑ اکسٹھ لاکھ ڈالر کا عدم توازن تھا۔ 2017ء کے گیارہ مہینوں کے اعداد و شمار بھی درج ذیل لنک میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔(9) امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیل زر بھی دو ارب دس کروڑ ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ لیکن پاکستان کی آمدنی کم اخراجات زیادہ ہیں، سالانہ مالی بجٹ خسارے کا شکار ہے۔ نواز شریف اور شاہد خاقان کی نون لیگی حکومت کے لحاظ سے دیکھیں تو 2013ء میں بیرونی قرض اکسٹھ ارب ڈالر تھا، یعنی اب تک نون لیگی حکومت کے دور میں بیرونی قرض کی مد میں چوبیس ارب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔

بعض اقتصادی ماہرین اور کاروباری حضرات نے مجھے بتایا ہے کہ اگلے چند ماہ میں پاکستان کے پاس قرض لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بچا نہیں ہے ۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف، عالمی بینک ہو یا پھر ایشیائی ترقیاتی بینک، امریکہ براہ راست یا پس پردہ وہاں خود فیصلہ ساز ملک ہے یا پھر فیصلہ سازی پر اثر انداز ملک۔ یعنی امریکہ اگر مخالفت کر دے تو یہ بڑے مالیاتی ادارے قرض نہیں دیں گے۔ اس نوعیت کا قرض جو پاکستان کو درکار ہے، یہ آئی ایم ایف دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرض کی قسط اتارنے کی مد میں چین، سعودی عرب سمیت کوئی ملک پاکستان کی مدد کرے گا۔؟ اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر یہ مالی مدد کریں گے بھی تو کس قیمت پر؟ یقیناً جو بھی ملک مالی مدد کرے گا، اس کی بھی اپنی شرائط ہوں گی اور تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر سعودی عرب کے ذریعے کوئی بھی مالی مدد ملتی ہے تو اس کے مضر اثرات نسلوں تک بھگتے جاتے ہیں۔ اصل میں اس اقتصادی بدحالی کا ایک سبب خارجی ہے اور وہ ہے عالمی مالیاتی نظام، ادارے اور قوانین جو کہ صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، لیکن یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر مفصل بعد میں کبھی لکھا جاسکتا ہے بشرطیکہ قارئین کو اس میں دلچسپی ہو۔ داخلی سطح پر کہیں تو پاکستان کو مالی سادگی اور مالیاتی امور میں نظم و ضبط کی شروع سے ضرورت رہی ہے، پاکستان میں مالی بدعنوانیوں اور شاہ خرچیوں کو ختم کر دیا جائے، ملک کی دولت لوٹنے والے بدعنوان افراد سے لوٹا ہوا مال واپس لیا جائے، بااثر افراد کے بڑے بڑے قرضے معاف نہ کئے جائیں تو پاکستان اربوں ڈالر بچا سکتا ہے۔ خود امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان سے سالانہ دس ارب ڈالر غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجے جاتے ہیں، تاجر اور کرنسی مافیا یہ کام کرتے ہیں۔(10) وجہ صرف یہ ہے کہ انہیں ملک کے نظام، اداروں اور قوانین پر اعتماد نہیں ہے، وہ اپنے ہی ملک میں اپنی کمائی کو محفوظ نہیں سمجھتے اور دوسرا طبقہ وہ ہے، جس نے بدعنوانی سے مال بنایا ہے۔ حاصل مطلب یہ کہ پاکستان کی حکومت مجبور ہے کہ دگرگوں اقتصادی صورتحال اور ممکنہ قرضے کے پیش نظر امریکہ سے تعلقات خراب نہ کرے۔

اس معاملے میں پاکستان ایران اور دوسرے ممالک سے رہنمائی لے سکتا ہے۔ ایران پر سخت ترین یا مفلوج کر دینے والی پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے انقلابی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جنوب مشرقی ایشیاء کی بعض ریاستوں نے یہ نعرہ لگا کر معیشت کو کھڑا کیا کہ برآمدات یا موت! یعنی آمدنی کے لئے ایسی چیزیں بنائیں یا اگائیں کہ جو دیگر ممالک کو فروخت کرکے اپنی زندگی سنواریں، ورنہ موت کو گلے لگالیں۔ لیکن یہ راستہ ایک طویل المدت منصوبہ بندی کا متقاضی ہے اور پاکستان کی ترجیحات میں طویل عرصے سے اس سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ مختصر مدت کی منصوبہ بندی میں تو غیر ملکی یا بین الاقوامی اداروں کے قرضے پر انحصار ناگزیر ہے۔ پاکستان کو متبادل طویل المدت راستے پر ضرور چلنا ہوگا، ورنہ جب تک قرض کے لئے ہاتھ پھیلائیں گے، توہین و تذلیل کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ دوسرے ملکوں سے قرض لینے کا مطلب ہے کہ اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ اور پھر ہمیں ڈکٹیشن لینے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔(11) میری رائے میں پاکستانی قیادت کے اشاروں (سگنلز) سے بہت سوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ پاکستان کسی نئے راستے پر چل پڑا ہے اور امریکہ سے جان چھڑا رہا ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ایران کے بعد بہت سے حلقے بہت زیادہ پرامید ہیں کہ پاکستان کسی نئے علاقائی بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ مجھے ایسا نہیں لگ رہا، کیونکہ روس سے تعلقات اچھے کرنے کے لئے سابق صدر آصف زرداری اور سابق سپہ سالار جرنیل اشفاق پرویز کیانی کے دور سے ہی کام چل رہا ہے، لیکن دونوں ملکوں کے مابین قربتیں اور ٹھوس تعاون تاحال نظر نہیں آرہا۔

ایران کے حوالے سے میں صرف ایک مثال دوں گا کہ پچھلے دنوں وزارت تجارت میں ایک بین الوزارتی اجلاس میں پاکستان کے مرکزی بینک کے نمائندے نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان کے بینکوں نے ایرانی بینکوں کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، کیونکہ سبھی کو خدشہ ہے کہ امریکہ ان پر بھی پابندی لگا دے گا۔(12) پاکستان ایران سے زمینی تجارت کرنا چاہتا ہے، لیکن تجارتی سودوں یا خرید و فروخت میں رقوم کی ادائیگی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، کیونکہ ایران اور پاکستان میں رسمی بینکنگ رابطہ موجود نہیں۔ اس ضمن میں پاکستان اور ایران کے مرکزی بینکوں کے مابین مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور رسمی اتفاق ہوچکا تھا، لیکن آخری نتیجہ کیا نکلاہے! امریکہ کا خوف پاکستان کے متعلقہ حکام اور اداروں کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔ یہاں مجھے سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا یہ تاریخی جملہ یاد آرہا ہے، نامور پاکستانی بیوروکریٹ روئیداد خان نے مختلف صدور کے ادوار حکومت میں اپنے تجربات و مشاہدات پر مشتمل کتاب میں لکھا ہے کہ تاریخ کسی انسان کی فتوحات اور شکستوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے نتائج کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے۔(13) پاکستانی قیادت تو اپنے ہی بینکوں سے مطلوبہ تعاون حاصل نہیں کر پا رہی تو ایران کے خلاف امریکہ کا دباؤ کیسے برداشت کرسکتی ہے۔

امریکہ کے حامی یا امریکہ کو قابل اعتماد سمجھنے والے یا امریکہ سے خوف کھانے والے پاکستانیوں کے لئے پاکستان کے معروف سابق قانون دان، قانون ساز، سفارتکار ، وزیر خارجہ و وزیراعظم فیروز خان نون مرحوم کے بین الاقوامی سفارتکاری کے بارے میں یہ جملے پیش خدمت ہیں: ’’آج بھی بعض ایسے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جو آپ پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کو فریب دینا سفارتکاری میں عظیم کامیابی کا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے بعض پہلوؤں سے بین الاقوامی سفارتکاری کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ذریعے سے کامیابی حاصل کی جائے۔"(14) یہ 1938ء کے حالات کے بارے میں لکھا ہے، لیکن آج بھی امریکی سفارتکاری اور فریب کاری میں کوئی فرق نہیں۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کے مطابق انکا محکمہ پاکستان کی فوجی قیادت سے رابطے میں ہے۔(15) پاکستان کی قیادت جس کا انحصار بیرونی اور اندرونی قرضوں پر رہتا ہے، اس کا موقف یہ ہے کہ امریکہ مطلب کی بات کرے، کام بتائے، طعنے نہ دے، بے عزت نہ کرے۔ یہ کوئی اتنا بڑا مطالبہ نہیں ہے کہ امریکہ پورا نہ کرے! آپشن تو پاکستان اور امریکہ دونوں کے پاس ہی بہت سارے ہیں، لیکن دونوں کے تعلقات پر ایک پرانی اردو کہاوت صادق آتی ہے: کانی من بھائے نہ کانی بن چین آئے نا!(نوٹ: اس ناچیز نے پاکستان امریکہ تعلقات پر ایک تازہ نظر جولائی 2016ء میں دو قسطوں پر مشتمل مختصر تاریخی جائزہ اور وقتاً فوقتاً بعض مقالے لکھے ہیں۔ ان تعلقات کی تاریخ کے دلچسپ پہلو ہیں، ان میں ایران، چین روس فیکٹر کے تناظر میں بھی تاریخی واقعات ہیں۔ اگر قارئین چاہیں گے تو ان دیگر عوامل کے حوالے سے بھی لکھا جاسکتا ہے، لیکن تلخ تجربہ یہ ہے کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات دو طرفہ اور برابری کی بنیاد پر کبھی نہیں رہے۔)۔

ریفرنس:
1۔ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے پیش نظر امریکی دفتر خارجہ نے جو بریفنگ مواد صدر ٹرومن کے لئے وائٹ ہاؤس بھیجا، اس میں لکھا تھا کہ پاکستانی عوام مغربی ممالک کو سامراجی سمجھتے ہیں، امریکہ کی فلسطین پالیسی کے خلاف احتجاج اور تنقید کرتے ہیں، جبکہ کشمیر تنازعے پر بھارت کی طرف امریکی جھکاؤ اور بہت زیادہ نرمی پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ تفصیلات کے لئے امریکی سفارتکار ڈینس ککس کی کتاب امریکا و پاکستان 1947ء تا 2000ء: ناخوش (غیر مطمئن) اتحادی کا باب دوم پڑھئے۔
2۔Remarks by President Trump on the Strategy in Afghanistan and South Asia August 21, 2017
https://www.whitehouse.gov/wp-content/uploads/2017/12/NSS-Final-12-18-2017-0905.pdf
Pentagon still in touch with Pakistani military: Mattis
3۔ آج ٹی وی پر اعزاز احمد چوہدری صاحب کا شوکت پراچہ کے پروگرام روبرو میں انٹرویو 
4۔ Pentagon Spokesman: U.S. Wants Pakistan to Take 145Decisive Action146 Against Terrorism
https://www.defense.gov/News/Article/Article/1410401/pentagon-spokesman-us-wants-pakistan-to-take-decisive-action-against-terrorism/
5۔ Pakistan has suspended military and intelligence cooperation with US: defence minister Updated January 09, 2018
6۔ US Denies Pakistani Claims of Suspension of Military or Intel January 09, 2018 Voice of America
Cooperationhttps://www.voanews.com/a/us-denies-pakistani-claims-of-suspension-of-military-or-intel-cooperation/4199584.html?utm_source=dlvr.it&utm_medium=twitter 
7۔ Pakistan Total External Debt https://tradingeconomics.com/pakistan/external-debt 
8۔ Pakistan pays $4.8b in external debt servicing 
https://tribune.com.pk/story/1461897/pakistan-pays-4-8b-external-debt-servicing/
$5.3 billion paid in debt servicing in 2015-16 https://www.dawn.com/news/1279998 
9۔ Trade in Goods with Pakistan https://www.census.gov/foreign-trade/balance/c5350.html
10۔ Pakistan loses $10bn a year to money laundering https://www.dawn.com/news/1318697
11۔ 145Foreign loans compromise sovereignty,' says Rabbani https://www.dawn.com/news/1379075
12۔ Pakistani banks146 prudent approach: Iran will have to make do with barter option 
JAN 9TH, 2018 Business Recorder
13۔ Pakistan - a Dream Gone Sour by Roedad Khan 
14۔ From Memory by Firoz Khan Noon 
15۔ Pentagon still in touch with Pakistani military: Mattis Updated January 07, 2018  
https://www.dawn.com/news/1381361/pentagon-still-in-touch-with-pakistani-military-mattis

تحریر: عرفان علی
https://taghribnews.com/vdcgwn9w3ak9zz4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ