تاریخ شائع کریں2022 23 May گھنٹہ 10:48
خبر کا کوڈ : 550610

جنوبی ایشیا میں نیوکلیئرائزیشن کا آغاز

جنوبی ایشیا میں سلامتی کی صورتحال کو ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسابقت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اور دونوں میں سے ایک کا عروج دوسرے کو کمزور کر دے گا۔
جنوبی ایشیا میں نیوکلیئرائزیشن کا آغاز
یوریشیا ریویو ویب سائٹ نے اپنے ایک مضمون میں جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک ایسے خطہ کے طور پر جہاں دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ رہتا ہے: اگر ہندوستان روس کے S-400 سسٹم سے لیس ہوتا ہے، تو اس کو پاکستان پر برتری  ہوں گی۔

یوریشیا ریویو ویب سائٹ نے اتوار کے روز ایک مضمون میں لکھا، "جیو پولیٹکس، آبادی اور اسٹریٹجک مسائل کے لحاظ سے جنوبی ایشیا دنیا کے اہم ترین خطوں میں سے ایک ہے۔" اس خطے میں بھارت، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان اور سری لنکا جیسے ممالک شامل ہیں جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔

اس خطے میں بھارت اور پاکستان ابھی تک جموں و کشمیر کے اپنے علاقائی تنازعات کو حل نہیں کر سکے۔ علاقائی سلامتی کا بھی زیادہ تر انحصار بھارت اور پاکستان پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مخالفانہ تعلقات نے نہ صرف ترقی اور ترقی کو متاثر کیا ہے بلکہ دونوں ممالک کے معیار زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

بھارت اپنی عسکری اور اقتصادی طاقت پر بھروسہ کرکے خطے کی غالب طاقت بننا چاہتا ہے۔ تاہم پاکستان بھی اپنے پڑوسی کے خطرے میں نہیں رہنا چاہتا۔ 1962 میں چین بھارت جنگ کے بعد، بھارت نے اپنی فوج کو جدید بنانا شروع کیا، اور اس نے بھارت کو خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کو روکنے کے لیے ایسی ہی کارروائی کرنے پر آمادہ کیا۔

جنوبی ایشیا میں نیوکلیئرائزیشن کا آغاز بھارت سے ہوا۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، جواہر لعل نہرو نے اگرچہ جوہری بم کو "برائی کی علامت" قرار دیا، اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کی پیروی کرے گا۔ چین نے 1964 میں ایٹمی بم حاصل کرنے کے بعد بھارت نے بھی اسے بنانے پر غور کیا۔ اس معاملے کے بعد پاکستان بھی نیوکلیئرائزیشن کی طرف بڑھ گیا۔

بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ 1974 میں کیا تھا اور امریکہ نے نئی دہلی کے اس اقدام کو بڑی غلطی قرار دیا تھا۔ تاہم واشنگٹن نے بھارت کو خطے میں ’’نمبر ون ہیجیمونک پاور‘‘ قرار دیا لیکن اسے جوہری بم اور جدید ترین جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ تاہم بڑی طاقتوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔

پاکستان کی جوہری پروگرام کے لیے سنجیدہ کوششیں دراصل بھارت کے ساتھ 1971 کی جنگ کے بعد شروع ہوئیں۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پانچ غیر اعلانیہ جوہری تجربات کیے تھے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو پانچ اور 30 ​​مئی کو ایک اور ایٹمی تجربہ کیا۔ اگرچہ امریکہ نے دونوں ممالک پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاہم یورپی یونین نے بھارت کے جوہری تجربے کو بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان کے اقدام کو قابل فہم قرار دیا ہے۔

9/11 کے حملوں کے بعد، امریکہ نے خطے کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر دی، اور 2001 میں، اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے چین کو "تزویراتی حریف، شراکت دار نہیں" قرار دیا۔ امریکہ نے بھارت کو 21ویں صدی کی سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک بنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ صرف بھارت ہی اسے چین پر قابو پانے میں مدد کر سکتا ہے۔

2005 کے ہند-امریکہ جوہری معاہدے کے بعد واشنگٹن کی پالیسی بھی بدل گئی۔ جنوبی ایشیا میں سلامتی کی صورتحال کو ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسابقت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اور دونوں میں سے ایک کا عروج دوسرے کو کمزور کر دے گا۔ بھارت روس، امریکہ، فرانس اور اسرائیل سے ہتھیار خرید کر دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار خریدار بنتا جا رہا ہے۔ افواج کے توازن کے لیے پاکستان اپنی فوج اور سیکیورٹی کے شعبوں پر بھی بہت زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔

2016 میں، برکس سربراہی اجلاس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) کے موقع پر، ہندوستان نے روس سے S-400 سسٹم کی خریداری کو حتمی شکل دی اور 2021 میں اس نظام کو پیشگی $800 ملین ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یقیناً اس مسئلے پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے۔ اگر بھارت اس میزائل سسٹم سے لیس ہوتا ہے تو وہ خطے میں بالادستی کی طاقت بن سکتا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcgqz9nzak9n34.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ