تاریخ شائع کریں2021 24 October گھنٹہ 15:17
خبر کا کوڈ : 524140

رحمت اللعالمین (ص) کی رحمت کے جلوے

رسول خداﷺ کی رحمت کے لامحدود دائرے میں نہ صرف مومنین بلکہ کفار بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: پیغمبر (ص) جس طرح مومنین کے لئے رحمت اور ہمدرد تھے، کفار کے لئے بھی تھے، کفار کے لئے ہمدرد تھے، یعنی آپ پر اس بات کا اثر ہوتا تھا کہ یہ کفار اپنے کفر پر باقی رہیں اور آخر کار جہنم کے حقدار ہوں۔
رحمت اللعالمین (ص) کی رحمت کے جلوے
تحریر: محسن عباس مقپون
بشکریہ:اسلام ٹائمز


 اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں جابجا اپنے حبیب پیغمبرﷺ کا نہایت ہی نرالے انداز میں تعارف کرایا ہے۔ لیکن پورے قرآن مجید میں ایک آیت ایسی ہے، جس کا مضمون و اسلوب خطاب اور بلاغی قوت دوسری تمام آیات سے مافوق اور برتر ہے۔ وہ آیت ہے: «وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلَّا رَحْمَةً۔۔۔۔» ’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کیلئے رحمت۔‘‘ باری تعالیٰ نے آپؐ کی ذات والا مقام کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنانے کے ساتھ محصور فرما دیا کہ آپؐ سراپا رحمت ہیں، اس کے علاوہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آپؐ کی ذات رحمت ہے، وہاں آپؐ کا پیغام بھی رحمت ہے۔ آپؐ کا نام بھی رحمت ہے تو آپؐ کے قلب مطہر پر نازل ہوا قرآن بھی رحمت ہے۔ آپؐ کی رحمت کا دائرہ عالمین پر پھیلا ہوا ہے، کیونکہ آپؐ کائنات کے کسی ایک ٹکڑے اور گوشے کے لئے نہیں، تمام نوعِ انسانی کے لئے رحمت ہیں، آپؐ مشرق و مغرب اور اسود و احمر کے لئے رحمت ہیں، آپؐ کسی ایک خاص قوم کے لئے نہیں، اقوامِ عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں رحمت کے جلوے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ رحمت اللعالمین کی رحمت کی تجلیاں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں؟ اس تحریر میں پہلے ہم رحمت کے معنی اور مفہوم کو بیان کرتے ہیں، پھر رحمت اللعالمین کی رحمت کے جلووں کا تذکرہ کرتے ہیں۔

رحمت کے معنی و مفہوم 
ارباب لغت کے نزدیک رحمت کے معنی رحمدلی، کسی پر مہربان ہونا، کسی پر شفقت کرنا اور ترس کھانا ہیں۔ لفظِ رحمت انسان کے لیے نرمی، محبت سے پیش آنا اور لغزشوں و کوتاہیوں کو نظر انداز کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن یہی لفظ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معنی اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہستی کے شایان شان مراد لینا ہوں گے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے رحیم ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا انسان کی خطائیں بخش دینا اور انسان کی غلطیوں اور بڑے بڑے جرائم پر فوراً پکڑ نہ کرنا اور اپنی نعمتوں سے اس کو نوازنا ہے۔

رحمت عام و رحمت خاص
رحمت کی دو قسمیں ہیں، رحمت عام اور رحمت خاص۔ مفسرین کے ایک طبقے میں مشہور ہے کہ صفت رحمان، رحمت عام کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو دوست و دشمن، مومن و کافر، نیک و بد، غرض سب کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کی بے حساب رحمت کی بارش سب کو پہنچتی ہے اور اس کا دسترخوان نعمت ہر کہیں بچھا ہوا ہے۔ اس کے بندے زندگی کی گوناگوں رعنائیوں سے بہرہ ور ہیں، اپنی روزی اس کے دسترخوان سے حاصل کرتے ہیں، جس پر بے شمار نعمتیں رکھی ہیں۔ یہ وہی رحمت عمومی ہے، جس نے عالم ہستی کا احاطہ کر رکھا ہے اور سب کے سب اس دریائے رحمت میں غوطہ زن ہیں۔ رحمت خاص وہ رحمت ہے، جو اس کے مطیع، صالح، اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ انہوں نے ایمان اور عمل صالح کی بناء پر یہ شائستگی حاصل کرلی ہے کہ وہ اس رحمت و احسان خصوصی سے بہرہ مند ہوں، جو گنہگاروں اور غارت گروں کے حصے میں نہیں ہے۔ اللہ کی رحمت خاص کے اظہار کے لیے صفت رحیم مستعمل ہے۔ 

اللہ کی رحمت کی مقدار
اللہ کی رحمت کا دائرہ وسیع ہے اور کائنات کی ہر چیز پر اس کی رحمت کا سایہ ہے۔ احادیث میں اللہ کی رحمت کی مقدار بھی بیان ہوئی ہے۔ چنانکہ رسول خداﷺ سے مروی ہے کہ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، اُس نے اُن میں سے ایک رحمت جن، انس، حیوانات اور حشرات الارض کے درمیان نازل کی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت و رحم کرتے ہیں اور اُسی سے وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں (اپنے پاس) محفوظ رکھی ہیں، جن کے سبب قیامت کے دن وہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔"

رحمت اللعالمین کی رحمت کا فیض کافروں تک
رسول خداﷺ کی رحمت کے لامحدود دائرے میں نہ صرف مومنین بلکہ کفار بھی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: پیغمبر (ص) جس طرح مومنین کے لئے رحمت اور ہمدرد تھے، کفار کے لئے بھی تھے، کفار کے لئے ہمدرد تھے، یعنی آپ پر اس بات کا اثر ہوتا تھا کہ یہ کفار اپنے کفر پر باقی رہیں اور آخر کار جہنم کے حقدار ہوں۔ ان کے لئے ہمدردی کرتے تھے۔ آپ کی دعوت ان کافروں کو نجات دینے کے لئے تھی، کافروں کے ایمان نہ لانے پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: "اے ہمارے رسول! تم خود کو ہلاک کرنا چاہتے ہو، ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لاتے ہیں۔" اسی طرح آپؐ متاثر ہوتے تھے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، یہ لوگ نجات حاصل کیوں نہیں کرتے۔ رحمت اللعالمین کا کافروں کے لیے بھی رحمت ہونا اس اعتبار سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کفر کے باوجود رسول خدا کے وجود کی برکت سے ان پر دنیوی عذاب نازل نہیں کرتا، جس طرح سابقہ قومیں جب انبیاء کے قہر و غضب کا شکار ہوتیں، مختلف انداز سے ان پر عذاب الہیٰ نازل ہوتا تھا۔ لیکن امت رسول کے کفار سے اللہ نے عذاب کو موخر کر دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ أَنْتَ فِيهِمْ۔ "اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا، جب تک آپؐ ان کے درمیان میں موجود ہیں۔"

رحمت اللعالمین کی رحمت کے جلوے
اللہ تعالیٰ نے مخلوقات عالم میں اپنا جذبہ رحمت سب سے زیادہ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو عطا فرمایا۔ جس طرح اللہ کی ذات بلا شریک تمام عالمین کا رب ہے، اسی انداز میں رسول اللہﷺ کی رحمت بھی تمام عالمین کے لیے ہے۔ مفسرین نے عالمین کی وسعتوں کو یوں بیان کیا ہے: اس کائنات ہستی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ جملہ موجودات اور اس کی تمام مخلوقات سبھی عالمین کہلاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمینﷺ کی رحمت کو زمان و مکان، دوست و دشمن، انسان و حیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کرکے بیان فرمایا: و ماارسلناک الا رحمة للعالمین۔ آپؐ کی رحمت تمام عالمین تک پہنچنے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپؐ کی رسالت اور آپؐ کا دین پورے عالم انسانیت کے لیے دنیا و آخرت کی خوشبختی اور سعادت کا باعث بنا اور دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں آپ کی دعوت توحید کے وہ درخشاں آثار نمایاں ہوئے، جن کی بدولت انسانیت نے حق و حقیقت کے قریب آگئی۔

جس طرح رحمت اللعالمینﷺ کی رحمت کا دائرہ وسیع اور ہر چیز پر پھیلاہوا ہے، اسی طرح خود رسول خداﷺ کے وجود مبارک کا ہر پہلو بھی رحمت و مہربانی سے مملو ہے۔ یعنی رسولﷺ کا وجود، آپؐ کی ذات، آپؐ کا پیغام اور آپؐ کی نبوت تمام عالمین کے لیے رحمت ہے۔ گویا عالمِ بشریت میں آپ کی ذاتِ ستودہ صفات جامعِ رحمت بن کر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی اور آپ ہی قدرت خداوندی کا وہ شاہکار قرار پائے، جسے دیکھ کر دِل و نگاہ پکار اُٹھتے ہیں:
زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست
آپؐ کے رحمت ہونے کی اساس آپؐ کی دعوت الی التوحید ہے، جو حق و حقیقت تک رسائی کے لیے بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے، ورنہ جاہلیت میں لوگ حقیقت اور حق سے دور موہومات میں گم تھے۔ رسول اللہ کی رحمت کے جلووں کو دیکھنا ہو تو جاہلیت کے زمانے پر ذرا نظر کرنا ہوگی۔

آپؐ نے ایسے حالات میں اسلام کی نجات بخش تعلیمات کے سائے میں آزادی کا نعرہ بلند کیا، جہاں لوگوں کی گردنوں میں ظالمانہ قانون کے پھندے اور پاؤں میں بے رحمانہ احکام کی بیڑیاں، کندھوں پر مصائب و آلام اور مشقت و مصیبت کے ناقابل برداشت بوجھ لدے ہوئے تھے۔ آپؐ نے جکڑ بندیوں کے شکار معاشرہ اور سوسائٹی میں رحمت و شفقت، محبت و اخوت، بھائی چارگی و برادری کی بنیادیں مضبوط کیں۔ رحمت اللعالمینﷺ کی رحمت کا جلوہ ہی تو ہے کہ آپؐ نے حق و باطل میں تمیز کرنے کا سلیقہ دیا۔ انسان کو احترام آدمیت کا شعور ملا۔ انسان کو انسانی حقوق میسر آئے۔ عدل و انصاف اور ناانصافی کی میزان عنایت فرمائی۔ ایک جامع نظام حیات عنایت فرمایا۔ خواب غفلت اور جہالت میں پڑی انسانیت کو جگایا۔ دنیا میں باعزت زندہ رہنے کے لیے آداب زیست سکھائے۔ زندگی کا کوئی گوشہ نہیں چھوڑا، جس کے لیے آداب اور قانون عطا نہ کیا ہو۔ آپؐ کے مبعوث ہونے کے بعد ہی انسانیت نے تہذیب و تمدن کی طرف ایک جست لگائی۔ تاریخ انسانیت میں پہلی مرتبہ آپ ؐنے غیر طبقاتی معاشرہ متعارف کرایا۔ آپ ؐ کا دین سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خلاف ایک الوہی تحریک ہے۔

 اس تحریر کا حسن اختتام اس حدیث مبارکہ سے کرتے ہیں کہ جس میں رحمت اللعالمین نے اپنی رحمتوں کی مسلسل بارش کو اپنی حیات مبارکہ کے علاوہ اپنی رحلت کے بعد بھی جاری و ساری رہنے کے بارے میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا: حِیَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ وَ مَمَاتِی خَیْرٌ لَکُمْ۔ قَالُوا یَا رَسُولَ اللهِ وَکَیْفَ ذَلِک فَقَالَ(ص) اَمَّا حِیَاتِی فَاِنَّ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: وَ مَا کَانَ اللّهُ لِیُعَذِّبَهُمۡ وَ اَنۡتَ فِیهِمۡ وَ اَمَّا مُفَارَقَتِی اِیَّاکُمْ فَاِنَّ اَعْمَالَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ کُلَّ یُوْمٍ فَمَا کَانَ مِنْ حَسَنٍ اسْتَزَدْتُ اللهَ لَکُمْ وَمَا کَانَ مِنْ قَبِیْحٍ اسْتَغْفَرْتُ اللهَ لَکُمْ... "میری زندگی تمہارے لیے خیر (اور رحمت) ہے اور میری جدائی بھی۔ عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: میری زندگی اس لیے خیر (اور رحمت) ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا، جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں۔ میری جدائی اس لیے خیر (اور رحمت) ہے کہ تمہارے اعمال روزانہ میرے سامنے پیش ہوتے ہیں، اگر نیکی ہے تو اللہ سے مزید مانگتا ہوں اور برائی ہے تو مغفرت طلب کرتا ہوں۔"
ادھر بھی ہو ابرِ رحمت کا چھینٹا
ادھر بھی نظر بے سہاروں کے والی
نگاہوں میں ہے تیری بخشش کا عالم
کھڑے ہیں تیرے در پہ تیرے سوالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ و منابع
1۔ سورہ انبیاء، آیت: 107۔
2۔ لغت نامہ دہخدا، لفظ رحمت کے ذیل میں یہ معانی بیان کیے گئے ہیں۔
3۔ طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۲، ص۱۵۸-۱۵۹۔
4۔ شیرازی، ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، ج1، ص110۔
5۔ مستدرک سفینة البحار، جلد 4، صفحه 135.
6۔ خمینی، سید روح اللہ، صحیفہ امام، ج 8، ص 379۔
7۔ سورہ انفال، آیت: 33۔
8۔ (طیب، سید عبدالحسین، تفسیر اطیب البیان، جلد 18 - صفحه 12)
9۔ رازی، فخر الدین، تفسیر کبیر، ج1، ص55۔
10۔ سورہ انبیاء، آیت: 107.
11۔ طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج14، ص467۔
12۔ نظیری نیشاپوری۔
13۔ نجفی، محسن علی، تفسیر کوثر، ذیل آیہ 107 سورہ انبیاء۔
14۔ نجفی، محسن علی، تفسیر کوثر، ذیل آیہ 107 سورہ انبیاء۔
15۔ کتاب الفقیہ، ج1، ص191۔
https://taghribnews.com/vdcfjjdtxw6d0ya.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ