QR codeQR code

لاپتہ شیعہ افراد کو کس ادارے نے اٹھایا، کیوں اٹھایا، کہاں کس حال میں رکھا ہے، نہیں معلوم،علامہ احمد اقبال رضوی

11 Oct 2017 گھنٹہ 14:30


ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور آئی ایس او کی مرکزی مجلس نظارت کے رکن کا ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جہاں تک بات ہے کہ شیعہ افراد کو لاپتہ کرنے میں کون کون سے ادارے ملوث ہیں، تو پنجاب میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے بہت سارے شیعہ افراد کو لاپتہ کیا ہوا ہے، مجموعی طور پر سی ٹی دی نے ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت تنگ کیا ہے، بانیان مجالس، عزاداروں، مجالس و جلوس لائسنس ہولڈرز کو بہت زیادہ ڈرایا دھمکایا ہے، انہیں شیڈول فور میں ڈالنا وغیرہ، یہ سارے کام بڑے پیمانے پر سی ٹی ڈی نے انجام دیئے اور دے رہی ہے، پولیس بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ہے، اسی طرح سے ہمیں جو لوگ کال کرتے ہیں اندرون سندھ سے، مثلاً انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ہمارے شیعہ افراد سے پوچھ گچھ کرتی ہے، آئی بی بھی لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں ملوث ہے، اسی طرح سے اور بھی ادارے ہیں، جس میں شاید آئی ایس آئی بھی ہے، ملت جعفریہ کا ان اداروں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، کوئی جنگ نہیں ہے، یہ سارے ہمارے اپنے قومی ادارے ہیں، ہم ملت جعفریہ کا ان سے صرف ایک ہی آئینی، قانونی، جمہوری مطالبہ ہے کہ آپ نے پکڑا ہے، تو آپ قانونی ادارے ہیں، آپ قانون کیمطابق عمل کریں، ہمارا اسکے علاوہ تو اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔
 
کراچی سے تعلق رکھنے والے علامہ سید احمد اقبال رضوی اسوقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرنجام دے رہے ہیں، اس سے قبل وہ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری تربیت کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں سرنجام دے چکے ہیں، وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی مرکزی مجلس نظارت کے رکن بھی ہیں۔ آج کل وہ لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے کراچی میں شروع کی گئی جیل بھرو تحریک کی فعالیت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

سوال: لاپتہ شیعہ افراد ملت جعفریہ کی مختلف تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں یا عام افراد ہیں۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ لاپتہ شیعہ افراد کو رات کی تاریکی میں گھروں سے اٹھایا گیا، کس ادارے نے اٹھایا، کیوں اٹھایا، کہاں کس حال میں رکھا ہے، نہیں معلوم، ان لاپتہ افراد میں کسی کو گذشتہ سات سال سے، چار سال سے، تین سال سے، ایک سال کے دوران غائب کر دیا گیا ہے، یہ وہ افراد ہیں جو کسی شیعہ تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے، عام شیعہ افراد ہیں، اگر کسی شیعہ تنظیم سے تعلق ہے بھی تو وہ ایک آدھ افراد ہیں، جو شیعہ تنظیموں سے بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق رکھتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں تقریباً 95 فیصد لاپتہ شیعہ افراد عام افراد ہیں، جن کا کسی بھی شیعہ تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔

سوال: جیل بھرو تحریک کا بنیادی مطالبہ کیا ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ آئین و قانون کے مطابق گرفتار شدگان کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیئے، ہمارا اس جیل بھرو تحریک میں جو بنیادی مطالبہ ہے، جو انتہائی آئینی، قانونی اور جمہوری مطالبہ ہے، وہ یہ کہ آپ نے اگر گرفتار کیا ہے تو انہیں آپ عدالتوں میں پیش کریں، وہ مجرم ہیں تو انہیں سزا دیں، ورنہ انہیں رہا کر دیں، مگر عدالتیں فیصلہ کریں، ہمارا یہ مطالبہ ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون و آئین کی پامالی کرینگے تو ظاہر ہے کہ عوام تو پھر آپ کے پیچھے چلے گی، عوام بھی قانون شکنی کریگی۔

سوال: ممکنہ طور پر اطلاعات کیا ہیں کہ لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں کون سے ریاستی ادارے ملوث ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: جہاں تک بات ہے کہ شیعہ افراد کو لاپتہ کرنے میں کون کون سے ادارے ملوث ہیں، تو پنجاب میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے بہت سارے شیعہ افراد کو لاپتہ کیا ہوا ہے، مجموعی طور پر سی ٹی دی نے ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت تنگ کیا ہے، بانیان مجالس، عزاداروں، مجالس و جلوس لائسنس ہولڈرز کو بہت زیادہ ڈرایا دھمکایا ہے، انہیں شیڈول فور میں ڈالنا وغیرہ، یہ سارے کام بڑے پیمانے پر سی ٹی ڈی نے انجام دیئے اور دے رہی ہے، پولیس بھی لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث ہے، اسی طرح سے ہمیں جو لوگ کال کرتے ہیں اندرون سندھ سے، مثلاً انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ہمارے شیعہ افراد سے پوچھ گچھ کرتی ہے، آئی بی بھی لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں ملوث ہے، اسی طرح سے اور بھی ادارے ہیں، جس میں شاید آئی ایس آئی بھی ہے، ملت جعفریہ کا ان اداروں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، کوئی جنگ نہیں ہے، یہ سارے ہمارے اپنے قومی ادارے ہیں، ہم ملت جعفریہ کا ان سے صرف ایک ہی آئینی، قانونی اور جمہوری مطالبہ ہے کہ آپ نے پکڑا ہے تو آپ قانونی ادارے ہیں، آپ قانون کے مطابق عمل کریں، ہمارا اس کے علاوہ تو اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

سوال: ان ریاستی اداروں سے ملی تنظیموں اور سرکردہ شخصیات نے لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے رابطے کئے ہیں، اگر ہاں تو انکا کیا ردعمل سامنے آیا ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: لاپتہ شیعہ افراد کے موضوع پر اداروں سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب کی جب آرمی چیف سے ملاقات ہوئی، تو اس دوران بھی اس معاملے کو اٹھایا گیا اور اپنے قانونی و آئینی حق کے حوالے سے آرمی چیف سے بات کی گئی کہ لاپتہ شیعہ افراد میں کسی پر کسی قسم کا کوئی الزام ہے، تو انہیں فی الفور عدالتوں میں پیش کیا جائے، وگرنہ رہا کر دیا جائے، اسی طرح وزیر داخلہ کے ساتھ بھی لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کے معاملے پر ملاقاتیں ہوتی رہیں، ان سے بھی لاپتہ شیعہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، چاہے وہ اسلام آباد میں ہوئیں، چاہے کراچی میں ہوئی ہیں۔ مثلاً کراچی میں آٹھ محرم الحرام سے پہلے بزرگ عالم دین علامہ حسن ظفر نقوی صاحب کی وفد کے ہمراہ باقاعدہ ملاقات ہمارے ایک ریاستی ادارے کے اعلٰی عہدیدار سے ہوئی اور انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم آپ کو آٹھ محرم الحرام سے قبل ایک اچھی خبر دینگے، لیکن جب آٹھ محرم الحرام کو ہمیں کوئی اچھی خبر نہیں دی گئی، تو لہٰذا علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے دس محرم الحرام یوم عاشور کو لاپتہ شیعہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف اپنی احتجاجاً رضاکارانہ گرفتاری کا اعلان کیا۔ لہٰذا بات چیت تو چل رہی ہے، ہم سے سندھ حکومت نے بھی رابطہ کیا ہے، لیکن سندھ حکومت سے ہمارا کوئی مطالبہ اس طرح سے نہیں ہے، لاپتہ شیعہ افراد کی ذمہ داری ہمارے ریاستی اداروں اور وفاق پر عائد ہوتی ہے، تو ہمارا مطالبہ بھی اپنے ریاستی اداروں اور وفاق سے ہے، ہاں اگر آپ کوئی سہولت کاری کرسکتے ہیں اس معاملے میں کہ آپ ہمارا پیغام آگے تک پہنچائیں تو وہ ٹھیک ہے، اس حوالے سے ہم سندھ حکومت کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔

سوال: کیا لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے میں وفاقی و صوبائی حکومتیں ملوث نہیں ہیں۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: نہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ حکومتوں پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، سی ٹی ڈی کا جب آپ نام لیتے ہیں تو یقیناً مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت تو آہی جاتی ہے، جبکہ وفاق پر بھی بے گناہ شیعہ افراد کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے، سی ٹی ڈی بہت حد تک پنجاب حکومت کے زیر اثر ہے اور وفاق کے تو بالکل تابع ہے، پنجاب میں تو سی ٹی ڈی کو حکومت نے ٹاسک ہی یہی دیا ہے کہ محب وطن ملت جعفریہ کو دیوار سے لگانا اور تنگ کرنا ہے، یہ سی ٹی ڈی کو باقاعدہ ٹاسک دیا گیا ہے، اس حوالے سے وہ نت نئے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، انہوں نے شیعہ دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، لہٰذا وفاق بھی ذمہ دار ہے، جب آپ حکومت کرتے ہو، تو حاکم سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے ماتحت کام کرنے والے ادارے، افسران کیوں یہ ظلم و ستم کر رہے ہیں، لہٰذا صدر، وزیراعظم سے پوچھا جائے گا، کوئی اور تو اس بات کا ذمہ دار نہیں ہے نا اس بات کا، کوئی ادارہ بھی غیر آئینی و غیر قانونی کام کرتا ہے اور آپ کی ناک کے نیچے یہ کام ہوتا ہے، تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے، تو آپ سے ہی پوچھا جائے گا، کسی اور سے تو نہیں پوچھا جائے گا، حکومتیں کسی صورت لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے سے بری الذمہ نہیں ہوسکتیں، لہٰذا لاپتہ شیعہ افراد کے معاملے کا تعلق وفاق سے بھی ہے۔

سوال: لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے کراچی میں شروع کی گئی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے آگاہ کریں کہ اس تحریک کا کس نے آغاز کیا، کون اس تحریک کو چلا رہا ہے، کیا تفصیلات ہیں۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب خاص طور پر گذشتہ ایک سال سے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں، کانفرنسز، پریس کارنفرنسز، آرمی چیف، وزیر داخلہ و دیگر کے ساتھ ملاقاتوں میں اس مسئلے کو باقاعدہ اٹھایا گیا ہے، صرف کراچی سے انیس شیعہ افراد لاپتہ ہیں، یہاں لاپتہ شیعہ افراد کی خانوادوں نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، انتہائی پریشانی و کرب کے عالم میں ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بچوں نے خود سے میدان میں نکلنے کا فیصلہ کیا، لہٰذا ماہ محرم الحرام کے آغاز کے ساتھ انہوں نے عزاداری سید الشہداء (ع) سے استفادہ کرتے ہوئے عزاداری کے بڑے بڑے اجتماعات و عشرہ مجالس کے باہر انہوں نے لاپتہ شیعہ افراد کی تصاویر اٹھا کر صدائے احتجاج بلند کی اور اپنی مظلومیت کا اظہار کیا، اپنے آئینی و قانونی حق کا مطالبہ کیا، عوام و خواص کو بیدار کیا، مجالس عزا سے خطاب کے دوران بڑے بڑے خطباء نے اس حوالے سے آواز اٹھا کر اپنا کردار ادا کیا، اس کے ساتھ ساتھ ان مظلوم خانوادوں نے جہاں جہاں جلوس عزا برآمد ہوئے، وہاں وہاں لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادوں نے پہنچ کر صدائے احتجاج بلند کی، عوام اس تمام معاملے کو دیکھ اور سمجھ رہی ہے، ان کی فریاد سن رہی ہے، نو محرم الحرام کو کراچی کے مرکزی جلوس کے دوران ان مظلوم و بے کس خانوادوں نے احتجاج کیا، اس کے بعد کراچی میں یوم عاشور کے مرکزی جلوس کے دوران پھر لاپتہ شیعہ افراد کے خانوادے احتجاج کرتے ہیں۔

جب یوم عاشور کو ہماری مظلوم ماؤں، بہنوں، بیٹوں، بچوں نے جمع ہو کر صدائے احتجاج بلند کی، تو وہاں پھر تقریر کرتے ہوئے علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے ان خانوادوں کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے، ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے احتجاجاً اپنی گرفتاری دینے کا اعلان کیا، انہوں نے واضح کہا کہ جب ریاستی ادارے نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آٹھ محرم الحرام تک ہمارے لاپتہ شیعہ افراد کو بازیاب کرکے دیں گے تو آپ نے پھر اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا، لہٰذا اب جب آپ نے وعدہ خلافی کی، ہمارا بھی اور کوئی بس تو نہیں چلتا، تو آپ ہمیں بھی ہمارے لاپتہ بچوں کے پاس پہنچا دیں، میں بھی باہر نہیں رہنا چاہتا، وہاں سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کے آغاز کی بنیادی وجہ ہمارے لاپتہ شیعہ افراد کی مظلوم مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بچے، خانوادے ہیں اور اس وقت بھی اس پوری تحریک کا محور و مرکز یہی لاپتہ شیعہ افراد کے مظلوم خانوادے ہیں، باقی جتنی ملی تنظیمیں ہیں، علمائے کرام، ذاکرین عظام، ادارے، ٹرسٹیز وغیرہ ہیں، ان کی غیرت تو کبھی برداشت نہیں کرسکتی کہ ہماری مظلوم مائیں، بہنیں، بیٹیاں ننھے ننھے معصوم بچوں کو گودوں میں لئے ہوئے مردوں کے درمیان کھڑے ہوکر فریاد بلند کریں، مدد کیلئے پکاریں اور ہم سب لوگ مدد کیلئے آمادہ نہ ہوں، اس لئے سب نے ان کا ساتھ دیا، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس تحریک کا آغاز کرنے والے اور اس پوری تحریک کا محور و مرکز ہمارے لاپتہ شیعہ افراد کے مظلوم خانوادے ہیں اور ہم سب ان کے شانہ بشانہ اس تحریک کو چلا رہے ہیں۔

سوال: جیل بھرو تحریک میں ملی تنظیموں، اداروں اور شخصیات کی حمایت اور شمولیت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: الحمدللہ، جیسا کہ آپ کو پتہ ہوگا کہ دو روز قبل اتوار کو کراچی لاپتہ شیعہ افراد کے حوالے سے آل شیعہ پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی ہے، جو ایک دن کے نوٹس پر بلائی گئی تھی، شیعہ تنظیموں، اداروں، شخصیات پر مشتمل بھرپور اجلاس تھا، اس اے پی سی میں قومی سطح کی تمام شیعہ تنظیمیں شامل تھیں، اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور سندھ کی سطح کی شیعہ تنظیمیں، ادارے، شخصیات سب اس میں شامل تھے، ہیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ، شیعہ علماء کونسل، آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی، مجلس ذاکرین امامیہ، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، مجلس وحدت مسلمین، پیام ولایت فاؤنڈیشن، جعفریہ الائنس، تنظیم عزا، پاسبان عزا، خوجہ شیعہ اثناعشری جماعت، وائس آف شہداء کے سربراہ سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی، بہت سارے ٹرسٹیز حضرات، شخصیات کی بھی بھرپور شرکت تھی، پاک محرم ایسوسی ایشن، مختلف مساجد و امام بارگاہوں کے ٹرسٹیز، علمائے کرام، ذاکرین عظام، شخصیات کی بھرپور شرکت تھی، اگر میں ان میں سے کسی کا نام لینے سے رہ گیا ہوں تو معذرت خواہ ہوں، لہٰذا ایک بھرپور اجلاس تھا، سب نے اس جیل بھرو تحریک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا، سب نے علامہ حسن ظفر نقوی صاحب کی احتجاجاً گرفتاری دینے کے عمل کو سراہا، حمایت کی، لوگوں نے اپنے اپنے نام لکھوائے کہ ہم بھی گرفتاری دینگے اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ جب تک لاپتہ شیعہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، اس وقت تک ہم اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کی تاریخ میں، پاکستان کی تاریخ میں ایسے خوبصورت مناظر کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں، لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی کیلئے شروع کی گئی احتجاجی تحریک کے جہاں دوسرے فوائد ہیں، وہاں ایک بہت بڑا فائدہ خود ہماری ملت کا ایک پیج پر آنا ہے، مشترکہ طور پر اپنے مؤقف کا اظہار کرنا، یہ خود ایک بہت ہی باعث برکت ہے پوری ملت کیلئے، ان شاء اللہ اس کے آئندہ بھی بہت اچھے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

اسلام ٹائمز: احتجاجی تحریک کو کس پلیٹ فارم سے آگے بڑھایا جائیگا۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: شیعہ جماعتوں کی اے پی سی میں طے کرنے کے بعد ایک کمیٹی یا کونسل بنائی گئی ہے، جو تمام ملی تنظیموں کے نمائندگان پر مشتمل ہے، جو اس پوری احتجاجی تحریک کی سربراہی کریگی، ہر سطح پر مذاکراتی عمل بھی یہی کونسل انجام دیگی، لہٰذا باہمی اعتماد کے ساتھ، شفافیت کے ساتھ، تقسیم کار کے ساتھ ان شاء اللہ کاموں کو آگے بڑھایا جائے گا، اور تمام فیصلہ جات باہمی مشاورت کے ساتھ کئے جائیں گے، پوری احتجاجی تحریک میں کسی بھی تنظیم کا نام نہیں چلے گا، صرف ایک ہی نام چلے گا یعنی شیعہ مسنگ پرسنز ریلیز کمیٹی۔ اسی طرح ہماری یہ احتجاجی تحریک مقاصد کے حصول کیلئے آگے بڑھے گی۔ ہر سطح پر مذاکرات بھی اسی کمیٹی کے ذمہ ہونگے، اب یہ کمیٹی دو افراد کو بھیجے گی، دس افراد کو بھیجے گی، یہ فیصلہ کمیٹی طے کریگی۔ مقاصد کے حصول تک اس احتجاجی تحریک کو فعال رکھنا اور عوام کی اس میں شمولیت کو یقینی بنانا، اس کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

سوال: لاپتہ شیعہ افراد کی بازیابی اور جیل بھرو تحریک کے حوالے سے عوام کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟
علامہ احمد اقبال رضوی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی تحریک عوامی شمولیت کے بغیر نہیں چل سکتی، اکیلا کوئی بھی تحریک نہیں چلا سکتا، وہ اپنی آواز بلند کرسکتا ہے، تقریر کرسکتا ہے، بیان دے سکتا ہے، لیکن تحریک عوام کے بغیر نہیں چلا سکتا، تحریک تو ہوتی ہی وہی ہے جو عوام کے ساتھ ہو، جس تحریک کے ساتھ، آواز کے ساتھ، مؤقف کے ساتھ عوام نہ ہو، وہ کبھی تحریک نہیں بن سکتی، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، چاہے لیڈر مولا علی علیہ السلام جیسے ہی موجود ہوں، لیکن اگر عوام ساتھ نہ دے تو مولا علی علیہ السلام کو بھی پچیس سال خاموش بیٹھنا پڑتا ہے، سکوت کرنا پڑتا ہے، کیوں، اس لئے کہ عوام پیچھے نہیں ہے، لہٰذا عوام کو اس ملی مسئلے میں اپنی شمولیت یقینی بنانی چاہیئے، ہمیں بھی عوام کو شریک کرنا چاہیئے، عوام کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیئے، قرآن کریم کے مطابق بھی اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم اپنی حالت کو خود سے نہ بدلے۔ لہٰذا قوم جب تک خود سے تیار نہیں ہوگی، قومی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ میرا تو کوئی بیٹا یا بھائی لاپتہ نہیں ہے، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ قوم کے بچے ہمارے اپنے بچے ہیں، اگر ہم اس طرح سے نہیں سوچیں گے کہ قوم کا ہر بچہ ہمارا اپنا بچہ ہے، اگر اس طرح سے ہماری اجتماعی سوچ نہیں ہوگی، تو پھر ہم کمزور سی انفرادی زندگی گزاریں گے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی کو انفرادی طور پر کوئی نقصان ہوتا ہے تو باقی قوم ساتھ کھڑی نہیں ہوتی، لہٰذا جب تک پوری قوم اجتماعی سوچ پیدا نہیں کرتی کہ اگر ہماری قوم کے کسی ایک فرد کو درد ہوتا ہے، تکلیف ہوتی ہے، مصیبت ہوتی ہے، تو پوری قوم اس فرد کے دکھ، درد، تکلیف، مصیبت کو محسوس کرے، اس سے نجات دلانے کیلئے اس فرد کے ساتھ پوری قوم کھڑی ہو۔

لاپتہ شیعہ افراد کی مظلوم ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بچوں، بزرگوں کے جو مظلومیت کے اظہار پر مبنی ویڈیو آڈیو کلپس سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں، پوری قوم ان کلپس کو ضرور سنے دیکھے، پھر سب کو احساس ہوگا کہ یہ مظلوم خانوادے کس کرب و درد سے گزر رہے ہیں، ان کے شب و روز کس اذیت میں کٹ رہے ہیں۔ ان مظلوم مظلوم ماؤں، بہنوں، بیٹوں کی فریاد تو سنو، وگرنہ ایسے شیعہ ہونے کا کیا فائدہ کہ مظلوم کی فریاد پر لبیک کہتے ہوئے ان کی مدد و نصرت نہ کر سکو، وگرنہ ہمارے لبیک یاحسینؑ کہنے کا فائدہ کیا، لہٰذا تمام شیعیان حیدر کرار سے میری گزارش ہے کہ ہمیں انفرادی زندگیوں سے نکل کر اجتماعی زندگی میں آنا چاہیئے، جو اصل میں اسلامی زندگی ہے، جس زندگی کو اہل بیت علیہم السلام اور قرآن مجید نے گزارنے کی تاکید فرمائی ہے، لہٰذا ہم سب کو، پوری قوم کو اجتماعی زندگی گزارنے اور اجتماعی طور پر اپنے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہمارے ساتھ اسی طرح زیادتی، ظلم و ستم ہوتا رہے گا، لہٰذا آج علماء میدان میں ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں، وہ لوگ جو کل کہتے تھے کہ علماء میدان میں نہیں نکلتے، آج وہی لوگ گھروں میں بیٹھے ہیں اور علماء میدان میں ہیں، لہٰذا سب کو سوشل میڈیا کی دنیا سے باہر نکل کر، آرام دہ، ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر، ٹی وی، انٹرنیٹ اور کیبل چھوڑ کر باہر میدان میں نکل کر پوری قوم اس احتجاجی تحریک کا حصہ بنے، احتجاجاً گرفتاریاں دینے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، شیعہ عوام سے ہم نے اپیل کر دی ہے کہ گرفتاری دینے کے حوالے سے فہرست تیار ہو رہی ہے، جو رجسٹریشن ہو رہی ہے، اس میں اپنا لکھوایئے، میدان میں حاضر ہو کر اپنے جذبات کا اظہار کریں، تاکہ مظلوم خانوادوں کو حوصلہ ملے کہ پوری ملت جعفریہ ہمارے ساتھ کھڑی ہیں، ہم تنہا نہیں ہیں، اس قانونی، آئینی، جمہوری تحریک میں۔


خبر کا کوڈ: 288149

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/news/288149/لاپتہ-شیعہ-افراد-کو-کس-ادارے-نے-اٹھایا-کیوں-کہاں-حال-میں-رکھا-ہے-نہیں-معلوم-علامہ-احمد-اقبال-رضوی

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com