تاریخ شائع کریں2012 19 December گھنٹہ 06:02
خبر کا کوڈ : 118340

شاہ عبداللہ کی موت کے ساتھ ہی سعودی عرب میں سیاسی ہلچل کا لاوا پٹھنے کا امکان

تنا(TNA)برصغیر بیورو
سب سے عمدہ مسئلہ سعودی عرب کے مفتی اعظم"عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ"کا بیان ہے ۔انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا:"افسوس کی بات ہے کہ ہمارے دشمن ہماری اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے اپنے تمام دنیا وی معاملات کی اصلاح اور سیاست کو اپنی سلامتی اور استحکام کیلئے استعمال میں لاتے ہیں؛اسطرح کہ ایک جماعت کا اقتداردوسری جماعت یا دوسرے طرف منظم طریقے سے انجام پاتا ہے اور نہ کوئی قتل کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کا خون بہایا جاتا ہےاور کسی قسم کی افرا تفری نہیں مچتی اور کسی کی ملکیت غارت نہیں ہوتی۔اس قسم کےاقتدار کا انتقال ایک منظم طریقہ سے ہوتا جو کہ زمانہ بدلنے کے ساتھ بدلایا نہیں جاتا"۔
شاہ عبداللہ کی موت کے ساتھ ہی سعودی عرب میں سیاسی ہلچل کا لاوا پٹھنے کا امکان
آپ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں ؟ سعودی عرب کے آمروں نے ملک بھر کے اداروں میں کے ہر سطح میں رسوخ پیدا کیا؟کس طرح ایک ملک ایک خاندان کے ہاتھوں چلتا ہے؟شاہ عبداللہ کے موت کی خبر کس حد تک حقیقت کے قریب ہے؟شاہ عبداللہ کی موت کے بعد کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہوں گی؟کیاآل سعود کا گھرانہ ہمیشہ امریکا کا وفادار رہےگا؟ایسے یا کئی اور سوالوں کا جواب جاننے کے لئے خبررساں ادارے "نور" کی اس تحریر کو پورا پڑھنا پڑے گا،جو کہ چند قسطوں میں قارئين کے نذر کیا جا رہا ہے۔ 

نیوز نور کے تحقیقاتی ٹیم کا ماننا ہے کہ جس طرح سعودی عرب کا حکومتی نظام چل رہا ہے اور ولیعہدی کیلئے کوئی مشخص طریقہ کار نہیں ایسے میں ولیعہد یا اگلے پادشاہ کا انتخاب کرنے کے ساتھ ہی بحران کھڑا ہو جانے کا قوی امکان نظر آتا ہے۔ 

سعودی عرب کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر
اگرچہ سعودی عرب کا شاہی نظام ۱۹۳۲ میں قائم ہوا ہے لیکن ملک پرحکمران خاندان کی عسکری اور سیاسی کارکردگی کی تاریخ قدیمی ہے۔۱۹۰۲ میں"عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود" کی قیادت میں یہ خاندان ریاض پر حاکم ہوا؛۱۹۰۲سے۱۹۳۲ کے درمیان شاہ عبدالعزیز نے اپنے تمام دشمنوں کو شکست دی یہاں تک کہ مشرق سے"الاحساء" اور مغرب س "عسیر"اور "حجاز"کو مکمل طور پر پورا عربستان کو اپنے قبضے میں کرلیا۔ 

سعودی حکومت کی تشکیل
سعودی حکومت ۱۷۵۰ میں "محمد بن سعود" کے ذریعہ قائم ہوئی۔اسکے بعد "عبدالعزیز بن سعود نے "شیخ محمد بن عبدالوھاب"کی حمایت کے ذریعہ شہر ریاض پر قبضہ کردیا۔ عبدالعزیز کے زمانے میں عسیر، تہامہ ، حجاز ، عمان، احساء ، قطیف، زیارہ ، بحرین،وادی الدّواسر،خرج،محمل، وشم، سدیر،قصیم،شمّر،مجمعہ،منیح،بیشہ،رنیّہ اور ترابہ واھابیوں کے قبضے میں آیا گیا۔سعود بن عبدالعزیز نے جزیرہ نما میں وھابیوں کی کشورگشائی کو خلیج فارس تک پہنچادیا۔ 

ابراہیم بن سعود کے زمانے میں ، عربستان نے مصر کے ہاتھوں شکست کھائی اور "طوسون پاشا"کی قیادت میں مصری فوج نے "مکہ"فتح کرلیا لیکن "مدینہ " میں کامیاب نہیں ہوا اور آخر کار واپس قاہرہ روانہ ہوا۔طوسون پاشا کے بعد اسکے بھائی ابراہیم پاشا نے "نجد" پر چڑھائی کی اور خود کو "عیّہ"پہنچ کر آل سعود کے دارلخلافہ کا محاصرہ کیا اوروھابیوں کی مزاحمت کو پھر ایک بار سرکوب کردیا۔عبداللہ بن سعود کی حکومت میں مغربی ثفاقت کی یلغار عربستان میں عروج پر تھی یہاں تک کہ عبداللہ بن سعود کو شکست ہوئی اورابراہیم پاشا کے حکم سے سزائے موت ہوئی؛دوبارہ آل سعود حکومت قائم کرنے کی کوشش مشاری بن سعود نے کی تھی ۔ اسکے بعد ترکی بن عبداللہ نے ریاض پر قبضہ کیا۔فیصل بن ترکی نے دوسری آل سعود حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا۔خالد بن سعود کو نجد کا حاکم منصوب کیا گیا لیکن عربوں نے اس پر حملہ کرکے اسے ریاض سے نکال باہر کردیا۔ 

عبداللہ بن ثنیان کی فرمانروائی میں مصر نے عربستان سے اپنی فوج واپس منگائی۔عبداللہ بن فیصل نے قبیلہ عجمان اورسعود کے تعاون سے "احساء"پر حملہ کردیا۔سعود بن فیصل نے قطیف کو دوبارہ سعودی سرزمین سے ملادیا۔عبدالرحمن بن فیصل نے آل رشید کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور آخر کا شکست کھا گیا اور سعودیوں کی دوسری حکومت بھی ختم ہو گئی۔ 

آل سعود کا شجرہ نامہ:

عبدالعزیز بن عبدالرحمن نے تیسری سعودی حکومت کا قائم کیا۔عبدالعزیز کی موت کے بعد اسکے تین بیٹے فیصل،خالد اور عبداللہ باری باری پادشاہ ہ ہوئے۔خالد کی موت کے بعد فہد عربستان کا رسمی بادشاہ ہوا اور اپنے لئے خادم حرمین شریفین کا لقب انتخاب کرلیا۔ اور اس نے وھابیت کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی اورمغرب کے ساتھ رشتے استوار کرلئے۔فہد کی موت کے بعد اسکا بھائی عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے۔

عربستان مختلف قوموں،عقائد اور رسومات کا مامن
عبدالعزیز کے سعودی عرب کا بادشاہ بننے کا ساتھ مختلف اقوام کے مختلف مذہبی اور سیاسی عقیدہ کے ساتھ رسومات بھی مختلف بن گئے۔شاہ عبدالعزیز نے علاقائی لیڈروں کو شکست دے کرعسکری اور وھابیت کی طاقت کو بڑھاوا دیا؛اٹھارہویں صدی کے اواسط میں سلسلہ وھابیت کے بانی عبدالوھاب نے ایسا اتحاد قائم کردیا جس سے شیوخ اور مفتیوں نے آل سعود کی حکومت کو شرعی جواز بخشا اور اس طرح آل سعود نے اقتدار کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ 

آل سعود کی یہودی جڑیں
آل سعود کے شجرہ نسب سے معلوم ہوتا ہے کہ نویں صدی ہجری مطابق پندرہویں صدی میں آل سعود کے پہلے جد نے یہودی قبیلہ"عنیزہ" کے"مانع احسایی"نامی شخص نے نجد میں زمین خریدی اور بعد میں "موسی"نامی اسکے پوتے نے جنگ ،قتل و غارت سے بڑی جاگير کو اس میں اضافہ کردیا۔ 

موسی کے بیٹے"ابراہیم موسی"یا "ابراہیم موشہ"نے آل سعود کو وجود میں لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کہ جس کےپوتے کا نام"مقرن سعود"تھا جسے خاندان کے سردار مانا جاتا ہے؛مردخای ابراہیم موشہ اور اسکے بیٹوں نے نام تبدیل کرکے عربی نام اپنے لئے انتخاب کئے اور اس طرح مسلمانوں میں گل مل گئے یہاں تک کہ ۱۳۲۲ ہجری میں سعودی عرب کے مرکزی کتابخانے کے مدیر اعلی"محمد امین تمیمی" کو ۳۵ہزار مصری پونڈ دےکر آل سعود اور آل عبدالوھاب کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمنسوب کردیا۔ 

سعودی عرب میں حاکم خاندان
سعودی عرب میں جانشینی اور ولیعہدی کا موضوع باقی شاہی حکومتوں سے الگ ہے۔عبدالعزیز بن سعود نے ایک سنت قائم کی ہے کہ جس کے بنا پر بھائی سے بھائی کو سلطنت منتقل ہوتی ہے نہ کہ باپ سے بیٹے کو؛اس نے طی کیا ہے کہ بیٹے زندہ ہونے کی صورت میں پوتے کو حکومت نہیں مل سکتی۔اور آج تک اس سنت کی حفاظت ہورہی ہے اور سعودی عرب کی پادشاہی عبدالعزیز کے بیٹوں کو ملی ہے،سلطان بن عبدالعزیز کی موت کے بعد اسوقت نایف بن عبدالعزیز ولیعہد ہےجو کہ ۱۹۷۵سے سعودی عرب کا وزیرداخلہ اور شاہ عبداللہ کا دوسرا نایب تھا اور مغرب اسکے ہر قسم کی اصلاحات کے مخالف ہونے کے پیش نظر اسکی بھر پور حمایت کرتا ہے۔ 

شاہ عبداللہ اب سعودی عرب کی حکومتی باگ دوڑ ہاتھوں میں لئے رکھنے سے ناتواں ہے کیونکہ اوائل نومبر سے ابھی تک ریاض کے شاہی ہسپتال میں بستری بتایا جارہا ہے جبکہ تمام آثار و قرائن سے معلوم پڑتا ہے کہ وہ زندہ نہیں ہے۔ 

شاہ عبداللہ کے زندہ نہ ہونے کےشواہد و قرائن
* دو مہینے سے زائد عرصے سے کسی بھی تقریب میں وہ نہیں دکھائی دیئے۔
* شاہ عبداللہ کے قرابت داروں میں کسی نے بھی واضح طور شاہ عبداللہ کے زندہ ہونے کی بات نہیں کی ہے۔
*ایسے میں حکومتیں اپنے قابل اعتماد بعض غیرملکی شخصیتوں کو مدنظر شخص سے ملانے لیتے ہیں اور اس کے بیان کے ساتھ افواہیں ختم کی جاتی ہیں ایسا کچھ بھی شاہ عبداللہ کے بارے میں نہیں کیا گیا۔
* پادشاہی کے دعویدار سعودی شہزادوں کی ریاض سے لندن اور واشنگٹن کے ساتھ رابطوں کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔
*سب سے عمدہ مسئلہ سعودی عرب کے مفتی اعظم"عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ"کا بیان ہے ۔انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا:"افسوس کی بات ہے کہ ہمارے دشمن ہماری اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے اپنے تمام دنیا وی معاملات کی اصلاح اور سیاست کو اپنی سلامتی اور استحکام کیلئے استعمال میں لاتے ہیں؛اسطرح کہ ایک جماعت کا اقتداردوسری جماعت یا دوسرے طرف منظم طریقے سے انجام پاتا ہے اور نہ کوئی قتل کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کا خون بہایا جاتا ہےاور کسی قسم کی افرا تفری نہیں مچتی اور کسی کی ملکیت غارت نہیں ہوتی۔اس قسم کےاقتدار کا انتقال ایک منظم طریقہ سے ہوتا جو کہ زمانہ بدلنے کے ساتھ بدلایا نہیں جاتا"۔ 

جبکہ سعودی عرب میں کسی قسم کے اقتدار کی تبدیلی اور انتخابات کا وجود نہیں اور حاکمیت ،اقتدار اور قانون صرف آل سعود کے پاس ہے۔ 

سعودی عرب کے مفتی اعظم نے مذید کہا تھا:"عالم اسلام میں اقتدار کو منتقل کرنے میں خون خرابے ،لوٹ مار اور باطل اور بیہودہ باتوں کی تشہیر کے ساتھ ہوتا ہے ؛ہمارے دشمن ہم سے کیوں آگے نکلے ہیں؛دین کی طرف واپس کیوں نہیں لوٹتے"۔ 

شاہ عبداللہ کی موت کی تصدیق ہونے کی بعد پادشاہی کے دعویدا کون ہیں؟
امیر محمد بن فہد،مشرقی علاقے کا امیر
سابق سعودی فرمانروا شاہ فہد کا ۶۱ سالہ بیٹا امیر محمد سعودی عرب کے تیل سے ذر خیرمشرقی علاقے کا امیر ہے جوکہ شاہ عبداللہ کے نہایت قریب ہے ۔اسے عبدالعزیز کے پوتوں میں سب سے زیادہ طاقتور تصور کیا جاتا ہے جو کہ عبدالعزیز کے پوتوں میں اقتدار منتقل ہونے کی صورت میں اقتدار کا اصلی دعویدار ہوگا۔(جاری ہے)
https://taghribnews.com/vdcgt79qzak9qw4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ