تاریخ شائع کریں2017 1 June گھنٹہ 12:55
خبر کا کوڈ : 269982

ٹرمپ کی صدارت میں امریکی، یورپی تعلقات داؤ پر؟

ٹرمپ سرکار کی باڈی لینگویج نیٹو یا یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں قربتوں اور گرمجوشی کی خبر نہیں دے رہے
کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ روس کو پابندیوں کے حوالے سے محدود پیمانے پر مشروط ریلیف دیں، یعنی اس شرط پر کہ وہ یوکرین میں سیز فائر کو یقینی بنائے اور مشرقی یوکرین سے بھاری اسلحہ بھی منتقل کر دے، تو ایسی صورت میں روس کے ساتھ ڈیل ہوسکتی ہے
ٹرمپ کی صدارت میں امریکی، یورپی تعلقات داؤ پر؟
تحریر: عرفان علی
بشکریہ: اسلام ٹائمز

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے تحت امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی برائے مشرق وسطٰی میں تو کوئی خاص تبدیلی ہونا نہیں، وہی اسرائیل نوازی اور وہی ایران دشمنی کی سمت پر ہی گامزن ہے، لیکن اصل مسئلہ امریکہ کی نیٹو یا یورپی اتحادیوں کے بارے میں خارجہ پالیسی کا ہے اور اس کی سمت تاحال واضح نہیں ہوسکی ہے۔ ٹرمپ نیٹو اتحاد کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرکے وطن لوٹ چکے ہیں، لیکن برسلز کے اس دورے کے بعد بھی امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں پائی جانے والی غیر یقینی کی کیفیت ختم نہیں ہو پائی ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی یا بریگزٹ سے پریشان یورپی یونین پہلے ہی اپنے آپشنز پر سوچ بچار کر رہی ہے۔ 9 فروری 2017ء کو یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کی، جس میں دہشت گردی، ایران نیوکلیئر ڈیل، روس، شام اور داعش کے ایشوز پر امریکی خارجہ پالیسی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ اس خاتون سفارتکار کا کہنا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے اپنائے گئے غیر منظم عمل برائے فیصلہ سازی پر پریشان ہیں، لیکن امریکی وزیر خارجہ سے تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پچھلے ہفتے وہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرکے وطن لوٹ چکے ہیں۔ لیکن ان سطور کے قلمبند کئے جانے تک امریکہ اور یورپ میں ان کے اس دورے کا چرچا ہے۔ اس پر کچھ لکھنے سے پہلے یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت پر چار ماہ سے زائد ہوچکے ہیں، لیکن وائٹ ہاؤس کی جانب سے تاحال یورپی ممالک میں کسی سفیر کو کنفرم نہیں کیا گیا ہے۔ اعلٰی سطحی سفارتی عہدوں پر بھی تقرری عمل میں نہیں آسکی ہے، نہ ہی کوئی اشارہ دیا گیا ہے کہ اس ضمن میں کیا اقدامات کئے جائیں گے! زیادہ تر نائب صدر اور وزیر دفاع امریکہ کے ان اتحادی ممالک کے دورے کرتے رہے اور انہیں تسلی دیتے رہے۔ فروری میں میونخ میں امریکی نائب صدر کے خطاب کے بعد ایک یورپی سفارتکار کا تبصرہ تھا کہ ٹرمپ کے اگلے ٹویٹ تک ہم نائب صدر کی اس بات کو سچ مانتے رہیں گے۔ امریکی صحافی و دانشور جب سعودی عرب کے دورے کا موازنہ کرتے ہیں تو حیران پریشان رہ جاتے ہیں کہ ٹرمپ ریاض میں آمر بادشاہوں کو حقوق انسانی پر لیکچر نہیں دیتے، لیکن برسلز میں امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک کے حکمرانوں کو لیکچر دیتے ہوئے ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ نیٹو اور امریکہ کے بہت بڑے مقروض ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں ایک امریکی اسکالر کا تنقیدی تبصرہ آیا ہے کہ ٹرمپ بھول رہے ہیں کہ نیٹو کوئی کلب نہیں ہے کہ جس کے سالانہ واجبات ہوتے ہیں۔

اس پہلے غیر ملکی دورے کے تیسرے مرحلے میں انہوں نے جرمنی کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے لئے بھی بہت کچھ کہا ہے۔ تجارت سے متعلق اجلاس میں انہوں نے کہا کہ جرمنی اس لئے برا ملک ہے کہ وہ دسیوں لاکھوں کاریں امریکہ کو فروخت کر رہا ہے۔ انہوں نے تاثر دیا کہ وہ نئی شرائط پر جرمنی سے نیا تجارتی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی تک نہیں بنتی، کیونکہ جرمنی یورپی یونین کے رکن ملک کی حیثیت سے اپنے لئے علیحدہ سے تجارتی مذاکرات نہیں کر رہا، جبکہ جرمنی جو کاریں امریکیوں کو فروخت کرتا ہے، وہ امریکہ کے اندر ہی تیار کرتا ہے۔ اس دورے میں انہوں نے کسی طور خود کو ایک بڑے اتحاد کا قائد ظاہر نہیں کیا، تاحال وہ خود کو ایک پراپرٹی ڈیولپر سمجھ رہے ہیں، جیسا کہ یلجیم کے وزیراعظم سے شکایت کی کہ یورپی یونین کی وجہ سے ان کے ایک گولف کورس کی تعمیر سست روی کا شکار ہے۔ نیٹو کے اجلاس سے پہلے گروپ فوٹو بنوانے کی اتنی جلدی تھی کہ ٹرمپ مونٹینیگرو کے وزیراعظم کو زبردستی ہٹاکر آگے آکر کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد نیٹو سربراہی اجلاس میں تقریر کے دوران وہ اس کے آرٹیکل پانچ کا تذکرہ کرنا ہی بھول گئے، جس کے تحت نیٹو کا رکن ہر ملک یہ عہد کرتا ہے کہ کسی بھی دوسرے رکن ملک پر حملے کی صورت میں وہ اس کا دفاع کرے گا۔ یہ فراموشی سبھی نے محسوس کی، اسی لئے امریکی صدر کے مشیر برائے امور قومی سلامتی میک ماسٹر کو بعد میں اس کی وضاحت کرنا پڑی۔ اس دورے کے نتیجے میں نیٹو رکن ممالک میں امریکہ کا جو امیج اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے قائم تھا، وہ شدید متاثر ہوا ہے، کیونکہ امریکہ تجارتی اور فوجی اتحادوں کے ذریعے ہی یورپ میں اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

جرمنی کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جرمن چانسلر اینجلا مرکیل نے پچھلے اتوار کو کہا کہ جرمنی مزید امریکہ پر انحصار نہیں کرسکتا۔ یہ بات انہوں نے پچھلے کئی دنوں سے جو مشاہدہ کیا، اس کی بنیاد پر کہی۔ منگل 30 مئی 2017ء کو ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو جرمنی کے ساتھ تجارت میں بہت بڑے خسارے کا سامنا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جرمنی اپنے حصے سے بہت ہی کم نیٹو اور اتحادی فوج کو ادا کرتا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کے لئے بہت برا ہے اور اسے تبدیل کرنا ہوگا۔ پچھلے ہفتے وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا تھا کہ دیر اشپیگل کی خبر غلط ہے اور ٹرمپ نے جرمن کی تجارتی پالیسیوں پر تنقید نہیں کی، لیکن اب تو ٹرمپ نے خود ہی ٹویٹ کے ذریعے کھل کر کہہ دیا ہے! جرمنی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اپنی پچھلی ستر سالہ تاریخ کی نچلی ترین سطح پر جا پہنچے ہیں۔ ایک اور اہم ایشو جس پر امریکہ اور یورپ و نیٹو تعلقات کی آزمائش ہونے والی ہے، وہ ہے یوکرین کا مسئلہ۔ مارچ میں جب اینجلا مرکیل نے اوول آفس میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی تو ٹرمپ نے کہا تھا کہ یوکرین کا بحران حل کرنے کی ذمے داری یورپ کی ہے، امریکہ اس معاملے میں زیادہ ملوث نہیں ہوگا۔ لیکن اب امریکہ یوکرین کے مسئلے پر پالیسی تبدیل کر رہا ہے۔

17 مئی کو جرمنی کے وزیر خارجہ جبریل سگمار نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلر سن سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ انہوں نے یہ تبدیلی محسوس کی ہے۔ جرمنی اور فرانس دونوں ہی 2015ء کے معاہدہ منسک پر عمل کروانے کے لئے کوشاں تھے، کیونکہ ان کے بقول روس کی حمایت یافتہ فورسز کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسک معاہدے پر عمل رک گیا تھا۔ جرمن وزیر خارجہ کا خیال ہے کہ صرف امریکہ ہی روس کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ یوکرین کا مسئلہ حل کرے۔ 10 مئی کو ٹرمپ نے روس کے وزیر خارجہ سرجئی لاوروف سے تفصیلی بات چیت کی۔ ٹرمپ یوکرین کے وزیر خارجہ پاولو کلمکن سے بھی ملاقات کرچکے ہیں۔ ریکس ٹلرسن بھی اپنے روسی ہم منصب لاوروف سے بات چیت کرچکے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اب امریکی نائب صدر کا دفتر اس ایشو پر کام کر رہا ہے اور امریکی وزارت خارجہ بھی اس مسئلے پر کام کر رہی ہے۔ جس طرح افغانستان پاکستان کے مسئلے پر علیحدہ سے نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا تھا، اسی طرح یوکرین کے مسئلے پر بھی علیحدہ سفارتکار مقرر کئے جانے کا امکان ہے۔ یہ خصوصی نمائندہ روس اور امریکہ کے مابین ڈپلومیٹک چینل کے توسط سے مذاکرات کرے گا۔

امریکی اور یورپی یوکرین کے مسئلے میں روس کو ذمے دار قرار دیتے ہیں اور اب امریکہ کی داخلی سیاست میں روس سے ٹرمپ سرکار کے تعلق کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ کے داماد جاریڈ کشنر بھی ایف بی آئی کی تحقیقات کی زد پر آچکے ہیں۔ اس تحقیقاتی عمل نے بھی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کانگریس چاہتی ہے کہ روس پر نئی پابندیاں لگا دی جائیں اور اس بات پر ری پبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں ہی متفق ہیں۔ الیگزینڈرورش بو، پینٹاگون کے سابق سینیئر عہدیدار جنہوں نے نیٹو اتحاد میں بھی خدمات انجام دی ہیں، کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ روس کو پابندیوں کے حوالے سے محدود پیمانے پر مشروط ریلیف دیں، یعنی اس شرط پر کہ وہ یوکرین میں سیز فائر کو یقینی بنائے اور مشرقی یوکرین سے بھاری اسلحہ بھی منتقل کر دے، تو ایسی صورت میں روس کے ساتھ ڈیل ہوسکتی ہے۔ بہتر ڈیل امریکہ کی نظر میں یہ ہوگی کہ روس مشرقی یوکرین سے انخلا پر آمادہ ہو جائے اور اگر نہ بھی ہو تو اس طرح روس کو امریکیوں اور یورپی عوام کی نظر میں ولن بنا دیا جائے کہ اس کا ارادہ یوکرین پر مستقل قبضے کا ہے۔ پھر اس طرح ٹرمپ سرکار کے پاس یہ آپشن ہوگا کہ وہ روس کی مبینہ جارحیت کے خلاف یوکرین کی فوجی و سیاسی مدد میں اضافہ کرے اور اس صورت میں روس کے ساتھ تعلقات ری سیٹ کرنے کی کوشش ترک کر دے۔

یورپ اور روس سے متعلق امریکہ کے تعلقات کی ایک سمت یہ بھی ہے، جس پر آج کل امریکہ میں غور و فکر کا عمل جاری ہے۔ البتہ تاحال ٹرمپ سرکار کی باڈی لینگویج نیٹو یا یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں قربتوں اور گرمجوشی کی خبر نہیں دے رہے۔ ٹرمپ کے مشیروں اور امریکہ کے دیگر طاقتور اداروں کے لئے فی الحال یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے فطری اتحادیوں کی نظر میں امریکہ کی ساکھ کو کسی طور بحال کریں، جو کہ ٹرمپ کی صدارت میں ٹرمپ کی چرب زبانی سے داؤ پر لگ چکی ہے۔ ایران نیوکلیئر ڈیل پر بھی یورپی یونین ٹرمپ کی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں اور بظاہر وہ چاہتے ہیں کہ یہ ڈیل برقرار رہے اور امریکہ بھی اس پر عمل کرے۔ اگلے چند مہینوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی سمت شاید زیادہ واضح ہوسکے۔ فی الحال تو ٹرمپ نے امریکہ کو نیٹو اور یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر برسلز میں خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
https://taghribnews.com/vdcfc1d00w6dv1a.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ