تاریخ شائع کریں2013 26 November گھنٹہ 11:16
خبر کا کوڈ : 146603
از قلم:عبدالحسین کشمیری

سنی شیعہ تعصب چھوڑ کرانقلاب اسلامی ایران کی قیادت میں چلنے سے ہی مسلمانوں کی سربلند یقینی۔جنیوا مذاکرات چشم گشا

تنا (TNA) برصغیر بیورو
اے کاش ایرانی مومن عوام کی طرح دیگر مسلمان بھی اسلام کی حاکمیت میں زندگی گذر بسر کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے ولی فقیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر دنیا و آخرت کی سعادت کرنے کی پہل کرتے تاکہ دنیا بھر پر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نمایاں ہو جاتی۔
سنی شیعہ تعصب چھوڑ کرانقلاب اسلامی ایران کی قیادت میں چلنے سے ہی مسلمانوں کی سربلند یقینی۔جنیوا مذاکرات چشم گشا
تقریب نیوز (تنا): جوہری مسئلے کو لے کرسلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی کا جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ جنیوا میں حالیہ مذاکرات کے تیسرے دور میں 24نومبر 2013 کی تاریخی قرارداد سے جمہوری اسلامی ایران کی مظلومیت اور امریکی سربراہی میں مغربی دنیا کی چودھراہٹ اور دوغلی پالیسی کی تاریخی سند جاری ہوئی ہے۔ امریکا نے جب سے اپنے نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کے مقابلے میں عوامی دینی حکومت کا جو نیانمونہ انقلاب اسلامی ایران کی شکل میں ابھرتے ہوئے دیکھا اسکی اصلی شکل ہر طرح اور ہر سطح پر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا لیکن انقلاب اسلامی ایران کامیابی کے دن سے لیکراسلامی منطق پر مبنی کردار،گفتار اور رفتار کا مثالی حقیقی جمہوری اور غیر سکولر دینی حاکمیت کا نمونہ پیش کرنے میں ثابت قدم رہا ہے جسکی تازہ مثال حالیہ جنیوا مذاکرات ہیں۔

انقلاب اسلامی نے کوئی نیا نمونہ پیش نہیں کیا بلکہ سنی شیعہ مسلمانوں کی مشترک میراث اہلبیت رسول اللہ علیہم السلام کا اسوہ ہے جو کہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کیلئے بے ضرر اور تضمین شدہ نسخہ ہے جسکی ترجمانی اسوقت انقلاب اسلامی ایران کی قیادت کررہی ہے اور اس قیادت کے نسبت شیعہ سنی تعصب کے بجائے ہر مسلمان کو چاہئے کہ تحقیق کرے اور جان لے کہ جس قیادت نے اسلامی منطق کے ذریعہ ہر اسلام دشمن طاقت کو مہذب انداز میں بار بارناک رگڑنے کیلئے مجبور کیا ہے اسکی کامیابی کا راز کیا ہے تو معلوم ہوگا وہ اسلام ہر مسئلے کا حل ہونے پر ایمان اور سنی شیعہ اتحاد ہے جسکی سفارش قرآن، محمد و آل محمد علیہم السلام اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کرتے آئے ہیں اوراس قیادت کے جھنڈے تلے جتنا جلدی سبھی مسلمان متحد و متفق ہوتے ہیں اسقدر مسلمانوں کے مشکلات کا ازالہ اور دین و دنیا کی آبادی بھی یقینی بن سکتی ہے۔

انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے دن سے لیکر یعنی پہلی اپریل 1989 جس دن ایران میں ملکی نظام حاکمیت کے انتخاب کیلئے ریفرنڈم ہوا۔ شہنشاہی نظام آمریت کے خاتمہ کے پچاس دن بعد جب اس بات کی نوبت آئی کہ عوامی حکومت کس قسم کی ہونی چاہئے تو ہر کسی نے اپنی اپنی دعویداری پیش کی جس میں ایک طرف قوم پرست ، سیکولر ، کمیونسٹ وغیرہ جماعتیں تھیں اور دوسری طرف امام خمینی رہ کی قیادت والی اسلامی حکومت کی حامی جماعت تھی اور ہرایک دعویدار نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ امام خمینی رہ نے کوئی نیا موقف بیان نہیں کیا بلکہ اپنا دیرینہ موقف دہرایا "جمہوری اسلامی نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ "۔ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا گیا کہ عوام اپنی رائے کا اظہار کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام سے رائے طلب کی گئی جس میں 98.2% لوگوں نے شرکت کرکے 98 فیصد سے زائد لوگوں نے جمہوری اسلام کی حمایت میں اپنی رائے کا اظہار کرکے انبیاء الہی کے دعوت پر زمانے کے رائج ضوابط کے تحت اپنی بیعت کا اعلان کیا اور انقلاب کے پچاس دن بعد عوام کی حمایت سے ایران میں جمہوری اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔اس طرح امام خمینی رہ کی قیادت میں ایرانی قوم نے اسلام کے بغیر ہر طرز کی حکمرانی کو نکارتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکمرانی کے سایے میں سرفرازانہ زندگی گزارنے کا پیغام دنیا کے لئے صادر کیا جس سے سیکولر فلسلفے کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ اس عظیم نورانی ارادے پر کھرے اترنے پر طرح طرح کیامتحانات کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں جانی مالی ، سماجی ، اقتصادی ، عقیدتی اور سیاسی امتحانات شامل ہیں لیکن اس 34 سالہ تاریخ میں دنیا نے دیکھا کہ اسلام پر ایمان رکھنے سے ہر مشکل کے باوجود کس طرح جمہوری اسلامی ایران نے کامیابی کی چوٹیوں کو ایک ایک کرکے فتح کرتے ہوئے اسلام کے نسبت انسانوں کے دلوں میں نئی حرارت پیدا کردی ہے۔

اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی کے ساتھ جوہری مذاکرات پر تازہ فتح بھی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مسلمان کی کامیابی صرف اسلامی کردار میں حاصل ہوسکتی ہے نہ کہ ہر ساز پر رقص کرنے اور غیر خدائی طاقتوں کے سامنے سر تعظیم خم کرنے سے۔شورای امنیت کے پانچ مستقل رکن اور جرمنی ہر کسی سے بہتر جانتے تھے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے خاص کر قائد انقلاب اسلامی حضرت امام علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے واضح فتوی کے ہوتے کہ اسلام ایٹم بم جیسے ہتھیار بنانا حرام سمجھتا ہے اور اسلامی ایران ایٹم بم نہیں بنانا چاہتا ہے۔کے ہوتے ہوئے بھی ایران پر طرح طرح کی پابندیاں لگاتے رہے۔ایران نے انقلاب کے آغاز سے ہی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرکے اپنی کھلی جنگ چھیڑ لی تھی جس کے مقابلے میں امریکا نے جمہوری اسلامی ایران پر پابندیاں 1989 سے ہی عائد شروع کردی تھی لیکن 2003 میں امریکا نے جمہوری اسلامی کی علمی ، سیاسی ، اقتصادی وغیرہ کے میدانوں میں تیزی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرنے کی رفتار کو روکنے کیلئے اپنے ساتھ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے دیگر چار مستقل رکن کے علاوہ جرمنی کو ایران کے جوہری منصوبے کو روکنے کیلئے ایٹم بم بنانے کا الزام لگا کر ہر طرح کی پابندیاں لگادی لیکن جمہوری اسلامی ایران اپنے موقف پر قائم رہا کہ ہم پر امن جوہری صلاحیت حاصل کرنا چاہتے جو کہ ہر ملک کا حق ہے اور اسلامی ایران نہ کبھی ایٹم بم بنانے کے درپے تھا نہ ہی رہے گا۔ اور اسلامی ایران صرف اسلامی بشارتوں پر امیدوار رہتے ہوئے ثابت قدم رہے اور امریکا نے اسلامی ایران کے اسلامی اقدار کو ناکار آمد ثابت کرنے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروی کار لائی اور اسکے برخلاف امریکا ہی نا کار آمد ثابت ہوگیا اور داخلی بحران میں گرفتار ہو گیا جبکہ اسلامی ایران سربلندی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کرتا رہا۔اور بقول قائد انقلاب اسلامی ایران نے گذشتہ 10-12 سالوں میں سائنسی اور علمی میدانوں 16گنا ترقی کی ہے اور مذید فرمایا کہ2018 میں جمہوری اسلامی ایران عالمی سائنسی اور علمی معیار کے چوتھے رتبے پر فائز ہوگا۔یعنی امریکا اور چین اور برطانیہ کے بعد جمہوری اسلامی ایران ہوگا۔اسلام کی حاکمیت میں علمی ترقی کی طرف پیشرفت کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے ایک خطبے میں فرمایا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران میں صرف ایک لاکھ ستر ہزار ہائیر ایجوکیشن کے طالبعلم تھے جبکہ اسوقت 44لاکھ طالبعلم ہیں،انقلاب سے پہلے مشکل سے پانچ ہزار پروفسر تھے اسوقت ساٹھ ہزار پروفسر ہیں۔اور مجموعی طور ہر میدان میں 25گنا ترقی کی گئی ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پرتمام دباو آئے دن بڑتا رہا لیکن ہر شعبے اور میدان میں عظیم پیشرفت حاصل کی جارہی ہے اور اسکے باوجود قائد انقلاب حضرت امام علی خامنہ ای مدظلہ العالی اسے کافی نہیں سمجھتے اور اسے ابھی پسماندگی سے تعبیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں جب تک نہ مسلمان علم کے ہر شعبے میں اول درجے پر فائز نہیں ہوتا تب تک پسماندگی ہے۔

اسلامی منطق بر مبنی ہر مشکل کا حل ڈھونڈنے میں جمہوری اسلامی ایران مثالی ملک بن کر ابھر کر آیا ہے لیکن شیعہ سنی تعصب کا عالم یہ ہ اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسلامی ممالک بالعموم اور اسلامی جماعتیں بالخصوص مغربی ممالک اور خاص کر امریکا کو اپنی مشکلات کا منجی تسلیم کرتے ہوئے اسکے ارد گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں جبکہ خود انکے پاس جمہوری اسلامی ایران جیسا مقتدر اور مثالی ملک موجود ہے جہا ں کسی شخص یا مسلک کی حاکمیت نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت ہے اسلام کی حاکمیت ہے جس کی نظارت ایک ماہر اسلام شناس عالم دین پر عائد ہے جسے ولی فقیہ کہتے ہیں اور ولی فقیہ پر مجلس خبرگان رہبری ایرانی عوام کے منتخب ماہر علمای دین نظارت کرتے ہیں کہ ولی فقیہ کس حد تک اسلامی احکام کے مطابق رہبری کرتے ہیں اگر ولی فقیہ کے گفتار و رفتار میں ذاتی ہوس دیکھنے کو ملے تو مجلس خبررگان رہبری ولی فقیہ کو معزول کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

اے کاش ایرانی مومن عوام کی طرح دیگر مسلمان بھی اسلام کی حاکمیت میں زندگی گذر بسر کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے ولی فقیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر دنیا و آخرت کی سعادت کرنے کی پہل کرتے تاکہ دنیا بھر پر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نمایاں ہو جاتی۔
https://taghribnews.com/vdcjymevtuqexmz.3lfu.html
منبع : نیوز نور
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ