تاریخ شائع کریں2016 23 December گھنٹہ 14:43
خبر کا کوڈ : 254712

یہ دینی ادارے یہ اللہ کے گھر

اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔ آخر میں مخیر اور ڈونرز حضر
اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔ آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔
یہ دینی ادارے یہ اللہ کے گھر
تحریر: نذر حافی
بشکریہ اسلام ٹائمز

ہر دینی ادارہ اللہ کا گھر ہے۔ وہ مسجد ہو یا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے، عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی، قوم کے ہمدرد جمع ہوئے، مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہا گیا، مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایا گیا اور پھر مدرسے کو از سرِنو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔ مدرسے کو فعال کرنے کے لئے مدیر کی ضرورت تھی۔ مسئلہ بن گیا کہ اب مدرسے کا مدیر اور وارث کسے بنایا جائے۔!؟ اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی، چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا، پھر انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا، جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروا دیا گیا۔ اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے، اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں علماء کے احترام کا پتہ چلتا ہے، وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں۔ لوگوں کے نزدیک ایک دینی  مدرسہ، مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے، لہذا اسے نسل در نسل مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔ اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں یا پھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں، ساتھ ہی قانونی کارروائی کے دوران خود ہی ان اداروں کے تاحیات سرپرست و متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں  اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ہمیشہ کے لئے متولی درج کرواتے ہیں۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کو اپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔ اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کو ہی  مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔

آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں، ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار، کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔ بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہو جائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔ انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں، تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے، چنانچہ کتنی ہی مساجد، مدارس اور امام بارگاہوں کے چندے سالہا سال  اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ ادارے ہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں، حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اور اگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہو تو پھر مساجد و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔

بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مدد کریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں پر کرتے ہیں۔ ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ، قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں، اس طرح  غرباء میں صدقات تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غرباء کی مدد ہو بھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی۔۔۔ بلکہ غرباء کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں، اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں، دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں اکثر اوقات مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں رہی، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو  دینی اداروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے، جس کے کہیں نہ کہیں تعلقات ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد، آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں، ٹرسٹیز اور بانیان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ  موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں، اسی طرح عوام اور خصوصاً ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے، لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے کا وسیلہ ہے۔ ملک و ملت کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔ اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔ آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔
https://taghribnews.com/vdca6ynuu49nm01.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ