تاریخ شائع کریں2018 23 May گھنٹہ 13:35
خبر کا کوڈ : 332640

اہل غزہ، ڈیل آف سینچری کے خلاف جنگ کی فرنٹ لائن پر

ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کا اقدام بھی اسی گھناونی سازش کا حصہ ہے
دنیا بھر میں اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف شدید احتجاج اور مذمت سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ بھی بے بس ہو چکا ہے اور سکیورٹی کونسل میں اسرائیل مخالف قرارداد ویٹو کرنے کے علاوہ غاصب صہیونی رژیم کے حق میں کوئی اقدام انجام دینے سے قاصر نظر آتا ہے
اہل غزہ، ڈیل آف سینچری کے خلاف جنگ کی فرنٹ لائن پر
حالیہ کچھ عرصے سے امریکہ، اسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک گھناونی سازش کی خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کا اقدام بھی اسی گھناونی سازش کا حصہ ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور چند عرب ممالک کے حکام کے درمیان مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کا نام "صدی کا سودا" (Deal of the century) رکھا گیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس منحوس معاہدے میں سعودی عرب سب سے آگے آگے ہے جبکہ بعض دیگر عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی شمولیت کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی ہفتے پہلے یہ اعلان کر چکے تھے کہ وہ 12 مئی کو اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کر دیں گے اور اس سلسلے میں ایک سرکاری تقریب منعقد کی جائے گی۔ شاید 12 مئی کے دن کا انتخاب ایک اتفاقی امر نہیں کیونکہ یہ وہی دن ہے جس دن اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین پر اپنے غاصبانہ قبضے کا آغاز کیا تھا اور "یوم النکبہ" کے نام سے معروف ہے۔ فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروہوں نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف "حق واپسی تحریک" چلانے کا اعلان کیا تھا جو 20 مارچ سے شروع کی گئی اور اسے 12 مئی یوم النکبہ تک چلنا تھا۔ لیکن یوم النکبہ کے روز اسرائیل نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا بیجا استعمال کیا جس میں 60 کے لگ بھگ فلسطینی شہید جبکہ ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے۔ اس پر فلسطینیوں نے اپنی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اب ہر جمعہ کے روز "حق واپسی انتفاضہ" کے تحت غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینی پرامن مظاہرے میں شامل ہوتے ہیں۔
 
طے یہ پایا تھا کہ "صدی کے سودے" کی تفصیلات 12 مئی کے دن امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے بعد اعلان کی جائیں گی لیکن اس خوف سے کہ مبادا فلسطینیوں کی جاری "حق واپسی تحریک" مزید شعلہ ور نہ ہو جائے اسے موخر کر دیا گیا۔ یہ امکان بھی پایا جاتا ہے کہ یہ تاخیر اس معاہدے میں کچھ نرمی لانے کی خاطر انجام پائی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تاخیر کی بنیادی ترین وجہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ چند ہفتوں سے جاری فلسطینیوں کے احتجاجی دھرنے کی شدت میں اضافہ ہو جانے کا خوف ہے۔ اگرچہ جب سے 2006ء میں غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے عوامی مینڈیٹ حاصل کر کے حکومت تشکیل دی ہے امریکہ اور اسرائیل نے اس علاقے کو شدید ترین محاصرے اور اقتصادی پابندیوں کا شکار کر رکھا ہے اور فلسطینی حتی بنیادی ترین ضروریات زندگی سے محروم کر دیئے گئے ہیں لیکن جیسے ہی امریکہ، اسرائیل اور چند عرب ممالک کی جانب سے "صدی کی ڈیل" نامی منحوس سازش سامنے آئی ہے فلسطینیوں نے بھرپور احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ اس تحریک کے دوران اب تک غاصب صہیونی رژیم کے ہاتھوں 100 کے قریب فلسطینی شہید جبکہ 12 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
 
غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی اس پرامن احتجاجی تحریک نے غاصب صہیونی رژیم کو شدید چیلنجز سے روبرو کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف شدید احتجاج اور مذمت سامنے آ رہی ہے۔ امریکہ بھی بے بس ہو چکا ہے اور سکیورٹی کونسل میں اسرائیل مخالف قرارداد ویٹو کرنے کے علاوہ غاصب صہیونی رژیم کے حق میں کوئی اقدام انجام دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ امریکی مخالفت کے باوجود اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں منظور کر لی گئی ہے۔ اسی طرح استنبول میں منعقد ہونے والے اسلامک کانفرنس کے ہنگامی اجلاس میں بھی نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کی شدید مذمت کی گئی ہے اور جلد از جلد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک تحقیقی کمیٹی غزہ بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
 
فلسطینیوں کی جانب سے "صدی کی ڈیل" کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کئے جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت فلسطینی مہاجرین کا حق واپسی ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت فلسطینی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد غزہ کی پٹی میں مقیم ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی ہفتوں سے اسرائیل کے ساتھ ملحقہ سرحد پر دھرنا دے رکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے مغربی کنارے میں فلسطینی حکومت تشکیل دینے کے حق سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں کو صحرائے سینا منتقل کر دیا جائے گا۔ غزہ میں مقیم فلسطینیوں کی جانب سے شدید ردعمل اور احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاہدے کے شدید مخالف ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دوسری طرف یہ احتجاج پورے مقبوضہ فلسطین میں پھیل جانے کا امکان بھی موجود ہے جس صورت میں اسرائیلی حکومت شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

تحریر: احمد کاظم زادہ
بشکریہ: اسلام ٹائمز
 
https://taghribnews.com/vdchkinxv23nx-d.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ