تاریخ شائع کریں2018 8 January گھنٹہ 12:10
خبر کا کوڈ : 304140

بھارت میں تین طلاق جرم/ سزا تین سال ہوگی/ مسلم حلقوں میں بے چینی کی شدید لہر

اب جبکہ مجوزہ بل قانون بننے جا رہا ہے، اس مسئلے کو ہندوستان کے دستور اور قانون کی روشنی میں ہی دیکھنا ہوگا
اگر بھارتی قائدین بر وقت فہم و فراست سے کام نہ لیتے تو وہ اپنے امتحان میں انتہائی ناکام ہوتے، ساتھ ان کے سیاسی شعور کا کھلا مذاق بھی اڑایا جاتا اور ’’مسلم پرسنل لاء‘‘ میں مداخلت کی ایک بھدی مثال قائم ہو جاتی، جو کہ ایک جمہوری ملک کے ماتھے پر بھی ایک اور بدنما داغ ہوتا
بھارت میں تین طلاق جرم/ سزا تین سال ہوگی/ مسلم حلقوں میں بے چینی کی شدید لہر
بھاجپا حکومت نے جب سے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرنے جا رہی ہے، جس کے بعد تین طلاق قابل جرم عمل ہوگا، جس کی سزا تین سال ہوگی، مسلم حلقوں میں بے چینی ہے، جو کہ ایک فطری ردعمل ہے۔ مختلف حلقوں و گوشوں سے اس بل پر سوالات کھڑے کئے جا رہے ہیں، جن میں ایک مضبوط سوال یہ بھی ہے کہ مرد کو اگر تین سال کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا تو وہ اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا انتظام کیسے کرے گا، جبکہ مجوزہ بل میں اس کو نان و نفقہ کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب سے سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا ہے، تب سے یہ مسئلہ محض شرعی نہیں رہ گیا ہے، اب جبکہ مجوزہ بل قانون بننے جا رہا ہے، اس مسئلے کو ہندوستان کے دستور اور قانون کی روشنی میں ہی دیکھنا ہوگا۔ اب بھارتی پارلیمنٹ میں دم توڑ دینے والے ’’تین طلاق‘‘ بل کا مختلف پس منظر میں تجزیہ کیا جاتا ہے، کیونکہ ایک طرف سیاسی بازی گروں کی زور آزمائی تھی تو دوسری طرف مسلم قائدین و دینی تنظیموں کا امتحان تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کی مخالفت میں جو کردار ادا کیا، اس میں کہیں نہ کہیں مسلم سیاسی اور ملی قائدین کا سیاسی شعور چھپا ہوا ہے، اگر بھارتی قائدین بر وقت فہم و فراست سے کام نہ لیتے تو وہ اپنے امتحان میں انتہائی ناکام ہوتے، ساتھ ان کے سیاسی شعور کا کھلا مذاق بھی اڑایا جاتا اور ’’مسلم پرسنل لاء‘‘ میں مداخلت کی ایک بھدی مثال قائم ہو جاتی، جو کہ ایک جمہوری ملک کے ماتھے پر بھی ایک اور بدنما داغ ہوتا۔

گویا اس بل کے زیر التوا ہو جانے سے جہاں جمہوریت مجروح ہونے سے بچ گئی، وہیں مسلم قائدین کسی حد تک اپنے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کو مزید دیرپا بنانے کے لئے مسلسل سیاسی بیداری کا ثبوت دینا ضروری ہے۔ اس نازک موقع پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکین نے زمینی سطح پر سیاسی رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا، مسلم پرسنل بورڈ نے بروقت اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا۔ بورڈ کے اراکین نے بھارت کے سرکردہ لیڈروں سے ملاقات کی اور پارلیمنٹ سے منظور ہو جانے والے بل کے نکات کو واضح کیا۔ تین طلاق کے قانون کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ بھارت کی ریاستیں اسے کس طرح قبول کرتی ہیں، مثلاً تمل ناڈو تین سال کی جیل کے حق میں نہیں ہے۔ تمل ناڈو کے چیف سیکرٹری نے وزارت قانون کے سیکرٹری کو بھیجے خط میں اس سزا کو ہٹانے کی درخواست کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے طلاق قانون کے ڈرافٹ پر بھارت کی تمام ریاستوں سے رائے مانگی تھی، مگر صرف گیارہ صوبوں سے جواب آیا۔ اتر پردیش، آسام، اروناچل پردیش، گجرات، جھارکھنڈ، منی پور، اتراکھنڈ، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش نے اسے لاگو کرنے کی رضامندی دی کہ تین طلاق بل کے قانون بنتے ہی اسے ہم لاگو کریں گے۔ ان میں میگھالیہ کو چھوڑ کر باقی سبھی صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اسی فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں و کشمیر جہاں بی جے پی مخلوط حکومت میں ہے، بالکل چپ سادھے ہوئے رہی۔ محبوبہ مفتی اس بارے میں کیا کہتی ہیں، اس کا سب کو انتظار رہا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خواتین ریزرویشن کا مسئلہ برسوں سے بھارتی پارلیمنٹ کی توجہ کا منتظر ہے، بھاجپا حکومت میں اس کے پاس ہونے کی امید کی جا رہی تھی۔ اس کے بجائے ’’تین طلاق بل‘‘ کو پاس کرانے میں اتنی تیزی دکھائی گئی کہ اسے اسٹینڈنگ کمیٹی میں لے جانے کی مانگ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس عجلت کی وجہ بھارتی وزارت خارجہ میں وزیر مملکت ایم جے اکبر کے اس جملے سے معلوم ہوتی ہے، جو انہوں نے بل پر گفتگو کے دوران کہا ’’ملک کے نو کروڑ شہریوں کی تقدیر اور تکلیف کا سوال ہے‘‘ اس سے بی جے پی کی پوری حکمت عملی سامنے آگئی۔ 2011ء کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد 17.22 کروڑ تھی، جس میں قریب ساڑھے آٹھ کروڑ خواتین تھیں۔ اب یہ بڑھ کر نو کروڑ کے آس پاس ہوگئی ہے۔ بی جے پی اس ووٹ بینک کو لے کر اپنی منصوبہ سازی کر رہی ہے۔ وہ 2019ء میں مسلم ووٹوں کے ایک حصہ کو اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے۔

اب جبکہ طلاق ثلاثہ کے خلاف بل کی منظوری کا معاملہ پارلیمان کے غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو جانے کی وجہ سے لٹک گیا ہے، یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اگلے سیشن میں اب یہ ایشو کس انداز میں قانون سازی کی جانب آگے بڑھتا ہے۔ دوسری طرف اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مختلف طبقات کی طرف سے مسلم پرسنل لاء بورڈ پر گہرے اعتماد و یقین کا اظہار کیا جائے اور قوم و ملت کے مفاد میں ہر طرح کے فیصلے کرنے کا اختیار مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مدبرانہ قیادت پر چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ ان کے باہمی اتحاد اور علماء کرام کی قیادت پر اعتماد ہے، یہ وقت مسلک، عقیدوں اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر تقسیم ہونے کا نہیں بلکہ فسطائی اور شرپسند طاقتوں کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہونے کا ہے، آج ملت کی اجتماعیت کی ایک مثال آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے، جس کے بارے میں شکوک و شبہات کو ہرگز قریب نہ آنے دیں، اسی طرح داخلی محاذ یعنی اپنے گھروں میں اصلاح پر بھی توجہ دیں اور عام زندگیوں میں شریعتِ اسلامی کو داخل کریں اور اپنے عائلی مسائل شرعی اصولوں کے ذریعہ حل کرائیں، جس کے اثرات یقیناً ملت کے حق میں مفید برآمد ہوں گے اور آئے دن اس پر جو انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، اس کا سدِباب ہوسکے گا۔
https://taghribnews.com/vdcbaabfgrhbg8p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ