تاریخ شائع کریں2021 24 June گھنٹہ 16:10
خبر کا کوڈ : 509069

نیب آرڈنینس سزا سے قبل سزا؟

سابق نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ سیاسی کیسز میں ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مکمل شواہد اکھٹے ہوں اور گرفتاری صرف اس وقت کریں جب ناگزیر ہو اس کے بعد شواہد اور شہادتیں پیش کر کے کیس نمٹا دیا جائے۔
نیب آرڈنینس سزا سے قبل سزا؟
تحریر:وسیم عباسی
بشکریہ:اردو نیوز، اسلام آباد


لاہور ہائی کورٹ نے بدھ کو منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

ضمانت پر رہائی کے بعد خواجہ آصف ان اپوزیشن سیاستدانوں کی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے وقت تو نیب نے بڑے سکینڈل میں ملوث ہونے سے متعلق دعوے کیے تاہم انہیں عدالتوں کی جانب سے ایک ایک کر کے ضمانت پر رہا کیا گیا۔

اس فہرست میں خواجہ آصف کے علاوہ سابق صدر آصف زرداری،  وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیرداخلہ احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، سلمان رفیق، حمزہ شہباز شامل ہیں، جو نیب کیسز میں کئی کئی ماہ گرفتار رہنے کے بعد رہا ہوئے تاہم ابھی تک ان کے خلاف کیسز عدالتوں سے ثابت نہیں ہوئے۔

اگست 2018  میں جب سے وزیراعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے زیادہ تر رہنما آمدن سے زائد اثاثوں، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دیگر کیسز میں نیب کی قید بھگت چکے ہیں۔

خواجہ آصف کو گزشتہ سال دسمبر میں نیب نے گرفتار کیا تھا جبکہ ان کی درخواست ضمانت 27 مارچ 2021 کو دائر کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ نیب ابھی تک خواجہ آصف کے خلاف ریفرنس عدالت میں جمع نہیں کروا سکا ہے۔

اسی طرح گزشتہ دور حکومت کے دو طاقتور ترین بیوروکریٹ سابق پرنسپل سیکرٹری برائے وزیراعظم فواد حسن فواد اور ڈائریکٹر ایل ڈی اے احد چیمہ تقریبا تین تین سال زیرحراست رہنے کے بعد بغیر عدالتی سزا کے رہا ہوئے تھے۔جبکہ حکومتی جماعت کے پنجاب کے دو وزرا علیم خان اور سبطین خان بھی نیب کیسز میں گرفتاری کے بعد رہا ہو کر وزیر بن چکے ہیں۔

سزا سے قبل سزا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان بھی گزشتہ سال اپنے ایک فیصلے میں نیب کی ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاریوں کو نیب آرڈنینس سے متصادم قرار دے چکی ہے۔

جولائی 2020 میں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق ضمانت کیس میں اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ملزمان کے خلاف انکوائری، ان کی گرفتاری اور انہیں لمبے عرصے تک جیل میں رکھنے کا عمل نیب آرڈنینس سے مطابق نہیں رکھتا اور آئین کے مطابق ریاست کو اپنے شہریوں کی آزادی کے حق کو یقینی بنانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ یہ کیس انسانی حقوق کی پامالی، ذاتی آزادی سے غیر قانونی محرومی، اور آئین میں یقینی بنائی گئی انسانی عظمت سے مکمل انحراف  کی واضح مثال ہے۔

جسٹس باقر نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نیب کی دھونس اور انسانی عظمت کی کھلی پامالی کی وجہ سے نیب ملک کی سرحدوں کے باہر بھی بدنام ہو رہا ہے۔ 

اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیٹور عمران شفیق کا کہنا ہے کہ جرم ثابت ہوئے بغیر اتنے لمبے عرصے تک نیب کی گرفتاریاں سزا سے قبل سزا کے مترادف ہیں۔ 

ان سے پوچھا گیا کہ نیب کی جانب سے بڑے سیاسی کیسز میں جرم عدالتوں میں ثابت کرنے میں تاخیر کی کیا وجہ ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ نیب کی طرف سے انویسٹی گیشن میں کمی رہ جاتی ہے۔

مثالی طور پر تو ہونا یہ چاہیے کہ نیب کسی بھی گرفتاری سے قبل تمام شواہد اکھٹے کر لے۔ تاہم ہو یہ رہا ہے کہ نیب لوگوں کو جیل میں ڈال دیتا ہے اور ریفرنس میں تاخیر کرتے ہیں اور اس دوران ملزم گرفتار ہی رہتا ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ سیاسی کیسز میں ہوم ورک ہونا چاہیے۔ مکمل شواہد اکھٹے ہوں اور گرفتاری صرف اس وقت کریں جب ناگزیر ہو اس کے بعد شواہد اور شہادتیں پیش کر کے کیس نمٹا دیا جائے۔

عمران شفیق کے مطابق نیب کو چاہیے کہ گرفتار افراد کا ٹرائل جلد مکمل کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ احد چیمہ کیس میں تین سال انہیں جیل میں رکھا گیا مگر ان کو سزا نہیں ملی تو کیا سزا سے قبل سزا دی جا سکتی ہے؟

نیب ترجمان کا موقف

نیب کے ترجمان نوازش علی خان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کی ضمانت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا کیس ختم ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کے خلاف ریفرنس نیب ہیڈکوارٹرز کو موصول ہو گیا ہے اور اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

سیاسی کیسز میں جرم ثابت ہوئے بغیر طویل گرفتاریوں پر ان کا کہنا تھا کہ تمام کیسز میں گرفتاریاں قانون کے مطابق ہوئی ہیں اور قابل دست اندازی پولیس کیسز میں نیب آرڈیننس کی سیکشن 24 کے مطابق نیب وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد ملزمان کو احتساب عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اور معزز عدالت دونوں اطراف کے دلائل سن کر قانون کے مطابق نیب کی حراست میں ریمانڈ جاری کرتی ہے۔ نیب زیادہ سے زیادہ نوے دن تک جسمانی ریمانڈ لے سکتی اور اس کے بعد جوڈیشل ریمانڈ دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب ارڈنینس کی شق 16 میں کہا گیا ہے کہ ریفرنس فائل کرنے کے بعد احتساب عدالت روزانہ کی بنیاد پر کیس سنے گی اور تیس دن کے اندر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ 

نیب ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت 1273 کے قریب نیب ریفرنسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں، جن میں درج کیسز میں کرپشن کی مالیت 1302 ارب روپے ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ نیب کیسز میں سزائیں ہی نہیں ہوتیں بلکہ نیب کیسز میں نواز شریف سمیت درجنوں کیسز میں جرم ثابت ہونے پر سزائیں دی گئی ہیں اور اربوں روپے کی ریکوری بھی نیب کی کامیابی کا ثبوت ہے۔

نیب ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ریٹائرڈ جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے سید جلیل ارشد کیس میں واضح طور پر قرار دیا تھا کہ نیب کسی بھی شخص کو ٹھوس شواہد کی بنیاد گرفتار کر سکتا ہے۔‘

’سپریم کورٹ کے مطابق’ نیب آرڈیننس 1999 کے جائزے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیب پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کسی ملزم کو بغیر اطلاع دیے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔‘

’یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر نیب نے کسی شخص کے کسی جرم میں ملوث ہونے کے خاطر خواہ شواہد اکٹھے کر لیے ہوں تو نیب ایسے شخص کو بالکل گرفتار کر سکتا ہے، تاہم ہم نیب سے اپنی طاقت کے غلط استعمال کی توقع نہیں رکھتے۔‘

اس لیے نیب اس تاثر کو رد کرتا ہے کہ گرفتاری سزا سے قبل سزا ہے کیونکہ گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر ملزم کو قانون کے مطابق احتساب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
 
https://taghribnews.com/vdciq3aw3t1auu2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ