تاریخ شائع کریں2017 28 December گھنٹہ 15:42
خبر کا کوڈ : 302067

عراق اور شام میں تکفیری فتنے کا خاتمہ

داعش کے خاتمے میں سب سے بنیادی کردار ایران کا رہا ہے جس نے ان ممالک کی مسلح افواج سے فوجی تعاون کیا اور داعش کی شکست کا مقدمہ فراہم کیا۔
عراق اور شام میں تکفیری فتنے کا خاتمہ
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نابودی کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس گروہ کی نابودی سے جہاں بعض نئے سیاسی کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے ہیں اور انہیں تقویب ملی ہے وہیں بعض پرانے کھلاڑی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں۔ داعش کا حامی محاذ مغربی – عبری – عربی ممالک پر مشتمل تھا اور اس گروہ کے خاتمے سے انہیں بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔

دوسری طرف ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک جس نے اس منحوس سازش کے خلاف بنیادی کردار ادا کیا اور داعش کو نابود کر ڈالا فاتح میدان کے طور پر سامنے آیا ہے۔

عراق اور شام میں تکفیری فتنے کے خاتمے میں سب سے بنیادی اور اہم کردار ایران کا رہا ہے جس نے ان ممالک کی مسلح افواج سے فوجی تعاون کیا اور اپنے فوجی مشیروں کے ذریعے داعش کی شکست کا مقدمہ فراہم کیا۔ تحریر حاضر میں داعش کی نابودی میں ایران کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے عراق کے مغربی علاقوں اور شام کے مشرقی حصوں پر قبضہ ان دونوں ممالک کی قومی سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ بن چکا تھا۔ عراق اور شام کے دارالحکومت بغداد اور دمشق سقوط کے دہانے پر آن پہنچے تھے اور حتی بعض فوجی ماہرین عراق اور شام پر داعش کا قبضہ حتمی قرار دے چکے تھے۔

اگرچہ اسلامی دنیا خاص طور پر سنی معاشروں میں داعش کو ایک انحرافی گروہ کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن بعض عالمی طاقتیں اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتیں جو عراق اور شام کو توڑنے کا ارادہ رکھتی تھیں بھرپور انداز میں داعش کی مدد اور حمایت کر رہی تھیں۔

یہ مسئلہ ایران کی قومی سلامتی کیلئے بھی بڑا خطرہ تھا کیونکہ بعض اوقات داعش ایران کی سرحدوں کے انتہائی قریب (30 کلومیٹر کے فاصلے تک) پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی سرحدوں کے دفاع کی خاطر عراق اور شام میں داعش سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 

ایران پہلا ملک تھا جس نے داعش کے خلاف عراق کی مدد کی اور اس سلسلے میں عراق آرمی، حشد الشعبی اور کرد پیشمرگ فورس کو وسیع پیمانے پر فوجی امداد فراہم کی۔ مزید برآں، ایران نے عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی فوجی ٹریننگ میں بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

دوسری طرف ایران مغرب، اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے شدید میڈیا جنگ اور پروپیگنڈے سے بھی روبرو تھا۔ عراق کے زیر انتظام کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی جنہوں نے حال ہی میں اپنے عہدے سے برطرفی کا اعلان کیا ہے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف ایران کی مدد کو سراہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہر گز داعش کے خلاف ایران کی مدد فراموش نہیں کریں گے۔

ایرانی سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ مسعود بارزانی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار پھر ہمارے اور ہمارے دوستوں کیلئے ثابت ہو گیا کہ مشکل حالات میں ایران کسی لالچ اور توقع کے بغیر ہمارا مددگار اور حامی رہا ہے اور ہم اس کا یہ احسان ہر گز نہیں بھولیں گے۔ 

عراق کی سرزمین دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے چھڑوانے میں ایران کا کردار ایسی واضح حقیقت ہے جس کا اعتراف خود عراقی سیاستدان اور خطے کے مسائل سے آگاہ تجزیہ کار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی بارہا ایران کی جانب سے دہشت گردوں کے مقابلے میں عراقی قوم اور حکومت کی مدد اور حمایت کی تعریف کر چکے ہیں۔

عراق کے نائب صدر نوری المالکی نے بھی المیادین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عراق کو ایران کی حمایت اور مدد حاصل نہ ہوتی تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔ ایران نے ہمیں اسلحہ فراہم کیا اور ہم اس اسلحے کی مدد سے مزاحمت کرنے میں کامیاب رہے۔

حشد الشعبی نے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس نے بھی حشد الشعبی کی تشکیل کی تیسری سالگرہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس عوامی رضاکار فورس کی تشکیل، حمایت اور ترقی میں ایران کے موثر کردار پر زور دیتے ہوئے ایران کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر ایران ہماری مدد نہ کرتا تو حشد الشعبی آج اس مقام پر کھڑی نہ ہوتی اور دہشت گردی کے خلاف اس قدر وسیع کامیابیاں حاصل نہ کر پاتی۔ 

شام میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی مدد ایک مخصوص شکل میں تھی۔ ابتدا میں ایران صرف فوجی مشاورت اور ٹریننگ کی حد تک ہی شام حکومت کی مدد کرتا رہا لیکن اس کے بعد شام کے صدر بشار الاسد کی جانب سے سرکاری درخواست کے بعد محدود پیمانے پر "مدافعین حرم" کے عنوان سے فورسز بھیجی گئیں۔ شام میں عوامی رضاکار فورس کی تشکیل میں بھی ایران نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

شام حکومت دہشت گرد عناصر کے خلاف عوامی رضاکار فورس استعمال کرنے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتی تھی۔ لہذا شام میں ایران کے فوجی مشیروں نے حکومت کو دہشت گردی کے خلاف عوامی فورس بروئے کار لانے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے مقابلے کیلئے فاطمیون ڈویژن، زینبیون بریگیڈ اور ابوالفضل العباس بریگیڈ کی تشکیل میں بھی ایران نے اہم کردار ادا کیا۔

دوسری طرف ایران، روس، عراق، شام اور حزب اللہ لبنان پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحاد کی تشکیل بھی ایران کا کارنامہ ہے۔ ایران نے شام حکومت کی درخواست کے بعد آرمی اور سپاہ پاسداران سے فوجی مشیر اس ملک بھیجے۔ 

داعش کے خلاف جنگ میں ایران کی جانب سے عراق اور شام کی مدد خاص طور پر فوجی مشاورت نے اس جنگ کا رخ ہی تبدیل کر ڈالا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کی مداخلت کا نتیجہ خطے میں دہشت گرد عناصر کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوا۔

یہ امر داعش کی حامی قوتوں اور حکومتوں کیلئے شدید دھچکے کا باعث بنا کیونکہ انہوں نے بعض اہم سیاسی اہداف کے حصول کیلئے داعش جیسا گروہ تشکیل دیا تھا۔ لہذا داعش کی نابودی حتمی ہو جانے کے بعد خطے کے بعض ممالک جیسے ترکی نے فوراً اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں بڑی تبدیلیاں لائیں۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے شام میں بحران کے آغاز میں شام حکومت اور صدر بشار اسد کے خلاف انتہائی شدید موقف اختیار کیا اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ لیکن جب شام میں دہشت گرد عناصر کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا تو رجب طیب اردگان کے موقف میں بھی نرمی آ گئی اور انہوں نے شام سے متعلق اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں ایجاد کیں۔ 

درحقیقت میدان جنگ میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کے باعث شام کی سیاسی فضا عوامی مفادات کے حق میں تبدیل ہو گئی۔ قطر نے بھی داعش کی عنقریب نابودی کو درک کرتے ہوئے اور سعودی عرب سے اختلافات جنم لینے کے بعد مغربی – عربی – عبری محاذ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ترکی اور قطر جو ماضی میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے بڑے حامی تھے، کی جانب سے پالیسی تبدیل ہونے کے باعث دہشت گرد گروہوں کو شدید دھچکہ پہنچا اور ان کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔

قطر پہلا ملک تھا جس نے شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد احتجاج کے طور پر اپنا سفیر وہاں سے واپس بلا لیا تھا اور شام کا سفارتخانہ بھی حکومت مخالف عناصر کے سپرد کر کے انہیں تسلیم کر لیا تھا۔ قطر نے شام کے خلاف عرب لیگ کی بہت سی قراردادیں منظور کروانے اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں شام کا مسئلہ اٹھانے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

مزید برآں، قطر وہ پہلا ملک تھا جس نے شام کے خلاف پابندیوں کا ایشو اٹھایا اور اس کے بعد شام میں فوجی مداخلت کا بھی مطالبہ کیا۔ 

ترکی نے بھی داعش کی تقویت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور ترکی اینڈ یورپ فرینڈشپ گروپ کے ممبر کاتا پیری نیوز ویب سائٹ لوبلاگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: "ترکی کی جانب سے داعش سے خام تیل کی خریداری ایک انتہائی اہم موضوع ہے۔

ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے یورپ کی طرف شام مہاجرین کی نقل مکانی میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں یورپ کی قومی سلامتی کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔" داعش مخالف اتحاد میں امریکی صدر کے خصوصی ایلچی بارٹ میک گورک نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ترکی کے راستے سینکڑوں تکفیری دہشت گرد شام جا چکے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ قطر اور ترکی کی جانب سے دہشت گرد عناصر کی مدد ختم ہونے کے بعد دہشت گرد گروہوں کو بڑا دھچکہ پہنچا ہے۔ عراق کے شہروں موصل، فلوجہ، تکریت اور شام کے شہروں رقہ، دیرالزور اور حلب کی آزادی کے بعد ترکی اور قطر نے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کی کیونکہ انہیں داعش کے خاتمے کا یقین ہو چکا تھا اور وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے تھے کہ دہشت گرد عناصر کی مدد سے خطے میں اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔

لہذا یہ دونوں ممالک شام مخالف اتحاد سے باہر نکل گئے اور اب تو رجب طیب اردگان کے شام کے صدر بشار اسد سے قریب الوقوع مذاکرات کی خبریں بھی سنائی دینے لگی ہیں۔ 

خطے میں داعش کی سرگرمیوں کے آغاز سے ہی ایران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پرچم تھاما اور پہلے مرحلے میں شام اور عراق کی فوجی مشاورت اور تعاون کے ذریعے داعش کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔ دوسرے مرحلے پر ایران نے عراق اور شام کی فوجی مدد اور ان ممالک میں عوامی رضاکار فورسز کی تشکیل اور ٹریننگ کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کر دیا۔

تیسرے مرحلے پر ایران نے عراق اور شام کی سرکاری درخواست کے بعد اپنی فورسز بھی ان ممالک میں بھیجیں اور جنرل قاسم سلیمانی کی کمان میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس ڈویژن میدان میں اتر آئی۔

آخرکار شام کے شہر البوکمال کی آزادی کے بعد عراق اور شام میں داعش کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ حقائق بہت اچھی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایران کے کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdch-inxq23nvvd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ