تاریخ شائع کریں2017 27 November گھنٹہ 18:13
خبر کا کوڈ : 295986

منتظریعنی،جو شہادت کا اشتیاق رکھتا ہو

حجۃ الاسلام علی رضا پناہیان کی کتاب سے اقتباس
منتظر ایک امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے بعد بھی حضرت حجت کی خدمت می پہنچ جائے تو پھربھی واپسی کا منتظر ہے اور ان سے شہادت کے لیے دعا کی تمنا کرے گاکہ جو پلٹنے کی بہترین قسم ہے
منتظریعنی،جو شہادت کا اشتیاق رکھتا ہو
حجۃ الاسلام علی رضا پناہیان نے اپنی گرانقدر کتاب (انتظار عامیانہ، عالمانہ اور عارفانہ) میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر انتظار ایک انسانی اور عرفانی مفہوم ہے اوریہ ان تمام انسانوں سے مربوط ہےکہ جو اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہیں۔ جب حدیث نبوی میں دنیا کو مومن کا قیدخانہ قراردیا گیا ہےتو اس سے نتیجہ لینا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں قیدی ہیں۔ لہذا یہ قدرتی بات ہےکہ ہرقیدی کی طرح میں بھی بھی اپنی قیدی کے دورکے خاتمےاورقید سے رہائی کا منتظرہونا چاہیے۔

اگرہم اپنے اندر اس کا انتظار اور احساس نہیں پاتے ہیں تو پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھی صورتحال سے دوچار نہیں ہیں۔ جو شخص روحانیت اورمعنویت کے درپے ہے لیکن وہ حضرت حق کی ملاقات کی تمنا نہیں رکھتا ہے تو اس نے معنویت اور عبادت کو کھیل سمجھا ہے؛ کیونکہ قرب الہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کی ملاقات کا منتظر اور مشتاق ہو۔ امام رضا علیہ السلام سے فرماتے ہیں: جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکرکرے لیکن اس کی ملاقات کا اشتیاق نہ رکھتا ہو تو اس نے اپنے آپ سے مذاق کیا ہوا ہے۔

البتہ اشتیاق آہستہ آہستہ پیدا ہوتا ہے۔ لہذا جو لوگ ابھی راستےکی ابتداء میں ہیں، انہیں اس حدیث شریف کا مصداق نہیں سمجھنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے راستےکو جان لے اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے کوشش کرے۔

اب جبکہ انتظار فرج کے مفہوم کے بارے میں عرفانی نقطہ نظر واضح ہو گیا ہے تو اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان دو روایتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر بہتر سمجھا جاسکتا ہے:( افضل العبادہ ذکرالموت(1) اوردوسری روایت( افضل العبادۃ انتظارالفرج)(2)

اگر انتظار کا مفہوم، ہمیشہ کے لیے ہے اور ہمیشہ  رہے گا اور فقط غیبت اور ظہورکی حقیقت سے مربوط نہیں ہے تو پھر امام زمانہ علیہ السلام کے زمانےمیں بھی یہ انتظار اسی طرح باقی رہےگا۔ جب قرآن مجید میں شہادت کےمفہوم کےساتھ لفظ انتظاراستعمال ہوتا ہے تو شاید یہ اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو۔ وہی آیہ مجیدہ کہ امیرالمومنین علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام نے شہداء کے اجساد مطہرہ کے پاس کھڑے ہو کر جس کی تلاوت کی تھی: (مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا)۔ منتظر یعنی جو شہادت کی لیاقت اور اس کا اشتیاق رکھتا ہے اور اس کے انتظار میں ہے۔ معلوم ہوتا ہےکہ شہادت اوراللہ کی ملاقات کا انتظار ایک عرفانی عروج اور کمال ہے کہ جو تمام مومنین کے اندر موجود ہے:«مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا». (3)۔ لہذا منتظر ایک امام زمانہ علیہ السلام کی حکومت کے قیام کے بعد بھی حضرت حجت کی خدمت می پہنچ جائے تو پھربھی واپسی کا منتظر ہے اور ان سے شہادت کے لیے دعا کی تمنا کرے گاکہ جو پلٹنے کی بہترین قسم ہے۔
https://taghribnews.com/vdcivwarqt1a332.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ