تاریخ شائع کریں2021 4 October گھنٹہ 15:58
خبر کا کوڈ : 521430

حکومت پاکستان کے گڈ طالبان سے مذکرات

موجودہ حکومت سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے، عمران خان کو جو لوگ طالبان خان کہتے تھے، وہ ایسی ہی سوچ و فکر کی وجہ سے کہتے تھے، ماضی میں جب آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں سے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے عمران خان اور مولانا سمیع الحق گروپ کو اپنا اعتماد بخشا۔
حکومت پاکستان کے گڈ طالبان سے مذکرات
تحریر: ارشاد حسین ناصر
بشکریہ:اسلام ٹائمز


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کی بات کی ہے۔ ترک میڈیا کو اپنے انٹرویو میں انہوں نے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان کیساتھ مذاکرات اور بات چیت افغان طالبان کے ذریعے جاری ہے، ان کیلئے عام معافی کا آپشن موجود ہے، اس معاملہ پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر صاحبان فکر و سوچ اپنی آراء اور تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں، سب سے اہم اور بنیادی سوال کیا جا رہا ہے کہ کہ ستر سے اسی ہزار پاکستانیوں، جن میں افوج پاکستان، سکیورٹی فورسز کے اہم ترین افراد اور سول و حکومتی اہم شخصیات بھی شامل ہیں، ان کے قاتلوں کو کیسے معافی دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں اور سکولز اڑانے والوں کو کیسے معافی دی جا سکتی ہے؟ آیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دہشت گردوں، ملک کے غداروں، دشمن کے آلہء کاروں، بھارت کے نمک خواروں کو عام معافی دے۔؟

عمران خان کے بارے اب تک کا ریکارڈ یہی ہے کہ موصوف اپنی ہر بات سے مکر جاتے ہیں، یا یہ کہہ لیجئے کہ اپنی ہر بات اور ماضی میں کئے گئے مطالبے سے یو ٹرن لے لیتے ہیں، جن کاموں پر اپوزیشن میں رہتے ہوئے اپنی تقاریر میں شدید تنقید کرتے تھے، انہی کو اقتدار میں آنے کے بعد خود کرتے ہیں، اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، جن کی تفاصیل سوشل میڈیا پر موجود ہے، ہم اس وقت ان کی طرف نہیں جاتے، اصل مدعا کی طرف آتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان ہونے کے ناطے انہوں نے جو بات کی ہے، جس سے ہماری پارلیمان کی توہین ہوتی ہے، ہمارے عوام کی توہین ہوتی ہے، ہمارے شہداء اور ان کے خانوادوں کی توہین ہوتی ہے، ہماری ریاست اور اس کے اقتدار اعلیٰ کی توہین ہوتی ہے، عمران خان ایک پارلیمان کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں، اس کی موجودگی میں اتنا بڑا اور اہم ترین فیصلہ پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر کیسے کیا گیا ہے۔؟

کیا ماضی میں دہشتگردی سے متعلق اسی پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا رہا، کیا ہماری افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان ہمارے قبائلی علاقوں میں ہونیوالی دہشتگردیوں اور ملک بھر میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات پر پارلیمان کو بند کمرے میں بتاتے نہیں رہے کہ اب وزیراعظم صاحب نے پارلیمان کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔ کیا ملک میں افواج کی آمد، رینجرز کا شہروں میں تعینات ہونا، فوجی عدالتوں کا وجود میں آنا جبکہ دہشتگردی کیخلاف خصوصی عدالتیں موجود تھیں اور کیا نیشنل ایکشن پلان کی عملداری پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر ممکن تھی؟ نیشنل ایکشن پلان آخر کس کیخلاف تھا کہ اب انہیں کھلی چھوٹ دینے کی تیاری ہے۔ اپوزیشن رہنماء اور سابق صدر پاکستان آصف علی ذرداری اور ان کی پارٹی نے اس پر کھل کر موقف دیا ہے کہ دہشتگردوں کا علاج صرف نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہے، پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو دہشتگرد ڈکلیئر کرکے ان کا علاج کیا جانا چاہیئے، نہ کہ انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے۔

موجودہ حکومت سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے، عمران خان کو جو لوگ طالبان خان کہتے تھے، وہ ایسی ہی سوچ و فکر کی وجہ سے کہتے تھے، ماضی میں جب آپریشن ضرب عضب میں دہشتگردوں سے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے عمران خان اور مولانا سمیع الحق گروپ کو اپنا اعتماد بخشا، عجب ہے کہ اب انہی طالبان نے عمران خان کو اعتماد نہیں دیا اور ان کی آفرز کو بظاہر ٹھکرایا ہے جبکہ ان کا اعتماد اب افغان طالبان پر ظاہر ہوا ہے اور ہمارے وزیراعظم کا اعتماد بھی افغان طالبان ہی ٹھہرے ہیں۔ آج ہماری ایک بات ثابت ہوچکی ہے کہ طالبان، طالبان ہیں۔ وہ افغان ہوں یا غیر افغان، طالبان میں کسی قسم کا فرق نہیں، ہماری افواج، اداروں، میڈیا اور متعلقہ اداروں نے طالبان کو تقسیم کیا ہوا تھا، ایک ٹرم تو ہمارے بادشاہ لوگوں نے نکال رکھی تھی، گڈ طالبان اور بیڈ طالبان، حقیقت میں یہ تصور ہی غلط ثابت ہوچکا ہے۔

ہم انہیں گڈ طالبان کہتے اور سمجھتے تھے، جو امریکی قبضے کے دوران افغانستان میں حملے کرتے تھے، یہ حملے چاہے افغانوں کیخلاف ہوتے یا نیٹو فورسز کیخلاف، حکومت افغانستان کیخلاف ہوتے یا افغانستان میں دوسرے ممالک کے سفراء و سفارت خانوں کیخلاف، ہم انہیں ہمیشہ گڈ طالبان کی اچھی کارکردگی تعبیر کرتے اور وہ طالبان جو پاکستان کے گوش و کنار میں عام عوام، بازاروں، درباروں، عبادت خانوں، سول و آرمی اسکولز، فورسز، اداروں، ایجنسیوں، ہمارے انفراسٹرکچر پر حملہ آور ہوتے انہیں بیڈ طالبان کہا جاتا، ان بیڈ طالبان کے بارے ہمیں یہ سبق پڑھایا گیا کہ انہیں افغانستان کی ایجنسی این ڈی ایس، بھارت کی خفیہ ایجنسی، را اور پاکستان دشمن ممالک کی مدد حاصل ہے اور ان کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے، ہم ان کو ان کے سہولت کاروں سمیت جڑ سے اکھاڑ باہر کریں گے۔

عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ بیس برس کے دوران جب گڈ طالبان کی مہمان نوازی کا شرف بھی ہمیں حاصل تھا، اس دوران بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے سانحات میں سے کسی کی مذمت ہمارے مہمان "گڈ طالبان" نے نہیں کی، فقط زبانی مذمت کی بات کر رہا ہوں، اس کے باوجود ہم نے گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کا تصور لوگوں میں راسخ کیا۔ دراصل یہ ہمارے ذمہ دار اداروں اور دہشت گردی کا عالمی فنڈ استعمال کرنے والوں کی بھیانک سازش ہے کہ ایک طرف نیشنل ایکشن پلان، ایک طرف فوری فوجی عدالتیں، ایک طرف فوجی آپریشنز اور دوسری طرف یہ سب کرنیوالوں کے سرپرستوں کی میزبانی اور نوازشات، آخر ہمارے اداروں کو ان کی ملی بھگت کا علم نہیں تو پھر کسی عام فرد کو کیسے ہوسکتا ہے، جبکہ ہم نے دیکھا کہ عام لوگ ہمیشہ طالبان کو ایک ہی فریم میں دیکھتے اور ڈسکس کرتے رہے ہیں۔

آپ ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ جب پاکستان کو مغربی سرحد سے تازہ ہوا کا جھونکا ملنا چاہیئے تھا تو ہمارے ان مہربانوں نے پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر شروع کر دی ہے، پندرہ اگست سقوط کابل یعنی افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے بیسیوں دہشتگردی کے واقعات ہوچکے ہیں، جن میں فورسز کے کئی لوگ نشانہ بنے ہیں، جبکہ دہشتگردی کے خاتمہ اور وزیرستان سمیت سابقہ ایجنسی ایریاز میں فوجی کنٹرول کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، کیا پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور طالبان سے منسلک شدت پسند گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں جن میں کئی کالعدم گروہ بھی شامل ہیں، اس بات کا پیغام نہیں کہ طالبان جنہیں پال پوس کر بڑا کیا گیا ہے، وہ آپ کی ماننے کے بجائے اپنی منوانا چاہتے ہیں۔؟

اس سارے منظر نامے کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ حکمران ہوں یا ان کے پیش رو، انہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ، جس کے عالمی کھلاڑیوں سے گہرے تعلقات ہیں، ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے آئے ہیں، وزیراعظم عمران خان بھی ایک ایسا کھلاڑی ہے، جسے عالمی کردار، لوکل اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مل کر بڑے ہی اچھے انداز سے کھلا رہی ہے، مگر اس کھلاڑی کا مستقبل بھی اتنا روشن نہیں دکھائی دیتا۔ افغانستان کی دلدل میں بظاہر پھنسے عالمی مہروں کو جس نے بھی ریسکیو کرنے کے نام پر کسی بھی قسم کی کوشش کی ہے، وہ اس میں بری طرح پھنس گیا ہے، ہماری ایک شخصیت نے جو چائے کابل میں جا کر پی ہے، وہ ہمارے ہی گلے پڑتے نظر آرہی ہے، طالبان نے اس دوران ہمیں اپنا اصل دکھایا ہے، ایک دفعہ بارڈر پر امدادی سامان لے کر جانیوالے ٹرکوں سے پاکستانی پرچم کو توہین آمیز انداز میں اتار کر، ایک بار کسی ٹی وی شو میں عمران خان کے بارے میں ایک بے سر و پا گفتگو کرکے اور سب سے بڑھ کے پاکستان کے افغانستان سے ملے ہوئے سابق قبائلی علاقوں میں فوجی مراکز اور کانوایوں پر حملے کرکے اپنی اصل دکھائی ہے، اس کے باوجود ہمارے اصل حکمران اور ان کے ہاتھوں میں کھیلتے کٹھ پتلی حکمران کوہلو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہے ہیں۔
 
https://taghribnews.com/vdcexz8n7jh8wei.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ