تاریخ شائع کریں2016 30 May گھنٹہ 14:01
خبر کا کوڈ : 233191

خائن مسلم حکمران اور مقاومت اسلامی کا محور

خائن مسلم حکمران اور مقاومت اسلامی کا محور
عالم اسلام کے خائن حکمران کھل کر مقاومت اسلامی کے محور کے خلاف میدان میں آچکے ہیں۔ ان کا ہر اجلاس مقاومت اسلامی کے محور کے خلاف بیانات کے ساتھ شروع و ختم ہو رہا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک اجلاس آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس (او آئی سی) کا دو روزہ سربراہی اجلاس بعنوان: ’’ اتحاد و یکجہتی برائے انصاف و امن‘‘ تھا جو ترکی کے شہر استنبول میں ہوا۔ اس کی کارروائی کی تفصیلات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ اجلاس اتحاد کی بجائے فساد، یکجہتی کی بجائے انتشار برائے ظلم و جنگ تھا۔ یہ اجلاس خائن حکمرانوں کے کھوکھلے بیانات اور دوغلے پن کے عملی اظہار کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بنیادی طور پر اس اجلاس کے نتیجے میں چار نوعیت کی گفتار سامنے آئی۔ اعلان استنبول، حتمی اعلامیہ، قراردادیں اور او آئی سی 2025ء پروگرام آف ایکشن یا برنامہ عمل۔ عملی طور پر اس پورے اجلاس کی کارروائی بادشاہوں اور ان کے اتحادی صدور اور وزرائے اعظم کی مدح سرائی پر مبنی تھی، بادشاہوں کی مخالف مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کی مذمت کی گئی۔ بجائے اس کے کہ یمن جنگ پر سعودی اتحادیوں کو سرزنش کی جاتی، بجائے اس کے کہ شام میں دہشت گردی کروانے والے سعودی و اتحادی ممالک کی مذمت کی جاتی، اس سربراہی اجلاس میں اس کے برعکس ہوا۔

عالم اسلام کے دردمند حلقے متوجہ ہیں کہ سعودی عرب نے صہیونیت کے لئے بانہیں پھیلا دی ہیں۔ اس اجلاس سے پہلے بھی جعلی ریاست اسرائیل کے اہم غاصبوں سے سعودی شہزادے ترکی ال فیصل سمیت بہت سوں کی ملاقاتیں ہوچکی تھیں اور اس کھوکھلے سربراہی اجلاس کے بعد بھی اس خائن عرب سعودی وہابی شہزادے نے نیتن یاہو خبیث کے مشیر سے ملاقات کرکے ثابت کیا کہ آل سعود کے ہوتے ہوئے فلسطین کی آزادی ممکن ہی نہیں۔ لبنان سے یکجہتی کا اظہار کرنے کی بجائے لبنان کی حکومت کی دفاعی امداد روک کر جعلی ریاست اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو خوش کیا گیا۔ وہاں کسی نے سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز اور متحدہ عرب امارات کے شیوخ سے یہ نہیں پوچھا کہ تم اپنے ملکوں میں بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو سرکاری دعوت پر بلاکر اعلٰی ترین اعزاز سے نواز رہے ہو، بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک نوعیت کے معاہدے کر رہے ہو تو کیا بھارت پر یہ ساری مہربانیاں کشمیریوں سے یکجہتی شمار ہوگی یا ان کے زخموں پر نمک پاشی تصور کی جائے گی؟ کشمیر کے مسئلے پر ان کا اعلامیہ ان کے عملی رویے کی وجہ سے کھوکھلا ہی کہلائے گا اور ان کی بھارت سے دوستی ان کا دوغلا پن قرار دیا جائے گا۔

اسی طرح شام کے پہاڑی علاقے جولان پر صہیونی کابینہ کے اجلاس کی خبر پر ان کا ردعمل مگرمچھ کے آنسوؤں کے مترادف ہے، کیونکہ انہوں نے 1973ء سے آج تک شام کی حکومت کا اس علاقے کی آزادی کے لئے کبھی بھی ساتھ نہیں دیا ہے، آج بھی وہ شام کی قانونی آئینی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف دہشت گردوں اور باغیوں کی مدد کر رہے ہیں اور صہیونی حکومت بھی انہی باغیوں کو مقبوضہ جولان میں سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہی رائے ان حکمرانوں کی فلسطین پالیسی کے بارے میں بھی دی جاسکتی ہے۔ شاہ اردن ہوں یا شاہ مراکش یا ترکی کی حکومت، یہ سبھی وہ حکومتیں ہیں، جو فلسطین پر قابض غاصب حکومت کو تسلیم کرچکی ہیں، جیسا کہ اردن اور ترکی ہیں جبکہ مراکش کا بادشاہ بھی در پردہ صہیونی حکومت سے تعلق قائم کرچکا ہے۔ ان کی تعریف و توصیف کرنا یا ترکی کو قدس کمیٹی میں شامل کرنے کا مطلب مقدمہ فلسطین کو کمزور کرنا ہے، کیونکہ یہ ممالک صہیونی ناجائز مملکت کی نابودی نہیں چاہتے اور نسل پرست صہیونی جعلی ریاست کے خاتمے کے بغیر فلسطینیوں کو انصاف مل ہی نہیں سکتا۔

او آئی سی کے سربراہی اجلاس کے بارے میں ترکی کے دانشوروں نے خود ہی اس کے کھوکھلے پن اور ناکامی کے بارے میں اظہار نظر کیا۔ ایک خاتون کالم نگار نے سوال اٹھایا کہ آیا اسلامی دنیا کا کہیں کوئی عملی وجود بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ طول تاریخ میں ان اسلامی ممالک نے کبھی خود پر بھی اسلام لاگو نہیں کیا اور بیشتر ممالک میں بادشاہتیں اور آمریتیں ہیں اور یہ ساری کی ساری مطلق العنان حکومتیں ہیں۔ ایک اور کالم نگار نے ترکی کے رجب طیب اردگان اور احمد داؤد اوغلو کا مذاق اڑایا کہ غزہ کی یاد میں آنسو بہانے والے ان دونوں ترک حکمرانوں نے عملی طور پر فلسطینیوں کی کونسی مدد کی ہے۔ انہوں نے غزہ کے لئے 20 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا، جس کا نصف بھی تاحال انہوں نے ادا نہیں کیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ سربراہی اجلاس عدم اتحاد و عدم یکجہتی برائے ظلم و جنگ تھا، اس کا ایک واضح ثبوت خود ان اتحادیوں کے درمیان اختلافات تھے۔ مثال کے طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک ایک ملک کا نام لے کر کہا کہ ان ان ممالک نے او آئی سی کے لئے اپنے حصے کی رقم ادا نہیں کی ہے، تو اس پر سعودی حکمران سمیت بعض عرب حکمرانوں کو برا لگا اور انہوں نے تاکید کی کہ یہ باتیں آف دی ریکارڈ ہونی چاہئیں، فورم پر بات نہ کی جائے اور نادہندہ ملکوں کے نام نہ لئے جائیں۔

ایک ترک دانشور نے توجہ دلائی کہ او آئی سی کے اندر ایک یورپ گروپ بنانے سے پہلے کم از کم بوسنیا کو ایک رکن ملک کی رسمی حیثیت تو دے دی جائے، کیونکہ ابھی تک بوسنیا ایک مبصر ملک کی حیثیت سے او آئی سی اجلاسوں میں بلایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک افسوسناک امر ہے کہ یورپ کے مظلوم مسلمان ملک کو تاحال او آئی سی کی رکنیت ہی نہیں دی گئی، جبکہ ایک غیر مسلم افریقی ملک طویل عرصے سے او آئی سی کا رکن ملک ہے۔ او آئی سی خود تو بوسنیا کا حق تسلیم کرے۔ پھر اس کے بعد عمل کا مرحلہ باقی رہتا ہے۔ یعنی او آئی سی زبانی کلامی مظلوم مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کرنے کے لئے قائم کیا گیا ادارہ ہے۔ یہاں او آئی سی کا پس منظر بھی یاد رہنا چاہئے کہ مسجد اقصٰی میں آتش زدگی کے ردعمل میں یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اور اس کا بنیادی ہدف فلسطین کی آزادی اور ال قدس شریف (یروشلم) اس کا دارالحکومت ہو، یہ ہدف تھا۔ کوئی پوچھے کہ 1969ء سے اب تک او آئی سی نے اپنے اس بنیادی ہدف تک پہنچنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا سینتالیس سال میں انہوں نے جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ ایک بھی جنگ لڑی؟ کیا ان سینتالیس برسوں میں انہوں نے ایک مرتبہ بھی فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے ایسا فوجی اتحاد بنایا جیسے یمن پر جنگ مسلط کرنے کے لئے بنایا اور جیسا انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے نام نہاد اتحاد قائم کیا گیا ہے؟ کیوں او آئی سی اپنے اس بنیادی ہدف کے حصول کے لئے کوئی سنجیدہ عملی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رہی اور کیوں او آئی سی سعودی وہابی عزائم کے حصول کا ایک ذریعہ بنادی گئی؟

ان سوالوں کے جوابات سعودی بادشاہت کے اتحادی امریکی حکومت کے اعلٰی عہدیداروں نے دیئے ہیں۔ ان سوالوں کے جوابات امریکا کی سابق وزرائے خارجہ کونڈولیزا رائس اور ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں دیئے ہیں۔ ان سوالوں کے جوابات سابق امریکی وزرائے خارجہ رابرٹ گیٹس اور لیون پنیٹا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں دیئے ہیں۔ ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے کہ سعودی حکمران امریکی حکومتوں سے فلسطین کی آزادی کے لئے دباؤ ڈالنے کے لئے کبھی سنجیدہ تھے ہی نہیں بلکہ وہ دیگر ایشوز پر امریکا سے مشکل کشائی کے طلبگار تھے۔ امریکا نے عراق پر جنگ ایران یا شیعوں کے لئے نہیں کی تھی بلکہ انہی خلیجی عرب ممالک کی درخواست پر کی تھی اور انہی کو صدام کی حکومت سے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا، حالانکہ صدام کو ایساخطرہ بنانے میں ان کا اپنا کردار تھا، اسے اسلحہ اور مالی مدد انہی ممالک نے فراہم کی تھی، تاکہ وہ ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی جنگ لڑے، لیکن دنیا میں یہ تاثر پھیلایا جائے جیسے کہ سنی عرب ممالک کے اتحاد کی جانب سے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ آج صدام تو نہیں ہے لیکن امریکا و اسرائیل کے اتحادی سعودی عرب نے اسی ایجنڈا کی قیادت کے لئے خود کو پیش کر دیا ہے اور اس کی ایران دشمنی اسی جنگ کا تسلسل ہے۔

اس لئے او آئی سی سربراہی اجلاس ایک اور مرتبہ اپنے کھوکھلے بیانات کے ساتھ شروع ہوکر ختم ہوگیا۔ لیکن امت اسلامی کے مسائل اپنی جگہ برقرار ہیں۔ نہ تو ان حکمرانوں کے آسرے پر فلسطین نے آزاد ہونا ہے اور نہ ہی کشمیر کے مسلمان سکھ کا سانس لے پائیں گے۔ بوسنیا اور کوسوو ہو یا یمن، شام اور لیبیا کے عرب مسلمان، ان سب جگہوں پر مسلمانوں کی حالت زار کی بنیادی وجہ سعودی بادشاہت اور امریکا کا اتحاد ہے، کیونکہ اس منحوس اتحاد نے ہی عالم اسلام میں صہیونیت کے وسیع تر مفاد میں فساد، اختلافات اور خانہ جنگیوں اور دہشت گردیوں کو جنم دے رکھا ہے۔ او آئی سی ایک اچھا ادارہ بننے میں اس لئے ناکام رہا کہ جس ہدف کی سمت اس نے سفر کرنا تھا، اسے اس پٹڑی پر چڑھنے ہی نہیں دیا گیا۔ جب عالم اسلام کو ترک و حجاز کے اتحاد کی ضرورت تھی، تب خائن عربوں نے عالمی سامراج برطانیہ کا ساتھ دیا تھا اور جب آج عالم اسلام کو عرب ایران اتحاد کی ضرورت ہے تو خائن عرب کھل کر عالمی سامراج امریکا کی گود میں جابیٹھے ہیں۔

او آئی سی کے سربراہی اجلاس میں ترکی اور قازقستان کے معاہدہ برائے اسلامی مفاہمت کو سراہا گیا، لیکن عملی طور پر اسلامی مفاہمت کا وجود کہاں تلاش کیا جائے۔ کیا یمن پر سعودی جارحیت، شام میں دہشت گردی، ایران اور حزب اللہ کے خلاف بیانات اور لبنان کی امداد روکنے سے اسلامی مفاہمت کی نفی نہیں کی گئی۔ او آئی سی کے عرب بزرگان تو دراصل اسرائیلی مفاہمت کے تحت یہ سارے اسلام و عرب دشمن اقدامات کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ان کے کھوکھلے بیانات اور دوغلی پالیسی کی وجہ سے فلسطین کی آزادی تا قیامت ممکن نہیں، بالکل اسی طرح ان کی کھوکھلی دھمکیوں کی ایران، شام، انصار اللہ اور حز ب اللہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں۔ یہی مقاومت اسلامی کے محور کی ٹھوس اور اسلام  و عرب دوست پالیسیوں کی کامیابی کی دلیل ہے کہ ایک اور مرتبہ ہمفرے اور لارنس آف عربیہ کے تربیت یافتہ نام نہاد عرب حکمران عالم اسلام کی پشت میں خنجر گھونپنے کی تاریخ دہرا رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ امت اسلامی ان کی چال سے آگاہ ہے۔
https://taghribnews.com/vdci3parzt1apz2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ