تاریخ شائع کریں2021 29 November گھنٹہ 18:46
خبر کا کوڈ : 528729

پاکستان کے وزیر اعظم غازیءگفتار

خاں صاحب نے شاید انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کو صحیح معنوں میں عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر آج ڈیڑھ سال بعد ریاست مدینہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا ہے ۔
پاکستان کے وزیر اعظم غازیءگفتار
وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک مرتبہ پھر اپنے سنہر قول میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے وسائل پر اشرافیہ قابض ہے اور پاکستان کا سب سے برا مسئلہ عدم مساوات ہے اور قانون کی عدم موجودگی سے نہ صرف عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سے سمیت بے پناہ صلاحیتوں سے محروم ہے۔ زیتونا کالج کے صدر اور امریکی اسلامی اسکالر حمزہ یوسف کے ساتھ آن لائن گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مسئلہ وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ تھا جس نے عوام کو طبی وسائل، تعلیم اور انصاف سے محروم کردیا، قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔

عمران خان نے کہا کہ زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں حکمران اپنے مفاد اور پیسہ کمانے کے لیے اقتدار میں آتے ہیں اور وہ اپنے ایمان کی وجہ سے سیاست میں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے مطابق انسان کو زندگی میں ملنے والے فوائد اور مراعات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا ’میں سیاست میں اس لیے آیا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا اور مجھے احساس تھا کہ معاشرے کے لیے میری ذمہ داری ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ذاتی مفادات یا اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لیے سیاست میں نہیں ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ  ہم تب تک انصاف والا معاشرہ قائم نہیں کرسکتے جب تک دولت کی تقسیم برابر نہیں ہوگی۔ ہم تب تک ترقی نہیں کرسکتے جب تک قانون کی نظر میں امیر اور غریب ایک برابر نہیں ہوں گے۔ ہم تب تک ایک قوم نہیں بن سکتے جب تک امیر اور غریب کا نصاب ایک نہیں ہوگا۔

خدا کا بڑا کرم یہ ہوا کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار کی زمام عمران خان صاحب کے ہاتھ لگ گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو رہتی دنیا تک پاکستان کی تباہی کی وجہ ایک ہی بتائی جاتی، عمران خان کو حکومت میں آنے نہیں دیا گیا۔اب چونکہ آچکے ہیں، تو اب محققین اور مورخین ہماری زبوں حالی کی ایک سے زیادہ وجوہات بہت سہولت کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں۔ صحافت کے تمام اشاریے بتارہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر اس تیزی سے دوڑے جارہا ہے کہ ٹوپی چپل ریزگاری سب گرکے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ترقی کے جتنے پہلو ہیں، یہ تب تک سمجھ نہیں آئیں گے جب تک عمران خان صاحب کے ”ایک برابر‘‘ والے فلسفے کے تناظر میں کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جائے گا۔

ابھی حال ہی کے فہیم مغل کی مثال  دیکھ لیں جو خان صاحب کی مساوات کی کوششوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ فہیم بیچارہ ریاست کو ماں کی طرح سمجھتا رہا جیسا کہ خان صاحب نے کل ہی فرمایا ہے۔ مگر خان صاحب کی بات کا اصل مقصد یہ تھا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، اگر اس کا وجود ہوتا تو ملک میں کئی فہیم مغل ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہیں۔ لنگر خانے تو بنائے جا رہے ہیں مگر کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ کوئی ریاست کو اور اس کے کرتا دھرتاؤں کو بتائے جو عزت دار لوگ ہوتے ہیں وہ لنگر خانے نہیں جاتے۔ وہ سسک سسک کر مرنا تو پسند کرتے ہیں، مگر اپنی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ بکرے کے قورمے کھانے والے لوگ ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔

خان صاحب نے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ گزشتہ بیس برس ان کی کردار کشی کی گئی، ان کی بے عزتی کے لیے جعلی خبریں لگوائی گئیں لیکن انہیں یقین تھا کہ کوئی شخص ان کی بے عزتی نہیں کر سکتا۔ اس بات سے بھی متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ خاص طور پر ان کو بے عزت کرنے کی خاطر جو پینتیس پنکچر والا جھوٹ گھڑا گیا تھا، اس کی وجہ سے انہیں عدالت کے سامنے خفت اٹھائی پڑی لیکن شکر ہے کہ کوئی بے عزتی نہیں ہوئی۔ ویسے بھی یہ تو محسوس کرنے کی چیز ہے، بندہ استقامت اور خود راستی کا پہاڑ ہو تو کوئی شخص اس کی بے عزتی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

خاں صاحب نے شاید انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی ملک کو صحیح معنوں میں عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر آج ڈیڑھ سال بعد ریاست مدینہ کا نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا ہے ۔ غریب عوام کو مہنگائی کے ذریعے زندہ درگور کیا جا رہا ہے ۔ وطن عزیز کے قرب و جوار سے مجبور و بے بس لوگوں کی خود سوزی کے خبروں نے دل کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی لاچار باپ کی خودکشی کی خبرمنظر عام پر نہ آتی ہو ۔ بجلی و گیس کے بلوں میں اضافہ ، بے روزگاری ، ٹیکسوں کی بھرمار ، اور اب آٹا بھی ناپید ہو چکا ہے ۔ یعنی غریبوں سے روٹی کا نوالہ چھیننے کی بھی تیاری ہو گئی ہے۔ خان صاحب انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت وہی وزیر اعظم ہیں۔
 
https://taghribnews.com/vdcci4qpo2bqim8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ