تاریخ شائع کریں2021 4 December گھنٹہ 13:50
خبر کا کوڈ : 529301

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قرضوں کی سیاست

اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اسٹیٹ بنک میں تین ارب ڈالر رکھے گا، اس حوالے سے سعودی عرب نے جو شرائط رکھی ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہیں۔ اس قرض کی شرح سود چار فیصد ہوگی، جو انتہائی بلند ہے اور اسے بہتر گھنٹوں کے نوٹس پر سعودی عرب واپس لے سکتا ہے
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قرضوں کی سیاست
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
بشکریہ:اسلام ٹائمز


ویسے تو دنیا میں مقروض انسان کی کوئی عزت نہیں ہوتی، مقروض ہمیشہ دست بستہ اطاعت گزار مخلوق کو کہا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ نکیل اصل مالکوں کے ہاتھ میں رہتی ہے اور وہ جس سمت چاہتے ہیں، اس سمت موڑ دیتے ہیں۔ قائد اعظم (رہ) نے جس آزاد، خود مختار اور باوقار پاکستان کو بنایا تھا، وہ بار بار قرض لینے والا پاکستان ہرگز نہیں تھا۔ ہمارے بزرگوں نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی، وہ آزادی کا علمبرار، خود کفیل اور مضبوط پاکستان تھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں ہر جانے والی حکومت آنے والی حکومت کے لیے خزانہ کی حالت کچھ اس انداز میں چھوڑ کر جاتی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی آپشن ہی باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ہر نئی آنے والی حکومت معاشی بحران سے نکلنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے قرض لیتی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی یہی چیلنج درپیش تھا، مگر پی ٹی آئی کی نااہلی کی وجہ سے اس بار جو چیز دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ تین سال گزرنے کے بعد بھی معیشت کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے اور بار بار قرض لینے کے لیے قرض دینے والے اداروں اور ممالک کے ترلے کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو  ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب یہ فرمایا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف  سے قرض نہیں لوں گا، خودکشی کر لوں گا،۔ یہ نعرہ ہر محبت وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے کہ ہم اپنی قومی خود مختاری اور وقار کے لیے قرض لینے کی دلدل سے نکلیں۔ مگر جو ہوا، وہ اس کے برعکس ہے۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ کی قرض لینے کی رفتار پہلے والی حکومتوں سے بہت تیز ہے۔

ریاستیں ریاستوں سے قرض لیتی رہتی ہیں، یہ طویل مدتی اور قلیل مدتی ہر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایسا بندوبست دیکھنے کو ملتا  رہا ہے، جس میں کچھ وقت کے لیے سعودی عرب ہمیں فوری مالی امداد دیتا رہا ہے، جس سے ہمارے قومی ذخائر کو سنبھالا دیا جاتا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب نواز شریف وزیراعظم بنے تھے تو راتوں رات اربوں ڈالر پاکستانی اکاونٹ میں منتقل ہوئے تھے۔ اس پر بہت سے سوالات بھی اٹھائے گئے اور پھر اعلان کیا گیا کہ یہ سعودیہ سے مالی سپورٹ لی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی تیل کی موخر ادائیگیوں اور دیگر کئی طرح سے سعودی عرب سے مالی پیکجز ملتے رہے ہیں۔ ایک بات یاد رکھ لیں کہ قومی ریاستوں اور بالخصوص بادشاہتوں میں کوئی کام مفاد سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ اس وقت بھی  سعودی عرب کوئی نہ کوئی مفاد لے رہا ہوتا تھا، جس کے بدلے میں یہ قرض دیا جاتا تھا اور آج بھی جب قرض دیا جاتا ہے تو ایسا ہی کیا جاتا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اسٹیٹ بنک میں تین ارب ڈالر رکھے گا، اس حوالے سے سعودی عرب نے جو شرائط رکھی ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہیں۔ اس قرض کی شرح سود چار فیصد ہوگی، جو انتہائی بلند ہے اور اسے بہتر گھنٹوں کے نوٹس پر سعودی عرب واپس لے سکتا ہے اور پاکستان اسے واپس کرنے کا پابند ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ قرض ڈیڑھ سال میں واپس کرنا ہوگا، اس میں کسی قسم کی کوئی توسیع نہیں ہوسکتی۔ اس قرض پر سعودی قوانین اپلائی ہوں گے، پاکستانی قوانین کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ ان سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر آئی ایم یف کی شرائط کو پاکستان فالو نہیں کرتا تو اس صورت میں بھی اقدام کیا جائے گا اور اگر خدانخواستہ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں سعودی عرب فوری رقم واپس لے لے گا۔

یہ شرائط توہین آمیز ہیں اور سعودی عرب پہلے بھی اربوں ڈالر چند دن کے نوٹس پر پاکستان سے لے چکا ہے، جب پاکستان نے خارجہ پالیسی میں آزاد موقف لینے کا فیصلہ کیا تو سعودی عرب نے فوری طور پر اپنے پیسے طلب کر لیے تھے، جسے پاکستان نے چین سے قرض لے کر سعودیہ کو واپس کیا تھا۔ صورتحال کافی گھمبیر ہے، ہمارے صاحبان اقتدار کو غور کرنا ہوگا اور معیشت کو اپنی سیاست کی نذر ہونے سے بچانا ہوگا۔ یہ عمران خان کی بعزتی نہیں ہے، اگرچہ یہ اس کی ناکامی ہے، مگر اصل میں یہ پاکستان کی توہین ہے۔ مالی طور پر مستحکم قوم ہی اپنی خارجہ و داخلہ پالیسی کو آزادی سے چلا سکتی ہے۔ اس وقت امریکی اور مغربی خود یا اپنے چھوٹے چھوٹے گماشتوں کے ذریعے غریب ممالک کا اسی طرح استحصال کرتے ہیں۔

جب ہم مالی طور پر مجبور ہوں گے تو اسرائیل کو قبول کروانے کے حوالے سے دباو ڈالا جا سکتا ہے، جیسا کہ کچھ ممالک کو مالی بحران سے نجات کے سبز باغ دکھا کر اسرائیل کو قبول کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ اسی طرح خدا نخواستہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر دباو بڑھایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ان سے دستبردار ہو۔ جب پاکستان  ادائیگیاں نہیں کرسکے گا تو اس پر سے نوجوان نسل کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ یوں ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے اور پھر اس کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اپنے حکمران طبقے سے کہوں گا کہ اپنی عیاشیاں چھوڑیں اور ملک کی فکر کریں، آپ کی پالیسیوں نے وطن عزیز کو بقول غالب اس صورتحال سے دوچار کر دیا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
 
https://taghribnews.com/vdcjyheivuqe8tz.3lfu.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ