تاریخ شائع کریں2021 9 October گھنٹہ 21:20
خبر کا کوڈ : 522044

شیعہ نوجوان یاور عباس کی شہادت کیسے ہوئی، اہم انکشافات

یاور عباس کے ڈرائیور عنایت اللہ نے بتایا کہ وہ سجھے کہ ایف سی اہلکار معمول کی کارروائی کر رہے ہیں، اس لئے ہم دونوں نے اپنا شناختی کارڈ چیکنگ کیلئے دے دیا، لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے شناختی کارڈ پر نام سید یاور عباس پڑھا تو اسے ٹرک سے نیچے اتار لیا۔
شیعہ نوجوان یاور عباس کی شہادت کیسے ہوئی، اہم انکشافات
ابو ضحاک کی خصوصی رپورٹ
بشکریہ:اسلام ٹائمز


گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں ایک شیعہ نوجوان کو قتل ہوتے دیکھا گیا۔ یہ یاور عباس نامی جوان میانوالی شہر سے تھے، جنہیں چند ماہ قبل اغوا کرنے کے بعد دہشت گرد تنظیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے انتہائی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ شہید سید یاور عباس کو ٹی ٹی پی نے 22 فروری کو اغوا کیا تھا اور 7 ماہ بعد حکومت سے کئے گئے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں قتل کیا۔ سید یاور عباس گڈز ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ 21 فروری 2021ء کو بھی اپنے دوست اور ٹرک ڈرائیور عنایت اللہ کے ہمراہ صدا پارہ چنار سامان پہچانے کی بکنگ ملی تھی۔ سامان متعلقہ افراد کو پہچانے کے بعد راستوں کے خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے بنوں کے راستے واپس آرہے تھے کہ اسلحہ بردار دہشت گردوں نے یرغمال بنالیا۔ انہوں نے ایف سی کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں، وہ راہ گیروں کو ایسے ہی یرغمال بنا رہے تھے۔

یاور عباس کے ڈرائیور عنایت اللہ نے بتایا کہ وہ سجھے کہ ایف سی اہلکار معمول کی کارروائی کر رہے ہیں، اس لئے ہم دونوں نے اپنا شناختی کارڈ چیکنگ کیلئے دے دیا، لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے شناختی کارڈ پر نام سید یاور عباس پڑھا تو اسے ٹرک سے نیچے اتار لیا۔ مقتول کے موبائل کو چیک کیا تو اس میں وہ ویڈیوز برآمد ہوئیں، جو انہوں نے عراق میں اربعین سید الشہداء کے موقع پر بنائی تھیں۔ انہوں نے یاور عباس کو یرغمال بنا لیا اور ڈرائیور عنایت اللہ کو وہاں سے واپس جانے کا کہا، عنایت اللہ نے فوری طور پر شیوہ چیک پوسٹ پر ایف سی اور پولیس کو اطلاع کی۔

مقتول کے چچا سید عزیز نے ایک ویڈیو بیان میں بتایا ہے کہ واقعہ کا مقدمہ بھی دیر سے درج کیا گیا، تاہم وہ مقدمہ سامنے نہیں لایا گیا۔ مقتول کے دوست عنایت اللہ کا بیان ریکارڈ کرکے اسے واپس میانوالی بھیج دیا گیا تھا، کچھ ماہ بعد اسی علاقے میں کچھ اور لوگوں کو اغوا کیا گیا، جس میں ایک ڈاکٹر اور وکیل شامل تھے۔ ان مغویوں کی وجہ سے ہماری اپنے بھتیجے سے ایک گھنٹہ بات چیت ہوئی، جس میں اس نے ہمیں بتایا کہ ہم یہاں اغواء کرکے لائے گئے اور ان کے حکومت سے کچھ مطالبات ہیں، اگر پورے ہوگئے تو ہمیں چھوڑ دیا جائے گا۔ یہ گیاہ محرم کا دن تھا، جب ہماری بات ہوئی تھی۔ جس مغوی نے ہماری بات کروائی تھی، اس کا نام عبد الباسط تھا، عبد الباسط کو بعد ازاں دیگر دو مغویوں سمیت رہا کر دیا گیا تھا۔

مگر اکتوبر کے آغاز میں میرے بھتیجے یاور عباس کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، جس کی ٹی ٹی پی نے ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ ہم نے 7 ماہ کے دوران صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو کئی بار درخواست کی تھی کہ اس کیس پر خصوصی توجہ دی جائے، مگر افسوس کہ ہمارا نقصان کر دیا گیا، ہمارے بیٹے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اب ہمارا بیٹا شہید ہوچکا، اس کا قصور یہ تھا کہ وہ محب وطن پاکستانی تھا اور محب آل محمد تھا۔ شہید کے چچا سید عزیز نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہا کہ ہم نے بارہا آرمی چیف کو خطوط لکھے ہیں کہ ہمارا بیٹا شہید ہوگیا، اب اس کی لاش لانے میں ہماری مدد کی جائے، تاکہ ہم تدفین کرسکیں، اس کی ماں کا انتظار بڑھتا جا رہا ہے۔

ہماری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ شہید کی لاش مطہر کو واپس لانے میں ہماری مدد کریں۔ عالمی دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی جانب سے میانوالی کے علاقہ ڈھیر امید علی شاہ کے رہائشی سید یاور عباس کو اغواء کے بعد بے دردی سے شہید کرنے کا واقعہ پہلا نہیں اور نہ ہی آخری واقعہ ہوگا۔ جب تک ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ملک دشمن عناصر کا ملک سے صفایا نہیں کر دیتے اور ان کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان نہیں بنا دیتے، یہ ناسور ملک اور اسلام دونوں کیلیے خطرہ ہیں۔ پالیسی ساز اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر دہشت گردوں کو معاف کیا گیا اور انہیں قومی دھارے میں لایا گیا تو کئی ماوں کی گودیں یونہی اجڑتی رہیں گی۔
https://taghribnews.com/vdcgtx9ntak9xz4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ