تاریخ شائع کریں2018 24 May گھنٹہ 15:18
خبر کا کوڈ : 332885

لبنان میں انتخابات کے بعد کی صورتحال

نبیہ بری کے حق میں 98 ووٹ ڈال کر اراکین کی بھاری اکثریت نے انہیں چھٹی مرتبہ لبنانی پارلیمان کا اسپیکر منتخب کرلیا
ماضی قریب میں بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ امریکی سعودی بلاک نے اس خطے کیلئے جو منظرنامہ تیار کر رکھا تھا، اس میں لبنان و عراق کے پارلیمانی انتخابات دو اہم مرحلے تھے اور انتخابی نتائج بتا رہے ہیں کہ امریکی سعودی بلاک کی کیلکیولیشن تاحال غلط ثابت ہوئی ہے اور ان دونوں ممالک میں ایران دوست جماعتیں اور شخصیات کی سیاسی و پارلیمانی حیثیت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوچکی ہے۔
لبنان میں انتخابات کے بعد کی صورتحال
لبنان کی یک ایوانی مقننہ کے لئے 6 مئی کے عام انتخابات کے نتائج کے بعد سے اس عرب ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حکومت سازی کے لئے بنیادی مرحلہ بدھ 23 مئی 2018ء کو طے ہوچکا کہ قومی اسمبلی کے نو منتخب اراکین نے حلف اٹھایا، عمر رسیدہ سیاستدان میشال مر نے اجلاس کی صدارت کی۔ حزب اللہ کے اتحادی اور انکے حمایت یافتہ امیدوار نبیہ بری کے حق میں 98 ووٹ ڈال کر اراکین کی بھاری اکثریت نے انہیں چھٹی مرتبہ لبنانی پارلیمان کا اسپیکر منتخب کرلیا۔ لبنان کی سیاسی حرکیات پیچیدہ اور حیرت انگیز سہی لیکن دلچسپ بھی ہیں، کیونکہ نبیہ بری جیسے منجھے ہوئے سیاسی ہیوی ویٹ کی مخالفت کی ہمت اور جرات کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو درمیانی راہ نکال ہی لیتے ہیں، جیسا کہ سعد حریری کے اتحادی القوات اللبنانیہ کے قائد سمیر جعجع جن کی جماعت کے 15 اراکین منتخب ہوئے ہیں، نے حسب اعلان بیلٹ کو خالی چھوڑا نہ حمایت نہ مخالفت کی۔ سعد حریری کی تیار المستقبل نے نبیہ بری کی حمایت کی اور ووٹ حق میں ڈالا جبکہ سعد حریری اور سمیر جعجع دونوں ہی حزب اللہ کے مخالفین ہیں۔ صدر میشال عون کی فری پیٹریاٹک موومنٹ کہ جس نے انتخابی اتحاد ’’مضبوط ایف پی ایم مضبوط لبنان‘‘ بنایا تھا کہ جس جماعت اور اتحاد کی سربراہی انکے داماد جبران باسل کر رہے ہیں، باجود اس کے کہ حزب اللہ کے ساتھ انکا اتحاد ہے اور بعض حلقوں میں نبیہ بری کی امل جماعت سے بھی انتخابی اتحاد تھا، اس نے نبیہ بری کے حوالے سے جو حکمت عملی وضع کی، وہ بھی حیرت انگیز تھی کہ اپنے نومنتخب اراکین کو آزاد چھوڑا کہ چاہیں تو ووٹ دیں، چاہیں تو بیلٹ خالی چھوڑ دیں۔ اس جماعت کو پارلیمان میں 29 نشستیں حاصل ہوئی ہیں اور یہ اب سنگل لارجیسٹ پارلیمانی بلاک ہے، یعنی اب سعد حریری کا پارلیمانی بلاک جو سنگل لارجیسٹ بلاک تھا، وہ اب پیچھے رہ گیا ہے۔

اس پارلیمانی بلاک کا نامزد کردہ امیدوار ایلی فرزلی، مشرقی آرتھوڈوکس مسیحی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگیا ہے اور مغربی ذرایع ابلاغ نے اسی وجہ سے اس کی سرخی یہ بنائی ہے کہ حزب اللہ کا اتحادی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگیا ہے۔ 2005ء سے اس منصب پر سعد حریری کی جماعت کا حمایت یافتہ فرید نبیل مکاری براجمان تھا۔ یعنی حزب اللہ اتحاد نے مخالفین کو ایک شکست عام انتخابات میں دی اور دوسری ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کی صورت میں دی۔ اصل میں نبیہ بری کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد پہلے ہی لبنانی نیوز چینل پر نشر کی جاچکی تھی۔ انکی اپنی جماعت ال امل کے 17 (اس میں چار غیر شیعہ ہیں)، حزب اللہ کے 13، سعد حریری کی جماعت کے 20، دروز سیاستدان ولید جنبلاط کی پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی کے 9، تیار المردہ کے 7، العزم کے 4، سیرین نیشنل سوشلسٹ پارٹی (الحزب السوری القومی الاجتماعی) کے 3 اور آزاد 7 اراکین کو ملا کر کل 80 ووٹوں کا پہلے ہی انکشاف ہوگیا تھا۔ یعنی کہا جاسکتا ہے کہ جبران باسل کی جانب سے آزاد چھوڑے جانے کے باوجود انکی جماعت کے 18 اراکین نے بھی نبیہ بری کے حق میں ووٹ دیا ہوگا۔ ڈپٹی اسپیکر ایلی فرزلی شام کے حامی سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس میں جو حزب السوری جماعت ہے، یہ ایک شام ریاست کے حق میں ہے، جو لبنان، شام، اردن، عراق و فلسطین میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔

حزب اللہ کے اتحادی دروزیوں کی جماعت حزب الدیمقراطی اللبنانی ہے، جس کے سربراہ طلال ارسلان ہیں، جو خود کو ماضی کے شاہی خاندان بنو لخم سے بتاتے ہیں، اسی لئے انہیں شہزادہ (امیر) بھی کہا جاتا ہے۔ طلال ارسلان اور ولید جنبلاط کے حامیوں میں جھڑپیں ہوچکی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بھی کرچکے ہیں۔ ولید جنبلاط اور سعد حریری کے مابین بھی نرم گرم چلتا رہتا ہے۔ نام لئے بغیر ٹوئٹر پر شکست خوردہ جماعت اور قائدین پر ایک تبصرہ انہیں مہنگا پڑگیا اور سعد حریری نے انہیں جوابی ٹویٹ انکے نام سے کیا کہ ولید بیگ تم ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ اسی طرح سمیر جعجع اور سعد حریری اور انکی جماعتوں کے مابین پچھلے سال سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات و الزامات کی جنگ جاری تھی، حریری کے حامی یہ سمجھتے تھے کہ سعد حریری کو سعودی عرب بلا کر استعفیٰ لینے کی شرمناک حرکت کا اصل محرک سمیر جعجع تھے، جنہوں نے سعودیوں سے کہا تھا کہ سعد حریری سے جان چھڑائی جائے۔ اب لبنان میں سعودی عرب کے سفارتخانے کے چارج ڈی افیئر اور متحدہ عرب امارات کے سفیر نے سمیر جعجع سے ملاقات کی ہے اور انہیں کامیابی پر مبارکباد بھی دی ہے اور اب جعجع اور سعد حریری ایک اور مرتبہ اتحادی بن چکے ہیں۔ یہ سارے نکات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تضادات سے بھرپور لبنان کی دلچسپ سیاسی ستم ظریفیوں سے آگاہی حاصل ہو، یعنی یہ جو آپس میں الجھتے رہتے ہیں، انہوں نے لبنان کی پارلیمان کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات میں اپنے ووٹوں کا استعمال کس طرح کیا، اس پر غور فرمائیں! سمیر جعجع نے نبیہ بری کی مخالفت بھی نہیں کی تو حمایت بھی نہیں کی، جبکہ سعد حریری کی جماعت نے بری کے حق میں ووٹ ڈالے۔ جبران باسل حزب اللہ کے اتحادی ہونے کے باوجود نبیہ بری کے حوالے سے پس پردہ نازیبا کلمات ادا کرنے کی وجہ سے امل کے حامیوں کی تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔

اس مرتبہ حزب اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح کی وزارتوں پر اکتفا نہیں کرے گی، بلکہ ایسے محکمے کا چناؤ کرے گی کہ جس کے ذریعے وہ عوام کی براہ راست خدمت کرسکے۔ حکومت سازی کا اگلا مرحلہ وزیراعظم کا چناؤ ہے، جس کے لئے تاحال سعد حریری واحد مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ البتہ اس کے لئے صدر میشال عون جمعرات سے مشاورت کا عمل شروع کر رہے ہیں، جو لبنان کے مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے تا شام پانچ بجے تک جاری رہنا ہے۔ سب سے پہلے سعد حریری، اس کے بعد سابق وزرائے اعظم نجیب میقاتی اور تمام سلام الگ الگ، پھر ڈپٹی اسپیکر ایلی فرزلی، المستقبل بلاک کا وفد صدر میشال عون سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ مضبوط لبنان بلاک کے وفد میں میشال عون کی اپنی جماعت کے اراکین، آرمینیائی بلاک، جبل لبنان کا اتحاد ضمانت، جس میں طلال ارسلان، قیصر ابی خلیل، ماریو عون، فرید البستانی اور آزاد تحریک کے رکن میشال موود شامل ہیں۔ اس کے بعد حزب اللہ کے اپنے انتخابی پلیٹ فارم الوفاء للمقاومۃ کا وفد، اس کے بعد نیشنل کوالیشن کے فرید ال خازن، طونی فرنجیہ، فیصل کرمی، اسٹیفن دویہی، فائز غسن، مصطفٰی ال حسینی اور جہاد الصمد، اجتماع الدیمقراطیہ، میقاتی کا آزاد مرکز بلاک، ایس ایس این پی، سمیر جعجع کا مضبوط جمہوریہ بلاک، کتائب پارٹی، دیگر اراکین بشمول میشال مر، فواد مخزومی، عیدی دمرجیان، اسامہ سعد، جمیل السید (یہ حزب اللہ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے ہیں اور ماضی میں لبنان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بااختیار اور با اثر رکن تھے)، عدنان طرابلسی، عبدالرحم مراد، بولا یقوبیان اور سب سے آخر میں نبیہ بری کی امل جماعت کا اپنا انتخابی پلیٹ فارم التنمیہ و التحریر یعنی ترقی و آزادی کے وفد کی میشال عون سے ملاقات طے پائی ہے۔ مذکورہ ترتیب سے لبنانی صدر سے ملاقاتوں میں حکومت سازی بشمول وزارت عظمیٰ سے متعلق تبادلہ خیال ہونا ہے۔

سعد حریری اور سمیر جعجع چاہیں بھی تو حزب اللہ کو حکومت کا حصہ بننے سے روکنے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ حزب اللہ اور انکے اتحادیوں کو نہ صرف پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے بلکہ اہم فیصلوں میں ویٹو پاور بھی حاصل ہونے کا قوی امکان ہے۔ لبنان کی مخصوص سیاسی و جغرافیائی صورتحال اور مخصوص سیاسی نظام اور شراکت اقتدار کے پیچیدہ طریقہ کار کی وجہ سے کابینہ میں کل شیعہ وزراء کی تعداد 6 ہوسکتی ہے اور اگر یہ تعداد 6 ہوئی تو حزب اللہ کے حصے میں تین وزارتیں آئیں گی۔ نبیہ بری صاحب کی جماعت خزانے کی وزارت پر اپنا دعویٰ رکھتی ہے جبکہ جبران باسل مارونی مسیحی جماعت کے قائد کی حیثیت سے سماجی امور کی وزارت کو اپنے وزیر کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ حزب اللہ مالی بدعنوانی کے خلاف فعال کردار ادا کرنے کا موڈ بنا چکی ہے اور اسکی نظر میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز شخصیات کی وجہ سے ماضی میں لبنان کو اقتصادی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔ حزب اللہ کی مرکزی کاؤنسل کے رکن شیخ نبیل قاووق کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ خواہش و کوشش ہے کہ حزب اللہ لبنان کی حکومت سے باہر رہے، لیکن آنے والے ایام میں پتہ چل جائے گا کہ سعودی عرب لبنان کے اندر بہت ہی کمزور حیثیت رکھتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے لبنانیوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی سازش کر رکھی ہے اور اب پارلیمانی گروہوں کے ذریعے حزب اللہ کا گھیراؤ کرنا چاہتا ہے، البتہ لبنان ایسی سرزمین ہے، جہاں سعودی مقاومت کے مقابلے میں کچھ بھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ لبنان کے سیاسی اسٹیک ہولڈرز راضی خوشی نہ سہی بحالت مجبوری درمیانی راہ نکالتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی انہیں یہ کڑوی گولی نگلنا پڑے گی، جیسے کہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے لئے رائے دہی کے موقع پر انہوں نے اپنے متضاد موقف کے باجود نبیہ بری اور ایلی فرزلی کو منتخب کرلیا اور فرزلی کا انتخاب یقیناً کڑوی گولی سے کم نہیں تھا۔

ماضی قریب میں بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ امریکی سعودی بلاک نے اس خطے کے لئے جو منظرنامہ تیار کر رکھا تھا، اس میں لبنان و عراق کے پارلیمانی انتخابات دو اہم مرحلے تھے اور انتخابی نتائج بتا رہے ہیں کہ امریکی سعودی بلاک کی کیلکیولیشن تاحال غلط ثابت ہوئی ہے اور ان دونوں ممالک میں ایران دوست جماعتیں اور شخصیات کی سیاسی و پارلیمانی حیثیت پہلے سے زیادہ مستحکم ہوچکی ہے۔ روسی صدر کے مبہم بیان کے بعد مغربی و عربی ذرایع ابلاغ شام سے غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کے مطالبے کو ایران اور حزب اللہ پر منطبق کر رہے تھے، انکے لئے شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے بیان جاری کر دیا ہے کہ ایران اور حزب اللہ کی شام سے واپسی کسی بھی بات چیت یا مباحثے کے ایجنڈا میں شامل ہی نہیں رہی اور انکی رائے یہ ہے کہ اس طرح کی خواہش یا مطالبہ ان کا ہے، جو شام کے ہر حصے میں مداخلت کو ممکن بنانا چاہتے ہیں۔ چونکہ لبنان و عراق میں امریکی بلاک کو مطلوبہ و متوقع نتائج حاصل نہیں ہوئے، اس لئے امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے بھڑاس یوں نکالی ہے کہ ایک طرف ایران پر پابندیاں لگا دیں ہیں تو دوسری طرف حزب اللہ کے قائدین کے خلاف اقدامات کئے ہیں اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی حزب اللہ کے لبنان کے اندر اور اور لبنان سے باہر بشمول شام میں کردار پر تنقیدی بیان جاری کروایا گیا ہے۔ یعنی لبنانی ریاست کے دیگر اسٹیک ہولڈرز پر دباؤ بڑھانے کے لئے یہ اقدامات کئے گئے ہیں اور ان اقدامات سے ہی باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ کی کامیابی کے بعد کتنے دارالحکومتوں میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ان نتائج کی بنیاد پر نئی لبنانی پارلیمان کو لبنانی فوج، عوام اور مقاومت کی مثلث کے سنہری تناسب کی ضمانت قرار دیا۔

تحریر: عرفان علی
 
https://taghribnews.com/vdcivrapwt1apv2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ