تاریخ شائع کریں2017 28 November گھنٹہ 16:00
خبر کا کوڈ : 296200

حزب اللہ نے عوامی طاقت حاصل کر لی ہے

شام میں داعش کے خلاف جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد حزب اللہ نے خود کو خطہ کی اہم قوت ثابت کردیا ہے۔
حزب اللہ نے عوامی طاقت حاصل کر لی ہے
عرب ممالک ایران سے تعلقات کے لئےحزب اللہ کے دباؤ پر زور دیتے ہیں، لیکن لبنان کے شیعہ عسکریت پسند گروہ نے اپنی حیثیت کو علاقائی طاقت کے طور پر منوا لیا ہے، لبنان کی سرحدوں سے باہر فوجی قوت کی فراہمی اور گھر میں سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

لبنان سے تعلق رکھنے والی حزب اللہ لبنان نے اپنے آپ کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر نہ صرف اپنے آپ کو ثابت کردیا ہے بلکہ اپنی عسکری اور سیاسی طاقت کو لبنان کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ثابت کر دیا ہے ۔

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں حزب اللہ کی فوجی اور سیاسی قوت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حزب اللہ نے اپنی بہتریں سیاسی حکمت عملی کے ذریعہ سعودیہ عرب کے لبنان کو سیاسی بحران سے دوچار کرنے میں ناکام کیا ہے بلکہ اپنی سیاسی پوزیشن کو اور بھی زیادہ مستحکم کر لیا ہے ۔

امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سعودیہ عرب نے حریری کے استعفیٰ کے ذریعے جو سازش لبنان اور حزب اللہ کے لئے کی تھی وہ بری طرح سے ناکام ہوئی ہے ، جس میں بڑا کردار حزب اللہ کی دور اندیش قیادت کا ہے کہ جس کے سربراہ سید حسن نصراللہ ہیں۔

انہوں نے حریری کے استعفیٰ کے بعد فوری رد عمل میں سعد حریری کی سعودی قید سے فوری آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے لبنان کو سیاسی بحران سے دوچار کرنے کی سعودی سازش کو بے نقاب کیا تھا ۔ سعد حریری کے استعفیٰ کے ذریعہ سعودی خواہش مند تھے کہ اس جھٹکے کے نتیجہ میں فوری طور پر لبنان کی کابینہ تحلیل ہو جائے گی ، اور حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں کو وزارتوں اور اہم پوزیشنز سے مستعفی ہونا پڑے گا ۔

لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا اور حزب اللہ نے نہ صرف اس مشکل گھڑی کو اپنی نہ صرف اپنی طاقت میں تبدیل کر لیا بلکہ سعد حریری کو بھی سعودی قید سے آزاد کروا لیا۔

لبنا ن کہ جس کی کل آبادی ساٹھ لاکھ ہے جس میں شیعہ، سنی اور عیسائیوں کے درمیان پاور شیئرنگ فارمولے کے تحت صدر مسیحی ، وزیر اعظم سنی اور اسپیکر اسمبلی شیعہ ہوتا ہے اور لبنان کی ان تین اہم عہدوں میں سے صدر اور اسپیکر حزب اللہ کے حامی لوگوں میں سے ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے ۱۰ ممبران کے ساتھ ۲ وزراء بھی ہیں جو کہ حزب اللہ کی عسکری طاقت کے ساتھ اسکی بہتریں سیاسی قوت کا پتہ دیتے ہیں ۔

حزب اللہ گو کہ ایک باقاعدہ فوج نہیں لیکن لبنان کے باسی (شیعہ ، سنی اور عیسائی) اس کو اسرائیل اور دیگر عالمی دہشت گردوں کے خلاف اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں ۔ اور لبنان کے مشکل حالات کے باوجود اس تنظیم نے اپنی فوجی قوت کو لبنان کے داخلی معاملات میں استعمال نہیں کیا بلکہ صرف اسرائیل کیخلاف لبنا ن کی سرحدوں کا دفاع کیا ہے ۔

حزب اللہ نہ صرف لبنان کی فوج کی مدگار ہے بلکہ اس کے رفاحی پروجیکٹس جن میں اسکول ، کالجز ہسپتال وغیرہ ہیں کی وجہ سے اُس نے اپنے آپ کو لبنانی عوام کا ہر دل عزیز بنا دیا ہے ۔۰ ۱۹۸کی دہائی میں لبنان پر اسرائیل کے کئے جانے والے حملہ کے باعث جنم لینے والی اس گوریلا تنظیم نے۲۰۰۰ میں اسرائیل سے لبنانی حصہ کو واگزار کروایا بلکہ ۲۰۰۶ میں ہونے والی جنگ میں اسرائیل کو شکست دے کر اپنے نا قابل تسخیر ہونے کا پیغام دیا ۔

شام میں داعش کے خلاف ہونے والی جنگ میں حز ب اللہ نے گرچہ اپنے اہم کمانڈروں کی قربانی دی ہے مگر اس جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے بعد اس نے خود کو خطہ کی اہم قوت ثابت کردیا ہے۔ لبنان کے ایک سنی بلال بلاوٹ کا کہنا ہے کہ میں حزب اللہ ہوں اور نہ ہی اس کا ممبر ہوں ، مگر میں حزب اللہ کے کاموں اور لبنانی عوام کو اسرائیل سے تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سے اس کا حامی ہوں۔

ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ جب آپ مقبول طاقت حاصل کرتے ہیں، تو آپ سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں، اور حزب اللہ نے عوامی طاقت حاصل کر لی ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
https://taghribnews.com/vdciuqarut1a3r2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ